دھرم سنسد : کیا کھویا کیا پایا؟

بدنامِ زمانہ ہری دوار کی دھرم سنسد کے دوہفتہ بعد اگر معروضی جائزہ لیا جائے کہ اس کے ذریعہ ہندو احیاء پرستوں نے کیا حاصل کیا اور کیا گنوایا ؟ تو سب سے پہلے یہ محاورہ ذہن میں آتا ہے ’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنہ‘۔ ویسے تو اس اجتماع کے کئی مقاصد تھے لیکن سب سے اہم مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا تھا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ہدف حاصل ہوگیا؟ ملک بھر میں سنسد کے خلاف جو مظاہرے ہوئے اس میں مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔دہلی کے اندر اتراکھنڈ بھون کے باہر مسلمانوں نے زبردست احتجاج کیا ۔ یہ سلسلہ وہیں نہیں رکا بلکہ اتراکھنڈ پولیس ہیڈکوارٹر اور ریاستی سکریٹریٹ کے باہر بھی مسلمانوں نے مظاہرہ کیا۔ اس میں چیلنج کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہم لوگ یہاں جمع ہیں اگر قتل عام کی ہمت ہے تو سامنے آو۔ ہم بزدل نہیں ہیں ۔ اس کے سبب ڈرانے والے خود ڈر گئے اور کیوں نہ ڈرتے۔ ان کو اشتعال انگیز بیان دینے کے سوا کچھ نہیں آتا ۔ اسی لیے وہ سو کروڈ کا لالچ دے کر کسی پربھاکرن یا سنت بھنڈارن والے کے منتظر ہیں ۔ اب نہ وہ آئے گا اور ان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوگا ۔

اس احتجاج میں مظاہرین نے دھرم سنسد میں نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کی گرفتاری کامطالبہ کیا اور افسران نے ان کے خلاف مناسب قانونی کارروائی کی یقین دہانی کرائی ۔ اتراکھنڈ کے ڈی جی پی اشوک کمار نے بتایا "ہم نے انہیں یقین دلایا ہے کہ قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا اور کسی بھی مجرم کو بخشا نہیں جائے گا۔ ہم نے اس معاملے میں پہلے ہی پانچ لوگوں کے نام درج کر لیے ہیں اور ان کے خلاف مناسب کارروائی کررہے ہیں‘‘۔دھرم سنسد میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات کی تحقیقات کرنےکے لیے خصوصی تحقیقاتی کمیٹی (ایس آئی ٹی) تشکیل دے دی گئی ہے۔اس بابت ڈی آئی جی گڑھوال کرن سنگھ ننگیال نے انکشاف کیا کہ پانچ رکنی ایس آئی ٹی کی سربراہی ایس پی سطح کے افسر کریں گے اور تحقیقات میں قصوروار پائے جانے والوں کے خلاف قرار واقعی قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ملک بھر میں ہونے والی مذمت کا یہ اثر تو پڑا کہ مجرمین کے ساتھ ہنسی ٹھٹھا کرنے والا انتظامیہ اب کارروائی پر مجبور ہوگیا۔

یہ دھرم سنسد اس قدر اوچھی تھی کہ سنگھ پریوار کی دھرم رکشک وشو ہندوپریشد تک کو بھی اس سے پلہّ جھاڑنا پڑا۔ وی ایچ پی کے بین الاقوامی کارگزار صدر آلوک کمار اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسّی کی دہائی میں ہم نے دھرم سنسد کا انعقاد کیا، جس میں ملک بھر سے سادھوسنتوں نے شرکت کی۔ اس کے بعد بھی اس طرح کی تقریبات منعقد ہوئیں مگر چند لوگوں یا سنتوں کے اجتماع کو دھرم سنسد نہیں کہا جا سکتا‘‘۔ یعنی آلوک کمار نے اس ہنگامہ کو دھرم سنسد نہیں مانا مگر یہ اعتراف کیا کہ اس فتنہ انگیزی کا آغاز اسی کی مرہونِ منت ہوا جو اب ان کے قابو سے باہر ہوچکاہے۔ اس کے بعد وہ بولے کہ ’’ہم کسی موقع پردیگرمذاہب، فرقوں یا سماج کے خلاف کسی بیان کی حمایت نہیں کرتے۔ ہمارا یقین ہمیشہ ’سروے بھونتو سکھینا‘ میں رہا ہے‘‘۔ وشوہندو پریشد کی فتنہ سامانیوں سے جو لوگ واقف ہیں وہ اس بیان پر یقین نہیں کرسکتے لیکن اگر وہ آگے چل کر اس پر عمل کرنے لگے تو یہ ایک اچھی بات ہے۔ گاندھی جی کے بارے میں آلوک کمار نے کہا کہ مہاتما گاندھی بابائے قوم ہیں اور ان کے بارے میں توہین آمیز بات کیسے قابلِ قبول ہوسکتی ہے؟ کوئی اس کی حمایت نہیں کرتا۔ ایسی تمام باتیں اور بیانات کے لیے ملک میں قانون ہے اور اسی کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

