کسانوں کے معاملے میں وزیر اعظم مودی نے ٹیلی ویژن پر
تسلیم کیا کہ ان کی تپسیا(عبادت و ریاضت) میں کمی رہ گئی اور معافی بھی طلب
کی ۔ کسانوں نے انہیں معاف کیا نہ ان کے کہنے پر واپس گئے۔ وہ اپنی مرضی پر
آئے تھے اپنے شرائط پرگئے۔ مودی جی کو انہوں نے واپسی کا کریڈٹ لینے سے
محروم کردیا ۔ معذرت کی رسوائی کے دس دن بعد وزیر داخلہ امیت شاہ نے
ناگالینڈ کی بابت ایوان پارلیمان میں مان لیا کہ غلطی ہوگئی ساتھ ہی افسوس
کا اظہار کرکے انصاف کا یقین دلایا۔ وزیر داخلہ جس وقت اپنا تحریر شدہ بیان
پڑھ کر سنا رہے تھے ان کا چہرہ اترا ہوا تھا ۔ اس بیان کے بعد کسی کو سوال
پوچھنے کا یا بحث و مباحثہ کا موقع نہیں دیا گیا ۔ اس سے صاف ظاہر تھا کہ
حکومت صرف رسم ادا کررہی ہے اور اس کےاندر ارکان پارلیمان کے سوالات کا
جواب دینے کی ہمت نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناگالینڈ کا سانحہ اسی دن
رونما ہوا جب وزیر داخلہ بی ایس ایف کا حوصلہ بڑھانے کی خاطر پاکستان کے
سرحدی ضلع جیسلمیر پہنچے ۔اصولاً یہ وزیر دفاع کی ذمہ داری تھی لیکن اس
حکومت میں جہاں ہر طرف بے قائدگی کا بول بالہ ایسا ہونا عام سی بات ہوگئی
ہے ۔ امیت شاہ نے حوصلہ کیا بڑھایا کہ ملک کے دوسرے سرے پر آسام رائفلس نے
پہلے 6 اور بعد میں 8 شہریوں کو گولیوں سے بھون دیا ۔
اس واقعہ کو ٹویٹ کے ذریعہ افسوسناک قرار دیتے ہوئے مرکزی وزیر داخلہ امیت
شاہ نے مہلوکین کے اہل خانہ سے گہری تعزیت کا اظہار کیااور اس کا ارتکاب
کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنےکی ہدایت کی ۔ وزیر اعلیٰ نیفیو ریو
نے سانحہ کی تحقیقات کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل دے دی ۔ ایوان پارلیمان میں
بھی وزیر داخلہ امیت شاہ نے وہی بات تفصیل کے ساتھ دوہرا دی جو ٹویٹ میں
کہی تھی ۔ انہوں نے ناگالینڈ کے واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا
کہ حالات کشیدہ مگرقابو میں ہے ۔ واقعہ کی تفصیلی معلومات دیتے ہوئے انہوں
نے کہا کہ فوج کو ایک گاڑی سے عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کی اطلاع ملی
تھی، اس لیے اس کے کمانڈوز نے مشکوک جگہ پر پہنچ کر گاڑیوں کی جانچ شروع
کردی۔ ایک گزرنے والی گاڑی کو جب رکنے کا اشارہ کیا گیا تو ڈرائیور نے گاڑی
روکنے کی بجائے اسے بھگانے کی کوشش کی۔ عسکریت پسندوں کی موجودگی کے شبہ
میں سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے گاڑی پر فائرنگ کردی۔ اس گاڑی میں آٹھ
افراد سوار تھے ۔ گولہ باری کے واقعہ میں آٹھ میں سے دو افراد زخمی ہوئے ۔
وزیر داخلہ کے اس بیان کی زندہ بچ جانے والے شائی ونگ نے انڈین ایکسپریس کے
نمائندے سے تردید کردی ۔ اس کے مطابق ان لوگوں نہ تو کوئی اشارہ کیا گیا
اور نہ انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی بلکہ اچانک آگے اور پیچھے اندھا دھند
فائرنگ شروع ہو گئی۔ ناگالینڈ کے ڈی جی پی اور پولس کمشنر نے بھی اپنی
رپورٹ میں کہا ہے کہ فوج نے گاڑی میں سوار مزدوروں کی شناخت کے لیے کوئی
کوشش نہیں کی اور فائرنگ کردی۔ سوال یہ بھی ہے کہ فوج کے جوان اگر مزدوروں
کو تفتیش کے لیے روکتے ہیں تو آخر انہیں فرار ہونے کی ضرورت کیا ہے؟اس لیے
وزیر داخلہ کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوگیا۔امیت شاہ کے بیان میں دوسرا جھوٹ یہ
تھا کہ ’’بعد ازاں جب گاڑی میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کا خدشہ غلط ثابت
ہوا تو فوجی جوانوں نے زخمیوں کو اسپتال لے جاکر ان کا علاج شروع کیا‘‘۔
