سال نو کے پہلے ہی دن جنگجو مخالف آپریشن میں سرحدی ضلع
کپواڑہ میں جمہ گنڈ جنگلی علاقے میں فوج و فورسز اور جنگجووں کے مابین
مختصر شوٹ آو ٹ میں ایک عدم شناخت جنگجو جاں بحق ہو گیا ۔ پولیس نے بتایا
کہ اس کی موجودگی کی اطلاع ملنے کے بعد فوج ، سی آر پی ایف اور جموں کشمیر
پولیس کے خصوصی آپریشن ٹیم نے علاقے میں تلاشی آپریشن شروع کیا پھر دو بدو
جھڑپ ہونےلگی جو ہلاکت پر منتج ہوئی ۔ دو دن بعد ۳؍ جنوری کو شہر سرینگر کے
مختصر شوٹ آوٹ میں حاجن بانڈی پورہ سے تعلق رکھنے والا انتہائی مطلوب لشکر
کمانڈر جاں بحق ہو گیا جبکہ گوسو شالیمار کے اندر ایک اور مسلح جھڑپ میں
ایک جنگجو جاں بحق ہو گیا ہے ۔ ۵؍ جنوری کو ضلع پلوامہ کے چند گام ٹہاب
علاقے میں فوج و فورسز اور جنگجووں کے مابین مسلح تصادم آرائی میں عسکری
تنظیم جیش محمد سے وابستہ دوغیر ملکی سمیت تین جنگجو جاں بحق ہو گئے ہیں
۔۷؍ جنوری کو ضلع بڈگام میں فورسز اور جنگجووں کی جھڑپ میں جیش محمد سے
وابستہ تین جنگجو مارے گئے ۔اس طرح سال رواں کے پہلے ہفتے میں جملہ 11ملی
ٹینٹ ہلاک ہوگئے ۔
۹؍ جنوری کو جنوبی ضلع کولگام کے حسن پورہ علاقے میں سیکورٹی فورسز اور
جنگجووں کے مابین جھڑپ میں 2 ملی ٹینٹ ہلاک ہوگئے۔ ان تمام واقعات کی تفصیل
ہو بہ ہو یکساں ہے صرف علاقہ ، تنظیم اور تعداد بدلتی ہے۔یعنی پہلےاطلاع
،پھر محاصرہ، گھر گھرکی تلاشی ، فورسیز کی گھیرا بندی، جنگجووں کی اندھا
دھندفائرنگ ، فرار کی سعی ، سرینڈر کا بھر پور موقع اور ہلاکت ۔حسن پورہ کے
بارے میں پہلے بتایا گیا کہ مہلوک جنگجووں کی شناخت اور اُن کی تنظیمی
وابستگی کے بارے میں جانچ پڑتال شروع کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تک کہ ان
کی انفرادی اور تنظیمی شناخت نہیں ہوئی تھی تو یہ کیسے پتہ چل گیا تھا کہ
وہ جنگجو ہیں؟دوسرے دن بتایا گیا کہ مارے جانے والے جنگجووں کا تعلق مقامی
عسکری تنظیم البدر سے ہے۔ کشمیر کے حالات میں چونکہ کسی کو زمینی سطح پر
جاکر تفتیش کا موقع نہیں دیا جاتا اس لیے اس سرکاری بیانیہ کی آزادانہ
توثیق یا تردید ممکن نہیں ہے ۔
یہ تشویشناک صورتحال ہے کہ امسال جنوری کے 9 دنوں میں سیکورٹی فورسز نے
13جنگجووں کو ہلاک کردیا۔یہ ایک غیر معمولی تعداد ہے کیونکہ آئین کی دفع
370 کو ہٹانے کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا تھا اس سے دہشت گردی ختم ہوجائے گی ۔
آگے چل کر وقتاً فوقتاً کہا جاتار ہا کہ کشمیر سے دہشت گردی کا خاتمہ
ہوچکا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو آئے دن حفاظتی
دستوں کے ہاتھوں موت کے منہ میں ڈھکیل دئیے جاتے ہیں؟ پاکستان کے ساتھ سرحد
اگر پوری طرح بند کردی گئی ہے تو ان کے پاس اسلحہ اور گولہ بارود کہاں سے
آتا ہے؟ جموں و کشمیر کے ڈی جی پی دلباغ سنگھ سے 31؍دسمبر کو دعویٰ کیا
تھا کہ پولیس اور دیگر حفاظتی عملے کو سال دو ہزار اکیس میں ملٹینسی کے
خلاف کاروائیوں میں بڑی کامیابی ملی۔ اس سال دہشت گردوں کے خلاف 100آپریشن