سنت رام سندر داس نے تو دھرم سنسد کے اندر اپنا اعتراض درج کرواکے خود کو اس سے الگ کرلیا۔ ان کے علاوہ مہانروانی اکھاڑے کے مہنت رویندر پوری نے دھرم سنسد کے تبصرے کو"غیر ذمہ دارانہ"قراردیتے ہوئے اس کو "مذہب کے لیے نقصان دہ" بتایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں دھرم سنسد میں شامل نہیں تھا۔ میں ایسے پروگراموں سے دور رہتا ہوں۔ وہاں جس انداز میں گالی گلوچ اور بیان بازی کی گئی وہ مناسب نہیں ہے۔ کسی کو بھی اس قسم کے سماجی اور مذہبی تبصرے کرنے کا حق نہیں ہے۔ وہ بولے ہر آدمی کی سوچ مختلف ہوتی ہے۔ ہمارا کام سناتن دھرم کی حفاظت کرنا ہے۔ کسی دوسرے مذہب پر تبصرہ کرنا نہیں ہے۔ ہندو کبھی کمزور نہیں تھا اور نہ ہی کمزور ہے اورنہ کبھی ہونے والاہے۔ اگر کچھ لوگ اس طرح کا سوچتے ہیں تو یہ ان کا اپنا ایجنڈا ہو سکتا ہے۔ مہنت رویندر پوری نے اس خوف کے بیانیہ کی ہوا نکال دی جس کی بنیاد پر سنگھ پریوار اپنی سیاست چمکا رہا ہے۔

جونا اکھاڑہ کے بین الاقوامی سرپرست شریمنت ہری گیری نے مذکورہ اشتعال انگیزی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کسی دوسرے مذہب کے خلاف بیان بازی کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اکھاڑہ پریشدکے جنرل سکریٹری شری مہنت راجندر داس نے کہا کہ بول چال پر ضبط رکھنا بہت ضروری ہے۔ ایسی گالی گلوچ کسی کو زیب نہیں دیتی۔ دھرم نگری کے سنتوں کا بھی کہنا ہے کہ سناتن دھرم نہ تو کمزور تھا اور نہ ہی ہے۔ آئندہ بھی نہیں ہوگا۔سنت سماج کو تمام مذہب کے بارے میں فحش تبصرہ کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔سنتوں کا کہنا ہے کہ کسی بھی مذہب پر بے ہودہ تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ ہندوستانی ثقافت اور سناتن تہذیب، تمام مذاہب کا احترام کرنے کا درس دیتی ہے۔

اس دھرم سنسد کے پیچھے چونکہ سیاست کارفرما ہے اس لیے رکن پارلیمان اور سابق بیوروکریٹ جواہر سرکار کی اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کو بنگال اور تامل ناڈو میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ آسام اور شمال مشرقی ریاستوں اس کے علاوہ تمام ضمنی انتخابات میں بھی ان کی شکست ہوئی ۔ زراعتی قانون بھی واپس لینے پڑے ۔ مودی حکومت کے پاؤں اکھڑ چکے ہیں، اسی لئے بی جے پی دوسرے طریقوں کا استعمال کر رہی ہے۔ جواہر سرکار کے مطابق مسلمانوں کے خلاف دئیے جانے والے نفرت انگیز بیانات نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہم سب پر حملہ ہے۔ پرینکا گاندھی واڈرا نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کیخلاف تشدد کرنے کی کھلے عام دعوت دینے والوں کے صحیح سلامت چلے جانے پر تنقید کی اور نفرت اور تشدد پھیلانے والوں کے کیخلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ۔