اس دعویٰ کی تردید کئی ذرائع سے ہوئی۔ پولس اہلکاروں کی تفتیشی رپورٹ کے
مطابق فوجیوں نے لاشوں کو اپنے کیمپ لے جانے کےارادے سے بیگ میں لپیٹ کر پک
اپ وین میں ڈال دیا تھا۔ چشم دید گواہ کے مطابق فوجی جوانوں نے لاشوں کو
گاڑی سے گھسیٹ کر نکالا ۔ یہ خبر بھی آئی کہ انہیں چھپا نے کے بعد خون کے
نشان مٹائے گئے۔ اس قتل عام کی اطلاع اس وقت سامنے آئی جب گاوں والے اپنے
لوگوں کی تلاش میں نکلے ۔ اسپتال کے اہلکاروں نے بتایا کہ کچھ نامعلوم لوگ
انہیں گوہاٹی کے دواخانے میں چھوڑ گئے۔ وہ اگر فوجی ہوتے تو اپنی شناخت
کیوں چھپاتے ؟ اس لیے امکان یہ ہے کہ وہ عسکریت پسند تھے جو انہیں اسپتال
میں داخل کرکے چپ چاپ چلے گئے ۔وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا کہ واقعہ کی اطلاع
ملتے ہی کچھ مقامی لوگ وہاں جمع ہوگئے اور سیکورٹی فورسز کی گاڑیوں کو
نقصان پہنچانا شروع کردیا۔ انہوں نے فائرنگ بھی کی اور فوجیوں پر حملہ کیا،
جس میں کئی فوجی زخمی ہوئے ۔ سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے اپنے دفاع میں
اور ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے گولی چلائی جس سے مزید سات شہری ہلاک اور
کچھ زخمی ہوگئے ۔
مندرجہ تفصیل کے مطابق پہلے 6لوگ تو غلطی سے ہلاک ہوئے تھے مگر وزیر داخلہ
کے مطابق بعد والے فوج پر حملہ آور تھے اور ان کو دفاع میں مارا گیا۔ یہ
بات اگر درست ہے تو وزیر داخلہ نے پہلے والے بے قصور لوگوں کے ساتھ بعد
والے حملہ آوروں کے کنبوں سے اپنی گہری تعزیت کا اظہار کیوں کیا ؟ کیا اسی
طرح کا رویہ ملک کے دوسرے حصوں میں اور خاص طور پر کشمیر میں اختیار کیا
جاتاہے؟ ناگالینڈ کے وزیر اعلیٰ نیفیو ریو نے ان مہلوکین کے اہل خانہ کو
حکومت کی طرف سے 11 لاکھ روپے اور سرکاری ملازمت دینے کا اعلان کیوں کیا؟
ان کے جنازے میں شرکت بھی کی اور اس کے بعد ناگالینڈ پولیس نے 21ویں پیرا
ایس ایف کمانڈوز کے خلاف شہریوں پر گولی باری میں مبینہ طور پر ملوث ہونے
اور قتل کا معاملہ کیوں درج کیا ؟ یہ ایک منفرد واقعہ ہے جہاں پولس نے فوج
کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا ہے۔
ناگا لینڈ کے معاملے میں قابلِ قدر حساسیت کا مظاہرہ کیا گیا کیونکہ حکومت
وہاں پر علٰحیدگی پسندی کا خاتمہ چاہتی ہے۔ کشمیر کے اندر بھی حکومت یہی
دعویٰ کرتی لیکن وہاں اس کا رویہ یکسر مختلف ہوتا ہے۔ ایک جگہ حملہ آوروں
کو باغی یا انتہاپسند کہا جاتا ہے مگر دوسرے مقام پر انہیں دہشت گرد قرار
دے کر افواج کو کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔ گذشتہ ماہ کی 15 تاریخ کو سرینگر
کے حیدرپورہ میں مبینہ طور پر تین عام شہریوں کی ہلاکت کے بعد اگرچہ
لیفٹیننٹ گورنرمنوج سنہا نے مجسٹریٹ کے ذریعہ انکوائری کے احکامات دیتے
ہوئے 15 دنوں کے اندر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی مگر اس سے زیادہ دن گزر
جانے کے بعد بھی رپورٹ پیش نہیں ہوئی۔ذرائع کے مطابق غیر جانبدارانہ تفتیش
مکمل ہوچکی ہے اور اُمید ہے کہ ہلاک شدہ افراد کے رشتہ داروں کو مطمئن کر
پائے گی۔ یہ تو اسی وقت ممکن ہے جب جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو قرار واقعی
سزا ملے۔ مظلومین کے اہل خانہ پر امید تو ہیں اب دیکھنا یہ ہے حکومت اس پر
پوری اترتی ہے یا نہیں؟
پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے دہلی کے جنتر منتر پر اپنے کارکنان کے ساتھ
کشمیر میں جاری تشدد اور حالیہ ہلاکتوں کے خلاف ایوان پارلیمان کے سرمائی