میں 82 1دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ پچھلے پورے
سال میں صرف 182؍اور نئے سال کے پہلے۹ ؍ دنوں میں 13 ہلاک اور 5؍ آپریشن ؟
اس سے کیا سمجھا جائے ملی ٹینسی بڑھ رہی ہے گھٹ رہی ہے؟
ڈی جی پی دلباغ سنگھ نے یہ بھی بتایا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز
کے دوران حفاظتی عملے کے 43 جوان شہید ہوگئے، جن میں سے بیس کا تعلق جموں و
کشمیر پولیس سے جبکہ دیگر 23 کا تعلق مختلف سکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ تھا۔
اس دوران 44 بڑے دہشت گرد کمانڈروں کو ہلاک کیا گیا، جن میں سے 27 کا تعلق
لشکر طیبہ،10 کا تعلق جیش محمد اور دیگر 7 کا تعلق حزب المجاہدین سے تھا۔
سرکار کی اس بڑی کامیابی کے بعد یہ نیا سلسلہ کیوں شروع ہوگیا؟ دلباغ سنگھ
کے مطابق سال 2021 میں 80 دہشت گردوں کو گرفتار بھی کیا گیا لیکن نئے سال
میں اچانک حراست میں لینے کا سلسلہ کیوں بند ہوگیا؟ ایک طرف تو ڈی جی پی یہ
دعویٰ کرتے ہیں کہ فی الوقت جموں و کشمیر میں سرگرم ملی ٹنٹوں کی تعداد
ماضی کے مقابلے میں سب سے کم ہے اور دوسری جانب ان کی ہلاکتوں میں غیر
معمولی اضافہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اس تضاد کی وجہ سامنے آنی چاہیے۔ انہوں نے
یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کو جموں وکشمیر میں
داخل کرنے کی کوششوں کو فوج اور دیگر حفاظتی عملے کی چوکسی نے ناکام بنا
دیا تو یہ سب کیوں ہورہا ہے؟
پانچ اگست، 2019 کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت او ر ریاستی حیثیت کو ختم
کرکے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا۔ اب چونکہ وہ براہ راست مرکز کے
انتظامی کنٹرول میں ہے اس لیے وہاں سب کچھ وز ارت داخلہ کی منظوری سے ہوتا
ہے۔ اس لیےان سوالات کا جواب بھی وہیں سے آنا چاہیے۔کشمیر سے متعلق آئینی
تبدیلیوں کے 26؍ ماہ بعد وزیر داخلہ امیت شاہ نے وہاں کے دورےپر وزیر اعظم
کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر پہلے بھارت کا تاج کہلاتا تھا
اور اب یہ بھارت کا دل بھی بن چکا ہے۔ وزیر اعظم نے بھی کشمیری رہنماوں کو
دہلی بلاکر یہی کہا تھا کہ وہ دلی اور دل کی دوری کم کرنا چاہتے ہیں لیکن
اس طرح کی بے دریغ ہلاکتوں سے یہ دوری کم نہیں ہوگی بلکہ اور بھی بڑھے گی؟
امیت شاہ نے اس موقع پر کہا تھا کہ ’ہم جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
انتخابات کرانے ہی کرانے ہیں۔ اسمبلی حلقوں کی از سر نو حد بندی کو نہیں
روکنا ہے۔ اب کشمیر میں کچھ بھی رکنے والا نہیں۔ یہاں حد بندی کے بعد
انتخابات ہوں گے اور پھر ریاستی درجہ بحال ہو گا۔ میں نے ملک کے پارلیمان
میں یہ وعدہ کیا ہے۔‘
وزیر داخلہ کی بیان کردہ اس الٹی ترتیب کے باوجود حد بندی تو ہوگئی اور
جموں کی نشستوں میں خاطر خواہ اضافہ بھی کردیا گیا لیکن اب انتخاب اور
ریاستی درجہ کی بحالی کے بجائے ہلاکتوں کی خبریں مثبت نہیں بلکہ منفی پیش