ان نفرت انگیز تقاریر پر چوٹی کے 76 وکلا نے عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس این وی رامانا کو خط لکھ کرازخود( سوموٹو) کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس خط میں لکھا گیا ہے کہ ’یہ محض نفرت انگیز تقاریر نہیں مخصوص سماج کے قتل عام کی دھمکی کا معاملہ ہے ۔اس سے نہ صرف ملکی اتحاد کو خطرہ ہے بلکہ لاکھوں مسلمانوں کی زندگیاں بھی خطرے میں ہیں۔ مسلح افواج کے پانچ سابق چیف آف اسٹاف، ایڈمرل لکشمی نرائن رام داس، سابق ایڈمرل وشنو بھاگوت، سابق ایڈمرل ارون پرکاش، سابق ایڈمرل آر کے دھوون، سابق ایئر چیف مارشل ایس پی تیاگی اور لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ وجے اوبرائے سمیت دوسو سے زیادہ سابق فوجی افسران ، بیوروکریٹس اور سرکردہ شخصیات نے سخت گیر ہندو رہنماؤں کی جانب سے ملک میں مسلمانوں کی نسل کشی کی کھلی دھمکی کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے صدرمملکت رام ناتھ کووند اور وزیر اعظم نریندر مودی کو کھلا خط لکھ کراپنی تشویش کا اظہار کیا۔

اس خط میں لکھا گیا ہے کہ ہندوستان کی مسلح افواج، آرمی، بحریہ، فضائیہ، مرکزی مسلح فورسز (سی اے پی ایف) اور پولیس ملک کی سلامتی (داخلہ اور خارجہ) کی ذمہ دار ہیں اور ان تمام نے بھارت کے آئین اور سیکولر اقدار کا حلف لیا ہے اس کے برعکس دھرم سنسد میں ہندو ریاست کے قیام کی بار بار اپیل کی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ بوقت ضرورت ہتھیار اٹھائے جائیں ۔ ہندو ازم کے تحفظ کی خاطر بھارتی مسلمانوں کو ہلاک کرنے کی بھی ترغیب دی گئی۔ مقررین میں سے ایک نے فوج اور پولیس سے ہتھیار اٹھانے اور اس ’صفائی مہم‘ میں شامل ہونے کی اپیل بھی کی ۔ اس مکتوب کے مطابق فوج سے اپنے شہریوں کی نسل کشی کے لیے کہنا قابل مذمت اور ناقابلِ قبول ہے۔اس طرح اندرون ملک امن و امان اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچنے سے، بیرونی دشمن طاقتوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ تکثیری معاشرے میں کسی کے خلاف تشدد کی کھلی اپیل سے فوج کا باہمی اتحاد بری طرح متاثر ہو گا۔ لہٰذا وہ حکومت، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ سے اپیل کی گئی ملک کی سلامتی اور یکجہتی کے تحفظ کی خاطر اس معاملے میں فوری طور پر کارروائی کی جائے۔

اس دھرم سنسد نے پاکستان کو اسلام آباد میں ہندوستانی ہائی کمیشن کے ایک سفارت کار کو طلب کرکے اپنی تشویش کے اظہار کا نادر موقع فراہم کردیا۔ پاکستانی وزارت نے تشدد کا مطالبہ کرنے والوں کے افسوس کا اظہار نہ کرنےاور ہندوستانی حکومت کی جانب سے ان کی نہ مذمت کرنے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کوانتہائی قابل مذمت قرار دیا۔ پاکستان کی وزارت نے مزید کہا کہ ’’ہندوستان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان نفرت انگیز تقاریر اور اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد کے واقعات کی تحقیقات کرے گا اور مستقبل میں ایسے واقعات کو دوبارہ ہونے سے روکنے کے لیے اقدامات کرے گا۔‘‘ کورونا کی تیسری لہر دستک دے رہی ہے۔ اس وباء نے یہ سبق سکھایا ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے اس لیے ویکسین لیا جائے۔ اس پر عمل کرتے ہوئے اس سنسد کو روک دیا جانا چاہیے تھا۔ کورونا کا سبق یہ بھی ہے کہ اگر پھیلنے لگے تو مریض کو قرنطینہ کر کے جیل بھیج دیاجائے لیکن حکومت نے کوئی عبرت نہیں پکڑا حالانکہ نفرت کا زہر کورونا سے زیادہ مہلک ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449668 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.