اجلاس کے دوران احتجاج کیا ۔انہوں نے امن و امان کے حکومتی دعویٰ کی تردید
کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی سڑکوں پر خون بہایا جا رہا ہے اور لوگوں کو اپنی
رائے کا اظہار کرنے پر انسداد دہشتگردی کے قوانین کے تحت گرفتار کیا جا رہا
ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ کشمیری عوام کو بولنے کی اجازت نہیں ہے،
باہر نکلنے کی بھی اجازت نہیں ہےاگر کوئی باہر نکلتا ہے تو اسے گولی مار دی
جاتی ہے۔ محبوبہ مفتی نے کشمیر ی نوجوانوں پر یو اے پی اے کی دفعات کے تحت
جیلوں میں قیدکرنے اور ملک کی دیگر ریاستوں میں منتقل کرنے کا الزام لگایا۔
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ کشمیر کو گوڈسے کا کشمیر بننے نہیں دیں
گی حالانکہ موجودہ مودی حکومت یہی چاہتی ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ
یہ گاندھی کا ملک ہے اور اسے ہم گوڈسے کے پیروکاروں کے حوالے نہیں کریں گے۔
اپنے مظاہرے کے دوران محبوبہ مفتی نے مطالبہ کیا کہ کشمیر میں معصوم لوگوں
کا خون بہانا بند کرکے اس مسئلہ کوبات چیت سے حل کیا جائے۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بھی سرمائی اجلاس کے وقت اپنے ارکانِ پارلیمان اکبر
لون اور حسنین مسعودی کے ساتھ پارلیمنٹ کے لان میں گاندھی جی کے مجسمہ کے
سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ 5؍ اگست
2019 کے فیصلوں کو اسی طرح واپس لیا جائے، جس طرح مرکزی حکومت کی جانب سے
نافذ کردہ زرعی قوانین کو واپس لیا گیا۔ اس حکومت کا معاملہ عجیب ہے کہ ایک
طرف تو وہ کہتی ہےآئین میں 370 کی شق کی منسوخی کسی صورت واپس نہیں ہوگی
مگر زرعی قوانین کو مسترد کردیتی ہے۔ ناگالینڈ میں امن و امان کے قیام کی
خاطر نرمی اختیار کرتی ہے مگر کشمیر کے معاملے میں سخت گیر رویہ اپناتی ہے
یہ دوغلاپن کسی حکمراں کو زیب نہیں دیتا ۔ تقریباً 20؍ سال قبل بی جے پی کے
ہی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے نریندر مودی کو راج دھرم کا پالن کرنے
کی تلقین کی تھی لیکن یہ بات مودی جی کو اس وقت سے اب تک سمجھ میں آئی ۔
ناگالینڈ کی بابت امیت شاہ نے ایوان کو بتایا کہ حکومت وہاں کے حالات پر
قابو پا کر ماحول کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کے لیے وہ خود
ریاستی حکومت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ مرکزی حکومت کے شمال مشرقی امور
کے ایک سینئر افسر کو موقع پر بھیجا گیا ہے ۔ اس بیان کو وزیر داخلہ کی اس
سانحہ کے بعد والے دن کی سرگرمیوں سے جوڑ کر دیکھنا چاہیے۔ پانچ دسمبر کو
وزیر داخلہ ناگالینڈ جانا تو دور دہلی بھی لوٹ کر نہیں آئے۔ انہوں نے
جیسلمیر میں ایک عوامی جلسہ سے خطاب کرکے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت سے پوچھا
کہ اب ان کی سرکار کو کون گرا رہا ہے؟ یہ بھی کہا کہ راجستھان میں ’لاء
اینڈ آرڈر‘ کا مطلب ہوتا ہے ’نظم و نسق‘ لیکن گہلوت سرکار چونکہ پوری طرح
بدعنوان ہے اس لیے اس کے یہاں یہ ’لو اور آرڈر کرو‘ بن گیا ہے۔ اس کے بعد
انہوں 2023 میں بی جے پی کے دوبارہ دو تہائی سے زیادہ اکثریت کے ساتھ
کامیاب ہونے کی خوشخبری بھی سنا دی۔ کیا یہ حقیقی حساسیت ہے کہ ٹویٹ پر اور
ایوان پارلیمان میں تومگرمچھ کے آنسو بہائے جائیں اور اس دوران اپنی ذمہ
داری ادا کرنے کے بجائے انتخابی تقاریر کی جائیں؟ ناگا لینڈ کے سانحہ نے
پھر ایک بار بی جے پی کے جھوٹ اور جعلی دیش بھکتی کو بے نقاب کردیا ہے۔
|