رفت ہے۔امیت شاہ نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ پانچ اگست، 2019 کے بعد کشمیر
میں عسکریت پسندی، رشوت خوری اور اقربا پروری کا خاتمہ ہو کر امن، ترقی اور
استحکام کے ایک نئے دور کی شروعات ہوئی ہے لیکن اس سال کا منظر نامہ تو اس
کے بالکل برعکس ہے۔ ایسے میں وزیر داخلہ کی تقریر کا یہ حصہ یاد آتا ہے کہ
’’نوجوانوں کے ساتھ بات چیت کے دوران میرے دماغ میں یہ بات آئی کہ ڈھائی
سال پہلے جس کشمیر سے پتھراؤ، دہشت گردی اور تشدد کی خبریں آتی تھیں آج اسی
کشمیر کے نوجوان ترقی، روزگار اور وظیفے کی بات کر رہے ہیں۔ اس سے لگتا ہے
کہ کتنا بھاری تبدیلی آئی ہے جسے کوئی نہیں روک سکتا ہے‘‘۔ موجودہ ہلاکتیں
ان دعووں کو تردید کرتی ہیں۔
وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا تھا کہ میں تو کشمیری نوجوانوں سے دوستی کرنے آیا
ہوں۔ انہیں بتانا پڑے گا کہ بندوق کی نوک پر دوستی کی جاتی ہے یا دشمنی
ہوتی ہے؟ امیت شاہ نوجوانوں کو اب مودی جی کے ساتھ جڑنے۔ بھارت سرکار کے
ساتھ جڑنے اور کشمیر کو آگے لے جانے کے سفر میں ہمراہی بن جانے کی دعوت دی
تھی لیکن اس کے لیے ان ہلاکتوں کا سلسلہ بند ہوناضروری ہے۔ امیت شاہ نے
وزیر اعظم کے خواب کی بابت بتایا تھا کہ ’’مودی جی یہاں امن، استحکام اور
ترقی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے میں یہاں کے نوجوانوں سے تعاون مانگنے
آیا ہوں‘‘۔ وزیر داخلہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ تعاون اشتراک کی تالی ایک
ہاتھ سے نہیں دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ امیت شاہ نے زبانی طور پر تو کہہ
دیا تھا کہ ’اب ہماری سرکار نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ یوتھ کلب بنائے
ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ گمراہ کرنے والی طاقتوں کو یہاں کے نوجوان جواب دیں۔
ہم کشمیر کے امن میں کسی کو خلل ڈالنے نہیں دیں گے‘ لیکن حکومت کی یہ نئی
حکمت عملی امن و آشتی کے ماحول میں خلل ڈال رہی ہے۔
وزیر داخلہ کو اس موقع پر جموں میں کہا جانے والا اپنا یہ جملہ یاد کرنا
چاہیے کہ ’’ ہم ایسی فضا تشکیل دینا چاہتے ہیں جس میں ایک بھی شخص کی جان
نہ جائے اور دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے‘‘ کیا گزشتہ ۹؍ دنوں کے
اندر ایسی فضا بن رہی ہے یا اس کے برعکس ہورہا ہے؟ اس سوال کا جواب وزیر
داخلہ اور وزیر اعظم کو دینا پڑے گا ۔ اس میں شک نہیں کہ کشمیر کے اندر اس
طرح کے سوالات کرنے کی گنجائش ختم ہوچکی ہے لیکن پورے ملک کی تو یہ صورتحال
نہیں ہے۔ پنجاب میں وزیر اعظم کی سیکورٹی کو لاحق خطرے پر دن رات بحث کرنے
والے میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سوال کو بھی اٹھائے کیونکہ کشمیر یوں
کے درد کو محسوس کیے بغیر اس کو ملک کا اٹوٹ انگ کہنا ایک بے معنیٰ جملہ
ہے۔ ملک کے غیر گودی میڈیا کے اندر اس معاملے میں سناٹا نہایت تشویشناک
صورتحال کی جانب اشارہ ہے۔
|