گذشتہ ماہ اسرائیل کے سابق انٹیلی جنس چیف، جنرل تیمر
ہیمن نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا
ہے۔سابق اسرائیلی جنرل کا یہ بیان سال رواں کے ماہ نومبر میں عبرانی زبان
کی انٹیلی جنس ہیری ٹیج سینٹر میگزین ’مابات مالام‘ میں شائع ہوا تھا۔یہ
رسالہ اسرائیلی انٹیلی جنس سروسز سےمنسلک ہے ۔یہ انٹرویو ستمبر کے آخر
میںجنرل کے ریٹائرمنٹ سے چند ہفتے قبل ہوا تھا۔ اس انٹرویو کواسرائیل
براڈکاسٹنگ کارپوریشن (ایم کے این) کی جانب سے براڈکاسٹ کیا گیاتھا۔مذکورہ
بیان کےمطابق جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی نے اہم
کردار ادا کیا۔
3؍جنوری 2020 ء کو جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعدسے ہی اسرائیل کو مورد
الزام ٹھہرایاجارہا تھامگرکوئی پختہ ثبوت نہیں تھالیکن اب یہ بات واضح
ہوچکی ہے کہ ایرانی جنرل کے قتل میںامریکہ و اسرائیل دونوں کے ہاتھ خون
ناحق سے رنگین ہیں ۔ خون ناحق کا استعمال عمداًکیا ہے ۔یہ کسی مذہبی جنون
یا عقیدہ کا اظہار نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی رپورٹ ہے ۔اقوام متحدہ کی
ماورائے عدالت قتل تحقیقات کی ماہراور انسانی حقوق کے عالمی ادارہ ایمنسٹی
انٹرنیشنل کی جنرل سکریٹری ایگنس کالامرڈ نے اپنی رپورٹ میں واضح لفظوں میں
کہا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کا قتل غیر قانونی تھا۔
جنرل سلیمانی کا غیر قانونی طورپر قتل ہوجانے کے بعد بھی اسلامی تعاون
تنظیم (او آئی سی) نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور اس قتل میں ملوث دیگر
ملزمین کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ۔ ایران کے سرکاری وکیل علی
القاسمی مہرنے انٹرپول سےاس قتل میں ملوث35 افراد بشمول صدر امریکہ کی
گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا جسے انٹرپول نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ یہ
سیاسی نوعیت کا معاملہ ہے ۔ اس کا قومی سلامتی، بین الاقوامی امن اور
استحکام کو بڑھانے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔انٹرپول تنظیم کا کہنا تھا کہ اپنے
قواعد کے مطابق وہ کسی بھی سیاسی، عسکری، مذہبی یا نسل پرستانہ کارروائی
میں شریک نہیں ہو سکتے۔
ان تمام مسائل کے باوجود اُسی سال ماہ اگست کی 13 ویںتاریخ کو ایران کو
مزید تنہاکرنے کے لیے متحدہ عرب امارات نے امریکی صدرڈونالڈ ٹرمپ کے ایما
پر اسرائیل کو تسلیم کرلیا اور پھر اس کے بعد دیگر اسلامی ممالک بھی اسی
فہرست میں شامل ہوگئے ۔یوں ایک طرف ایران تنہاہورہاتھا تو دوسری جانب
فلسطین کاز کو چھراگھونپاجارہا تھا۔ابھی یہ سب چل ہی رہاتھا کہ ایران کے
ایٹمی سربراہ محسن فخری زادہ کو دن دہاڑے قتل کردیا جاتا ہے ۔ اس طرح ایران
نے ایک اور قومی ہیرا کھودیا ۔
ان تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے تاریخ اسلام کے ایک واقعہ کی جانب توجہ
مبذول ہوئی جاتی ہے ،شعب ابوطالب علیہ السلام کی جانب ۔ جہاںتقریباً ڈھائی
سال تک مشرکین مکہ کو ایسا محسو س ہونے لگاتھا کہ اب بس اسلام کا صفایا
ہوچکا ہے ۔ گنتی کےدن رہ گئے ہیں لیکن بالآخر’ جاء الحق وزھق الباطل ان
الباطل کان زھوقا ‘کی منزل آئی اور دشمنان اسلام کی لکھی تحریک کو دیمک
چاٹ گیا۔
ادھر کچھ عرصہ سے جوہر ی مذاکرات میں تیزی آئی تو اسرائیل بوگھلا اٹھا اور
اس نے پھر سے ایران کو ایٹمی اسلحہ جات سے دور کرنے کی کوشش کی اور ابھی
بھی دیگر ممالک کو ایران کے خلاف ورغلانے میں بدستور مصروف ہے جبکہ ایرانی
حکومت نے واضح لفظوں میں اعلان ہے کیا ہے؎
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
سابق اسرائیلی انٹیلی جنس چیف کا مذکورہ انٹرویوایسے منظرنامہ پر
ابھرکرآیا ہے جہاں ہر کوئی بے سرومانی کاکیفیت سے دوچار ہے ۔ اس بیان نے
زخم پرزہر کا کام کیا ہے ۔اس وقت 2015 میں امریکی صدر براک حسین اوباما کے
دور کا ایٹمی معاہدہ دوبارہ رفتارپکڑنے لگاہے، اس لیے سابق اسرائیلی جنرل
کے انٹرویو کوایٹمی مذاکرات کے تناظر میں دیکھاجارہا ہے ۔اس کے علاوہ ایران
نے25 دسمبربروز جمعہ کو ایک ملٹری ڈرل ،پیغمبر اعظم۔17 میں اسرائیل کے
ایٹمی مرکز’ڈیمونا‘کی شبیہ پر 16بیلسٹک میزائل کا گھاتک تجرباتی حملہ
دکھایاہے ۔یہ جوابی مظاہرہ اسرائیل کے اس بیان کے ردعمل کو ظاہر کررہا ہے
جس میں اس نے ایران کے ایٹمی مراکز پر حملہ کرنے کو کہا تھا۔
اب ایسے کشمکش کے عالم میں غیر سے امید وفا کب عقلمندی کی علامت ہے۔اب تو
اپنے بھی ساتھ چھوڑ رہے ہیں اور صرف ساتھ چھوڑنے پر منحصر نہیں بلکہ دشمن
سے ہاتھ ملارہے ہیں۔ جہاں تک عالمی تعاون تنظیم کا مسئلہ ہے ۔ یہ محض ایک
علامتی تنظیم بن کر متحرک بُت کی طرح قائم ہے ۔ اس تنظیم کا سربراہ سعودی
عرب ہے ۔ اب رہا ویانا مذاکرات کا مسئلہ ہے ۔ اگر ہم تاریخی تجزیہ کریں اور
مان لیتےہیں کہ ایران کی حالت شعب ابوطالب جیسی ہے تو پھر ایران کا مستقبل
روشن ہے ۔ کچھ سال مشکلات پھر مذاکرات کا حل اور ایران پابندیوں کی فائل
دیمک کےحوالہ …!
٭٭٭
|