پیپلز پارٹی کی پنجاب میں شکست کے اسباب

پاکستان میں بلدیاتی انتخابات کا دور شروع ہو چکا ہے اور خیبر پختونخواہ میں جے یو آئی نے میدان مار لیا ہے جو کہ پاکستان کی بڑی جماعتوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے اس تمام تگ ودو میں (ن) لیگ اپنا کھویا ہوا وقار بحال کر رہی ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف اپنا وقار کھو رہی ہے ان دونوں جماعتوں کے بر عکس پاکستان پیپلز پارٹی گو مگوں کا شکار نظر آتی ہے اس پارٹی کی اگر ماضی کی بات کی جائے تو شہید ذولفقار علی بھٹو سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو تک کے دور میں پیپلز پارٹی بڑے پائے کی جماعت رہی ہے کیونکہ ان پارٹی لیڈران کی بدولت یہ غریبوں، مزدوروں کی جماعت بن چکی تھی مگر ان لیڈران کی وفات کے بعد جونہی پارٹی کی سربراہی آصف علی زرداری کے حصے میں آئی پاکستان پیپلز پارٹی تنزلی کی جانب گامزن ہو گئی اور پے در پے شکست کے بعد اول نمبر پر آنے والی جماعت تیسرے نمبر پر پہنچ گئی اس جماعت کی شکست کی بڑی وجہ اپنے کارکنوں سے احسان فراموشی ہے جنہوں نے بھٹو اور بے نظیر کی قیادت میں پارٹی کو ملک میں ایک مقام دلایا اس کی تفصیل پاکستان پیپلز پارٹی کے بزرگ اور سینئیر رہنما چوہدری عبدالغفور بتاتے ہیں کہ ذولفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا ایک وژن تھاجس کے تحت پارٹی کارکنان کے شانہ بشانہ ملک میں استحکام لانے کے لئے سیاسی جدو جہد کی جاتی تھی اور کارکنان میں جوش و جذبہ پایا جاتا تھا بھٹو کے وژن کے مطابق ملک میں زکوٰۃ و عشر کمیٹیاں قائم کی جاتی تھیں جن کی سربراہی پارٹی کارکنان کے سپرد ہوتی تھی جس کے تحت علاقے کے غریب مزدور پیشہ طبقے کی داد رسی اور مالی امداد کی جاتی تھی اس کے ساتھ ساتھ علاقوں کی بنیاد پر کرائم کمیٹیاں تشکیل دی جاتی تھیں جو کہ پولیس کے ساتھ مل کر علاقے میں جرائم کی روک تھام کے لئے کام کرتے تھے اور یہ تمام ذمہ داریاں پارٹی کارکنان بغیر کسی لالچ کے بے لوث جذبے سے سرشار ہو کر ادا کرتے تھے چوہدری صاحب مزید بتاتے ہیں کہ اس دور میں لوٹا کریسی کا رواج عام نا تھا پیپلز پارٹی کے ساتھ بڑے نامی گرامی کارکنان جڑے ہوئے تھے جن میں حاجی اصغر گھرکی، شاہ محمد محسن ایڈووکیٹ، قیوم نظامی، پروفیسر اعجازالحسن، ملک احسان گنجیال، جہانگیر بدر، حاجی عبدالمنان، راؤ سکندر اقبال، رانا اکرام ربانی، خالد گھرکی اور دیگر پارٹی رہنما شامل تھے جو کہ مستقل بنیادوں پر عوامی حلقوں کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے اور پارٹی کا نظام بڑے منظم انداز میں چل رہا تھا عوام پیپلز پارٹی کو پسند کرتی تھی مگر پارٹی کے دو بڑوں کی وفات کے بعد آصف علی زرداری نے پارٹی کی صدارت سنبھالتے ہی پارٹی کے وفادار کارکنان کو یکسر نظر انداز کر دیااور یوں پاکستان پیپلز پارٹی کا زوال شروع ہوا جو کہ ابھی تک جاری ہے جس کی تازہ مثال لاہور میں ہونے والے NA-133 کا ضمنی انتخاب ہے جس میں پارٹی نے روٹھے ہوئے کارکنوں کو منانے کی بجائے ووٹ خریدنے کی سیاست کو فروغ دیا جس کے نتیجے میں پارٹی کو شکست سے دو چار ہونا پڑا اور پارٹی کی اس نادانی کی وجہ سے بھٹو کے کارکن جو پہلے ہی مایوس ہو چکے تھے انہوں نے پارٹی کو خیر باد کہہ دیا اس تناظر میں پاکستان پیپلز پارٹی یہ یاد رکھے کہ اگر انہوں نے ووٹ خریدنے کی سیاست کو چھوڑ کر بھٹو کی حقیقی سیاست کی طرف رخ نا کیا تو وہ یہ طے کر لے کہ آئندہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں اُن کی شکست یقینی ہے کیونکہ چوہدری عبدالغفور جیسے لاکھوں کارکنان زرداری کی اس پارٹی پالیسیوں سے سخت نالاں ہیں دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف جس کو نوجوانوں کی جماعت کہا جاتا تھا نے عوامی امنگوں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں آئے روز ہونے والی مہنگائی نے عوام کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے لوگ دو وقت کی روٹی کے لئے دھکے کھا رہے ہیں ان تمام بے یقینی کی کیفیت نے عوام کو ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کی جناب متوجہ کر دیا ہے کیونکہ پنجاب میں بزدار حکومت بری طرح سے فلاپ ہو چکی ہے مہنگائی ایک جانب بزدار حکومت نے لاہور کو کراچی بنا کر رکھ دیا ہے بے ہنگم ٹریفک، جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیڑ ، ٹوٹی سڑکیں، صاف پانی کی عدم دستیابی، گیس کی کمی، سیوریج کا ناقص نظام اور کاروبار کی تباہی وہ بنیادی ضروریات ہیں جو کہ شہباز شریف کے دورِ حکومت میں عام عوام کو مہیا تھیں اور اب ایک بار پھر پنجاب کی عوام شہباز شریف کو پنجاب کے اور ملک کے سربراہ کے طور پر دیکھ رہی ہے امید کرتے ہیں کہ اس بار ایسے حکمران آئیں جو کہ حقیقی معنوں میں ملک کو زوال سے باہر نکالیں بقول شاعر:
خُدا کرے کہ میری عرض پاک پر اُترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشہ زوال نا ہو
 

M.Irfan Chaudhary
About the Author: M.Irfan Chaudhary Read More Articles by M.Irfan Chaudhary: 63 Articles with 59466 views I Started write about some serious issues and with the help of your feed back I hope I will raise your voice at the world's platform.. View More