سرورکونینﷺ سے محبت ہی محبت الٰہی ہے کیونکہ رب تعالیٰ
قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے کہ اے ایمان والو!’’تم اﷲ اور اس کے رسول ؐ
کی اطاعت کرو بے شک یہ مومنوں پر فرض ہے‘‘حقوق اﷲ کی معافی ممکن ہے مگر
حقوق نبیؐ میں کوتاہی کسی بھی صورت قابل قبول نہیں جس نے نبی رحمتﷺ کی
اطاعت کی اس نے اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کی اور وہ فلاح پاگیا ۔علامہ خادم حسین
رضوی سے لاکھ نظریاتی اختلاف ہوسکتے ہیں مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا
جاسکتا کہ یہ شخص ایک سچا عاشق رسول ؐ تھا جس نے عشق مصطفیؐکا جام پی رکھا
تھا ۔جو ناموس رسالتؐ کی حفاظت کے لیے ناتواں بدن کے ساتھ وقت کے فراعین کو
للکارتے ہوئے ٹکرا جاتا تھا ۔توہین رسالتؐ کے قانون میں ترمیم کی جاتی ہے
تو وقت کے بڑے بڑے جید اشتہاری،درباری،سرکاری،سیاسی،خوشامدی ملاں خاموشی
اختیار کرلیتے ہیں مگر ایک 52سالہ معذور عاشق رسولؐ ہاتھ میں ’’تحفظ ناموس
رسالتؐ‘‘ کا پرچم تھامے وہیل چیئرپر اپنے ساتھیوں سمیت شاہراؤں پر نکلتا ہے
تو پولیس لاٹھی چارج کرتی اور انہیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جاتا ہے
۔’’تحفظ ناموس نبیؐ‘‘ کے لیے پابند سلاسل ہوناکتنے اعزاز کی بات ہے اس بات
اندازہ تو آپ عاشقان رسولؐ کے عشق سے لگا سکتے ہیں ۔مولانا عبدالستارخاں
نیازی ؒ ’’تحریک ختم نبوت کے ہیرو ،تحریک نظام مصطفیؐ کے روح رواں اور
تحریک تحفظ ناموسؐ کے سالار تھے ۔تحفظ ختم نبوت ؐ کے محاذ پر انکی قربانیاں
ناقابل فراموش ہیں 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں ان کا بڑا اہم کردار ہے
۔تحریک کے مرکز مسجد وزیر خان لاہور میں تحریک کی قیادت کرتے رہے انہیں
گرفتار کرلیا گیافوجی عدالت نے انہیں سز ائے موت سنادی ۔آپ نے خندہ پیشانی
سے اس سزا کو قبول کیا (عاشقان مصطفی ؐ سزاؤں سے کب ڈرتے ہیں یہ تو پھانسی
کا پھندا بھی پھولوں کا ہار سمجھ کر گلے میں پہنتے ہیں اور خوشی سے سولی پر
جھول جاتے ہیں )بعدازاں حکومت نے سزائے موت کو عمر قید تبدیل کردیا ۔پھر
دوسال اور ایک ماہ بعد یہ سزا بھی ختم ہوگئی ۔مولانا عبدالستار خاں نیازی ؒ
اپنی اسیری کے بارے میں فرماتے ہیں ’’مجھے اپنی زندگی پر فخر ہے کہ جب
تحریک ختم نبوت کے مقدمہ کے بعد میری رہائی ہوئی تو میڈیا والوں نے میری
عمر پوچھی اس پر میں نے کہا تھا ’’میری عمر وہ دن اور راتیں ہیں جو میں نے
ختم نبوتؐ کے تحفظ کی خاطر پھانسی کی کال کوٹھڑی میں گزاری ہیں کیونکہ یہی
میری زندگی ہے اور باقی شرمندگی ہے مجھے اپنی اس جیل والی زندگی پر ناز ہے
۔علامہ خادم حیسن رضوی نے مسلک اہلسنت کے اندر نئی روح پھونکی تھی وہ بندہ
نبی رحمت ؐ کی ناموس کی پہرہ داری کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملا(اناﷲ
واناعلیہ راجعون)تحفظ ختم نبوت پر زندگی فدا کردینا زندگی کا بہترین
استعمال ہے اس کام کی فضیلت اس قدر ہے کہ علماء کرام کا اتفاق ہے کہ جو شخص
اس بات کا خواہش مند ہو کہ وہ سیدناّمحمد عربی ﷺ کی ذاتی خدمت کرنا چاہے تو
وہ ختم نبوت کے تحفظ کا کام کرے ۔نبی رحمتؐ سے محبت کرنا ایمان کا حصہ نہیں
بلکہ یہی ایمان ہے کیونکہ کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک
نبی کریم ؐکے ساتھ اپنی جان،اہل وعیال ،والدین اور تمام دنیا سے بڑھ کر نہ
محبت کرے ۔آپ ﷺ سے والہانہ محبت کرنا اور تعظیم کرنا کرنا عین عبادت ہے اور
یہ وہ عبادت ہے جو ہرصورت قبول ہوتی ہے ۔(سورۃ التوبہ24)میں اﷲ رب العزت
ارشاد فرماتا ہے ’’آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے تمہارے
بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال
اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہواور وہ حویلیاں جسے تم پسند کرتے ہو
اگر یہ تمہیں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ اور اسکی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز
ہیں تو تم انتظار کرو کہ اﷲ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے ۔اﷲ تعالیٰ فاسقوں کو
ہدایت نہیں دیتا ۔قرآن کریم کی یہ آیت اور دیگر احادیث اس بات کی دلالت
کرتی ہیں کہ بندہ مومن کو رسولﷺ سے ضرور محبت کرنی چاہیے اور یہ محبت دنیا
کی تمام محبوب چیزوں سے حتیٰ کہ اپنی عزیز جان سے بھی بڑھ کر ہونی چاہیے
۔جب تک کوئی شخص اس معیار پر پورا نہ اترے ،اس کا ایمان بھی مکمل نہیں
ہوسکتا ۔قرآن کریم( سورۃ احزاب) میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’بے شک اﷲ
اور اس کے سب فرشتے نبی مکرم ﷺ پر درو بھیجتے رہتے ہیں اے ایمان والو! تم
بھی ان پر درو بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو ۔علامہ خادم حسین رضوی کے
خون میں عشق مصطفیﷺ دوڑتا تھا اور یہ بڑے نصیب کی بات ہے ۔عشق نبی ﷺ کیا ہے
یہ جاننا ہے تو حضرت بلال حبشی ؓ سے جانیے ۔ جب امیہ بن خلف کو پتا چلاکہ
حضرت بلال حبشی ؓ اسلام قبول کرچکے ہیں تو اس نے آپ ؓ پر ظلم وستم کے پہاڑ
توڑ دیے ۔آپ ؓ کو عرب کی تپتی زمین پر گھسیٹا جاتا ،جلتے کوئلوں پر لٹایا
جاتا ۔آپؓ کے جسم کی چربی پگھل کر کوئلے ٹھنڈے ہوجاتے لیکن آپ ؓ کلمہ حق
کہنے سے باز نہ آئے ۔حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حضرت بلال حبشی ؓ کو امیہ بن
خلف سے منہ مانگی رقم دیکر آزاد کرایا ۔حضرت بلال حبشیؓ کو سرورکونین ﷺ نے
اپنا خزانچی مقررکیا ۔آپؓ آنحضرتﷺ کے ساتھ ساتھ رہتے جب اذان کا حکم آیا تو
آپﷺ نے حضرت بلال حبشیؓ کو اس کام کے لیے مقرر کیا ۔آپؓ کی آوازسے مکہ کے
دردیوار گونجنے لگے ۔آنحضرتﷺ کے وصال کے بعد ایک دن حضرت بلالؓ ظہر کی اذان
دے رہے تھے کہ جب اشھدانامحمدپر آئے تو آپ ؓ رونے لگے آپؓ کی آواز بند
ہوگئی اور آپؓ نے آئندہ اذان نہ دینے کی قسم کھالی اور پھر حضرت ابوبکر
صدیقؓ سے اجازت لیکر ملک شام جہاد کے لیے چلے گئے ۔چھ ماہ بعد آپؓ کو نبی
رحمت ﷺ خواب میں ملے اور فرمایا بلالؓ یہ کیا بے وفائی ہے میرے شہر آنا ہی
چھوڑ دیا ہے ۔رات آنکھ کھلی اونٹنی پر سوار ہوئے ۔راستے میں صرف پیشاب اور
نماز کے علاوہ کہیں نہ رکے ساتویں دن دن مدینے پہنچے اور ان کو یہ یاد ہی
نہ تھا کہ آپﷺ اس دنیا میں نہیں ہیں ۔ایسا عشق سوار تھا کہ بھول ہی گئے
۔مدینے میں داخل ہوتے ہی نعرہ لگایا یا رسول ﷺ میں آگیا جب ہجرے میں پہنچے
یاد آیا تو رونے لگے ۔بہت روئے اور بولے یارسول ؐ میں تو آگیا آپ ؐ کہاں
ہیں ؟پھر قبر مبارک پر گئے اور لپٹ لپٹ کر روئے۔رسول کریم ﷺ کا فرمان مقدس
ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ کسی کے ساتھ بھلائی کرتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا
کردیتا ہے ۔کیسا جذبہ تھا کہ تحفظ ناموس رسالت ؐ کی خاطر یہ شخص ہر اذیت
سہنے کے لیے تیار رہتا تھا ۔کل جب حشر کے دن بڑے بڑے جثوں والے
علامہ،مولانا ،مفتی اس وجہ سے دوزخ میں ڈال دئیے جائیں کہ دنیا میں جب
ناموس رسالتؐپر حملہ کیا جارہا تھا تو ان لوگوں نے اپنے ذاتی مفادات
،ترجیحات کے لیے مصالحت پسندی کا راگ الاپنتے ہوئے خاموشی اختیار کرلی تھی
۔وہاں پر جب یہ معذور عاشق رسول ؐ نبی رحمت ﷺ کی ناموس کی حفاظت کرنے والے
جرنیلوں کی صف میں موجود ہوگا تو پھر وہاں معلوم ہوگا کون عاشق رسول ؐ تھا
اور کون گستاخ رسولؐ ۔امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا تھا کہ ہمارے بعد
ہمارے جنازے فیصلہ کرینگے کہ کون حق پر تھا اور علامہ خادم حسین رضوی کی
نماز جنازہ میں انسانوں کے بے کراں ہجوم نے یہ ثابت کردیا تھا ۔۔
یہ تو طیبہ کی محبت کا اثر ہے ورنہ ۔ کون روتا ہے لپٹ کر دردیوار کے ساتھ
|