کراچی میں لاقانونیت اور سٹریٹ کرائم کے واقعات پریشان کن
حد تک بڑھ چکے۔ مافیائی گروپوں کی کارستانیاں ماضی کی طرح عروج پر تو نہیں
لیکن اس کا امکان رد نہیں یا جاسکتا کہ کرمنل عناصر معاشرے کا ناسور بنے
ہوئے ہیں، سٹریٹ کرائم کا جن جیسے بے قابو ہوگیا ہو، جس دیدہ دلیری سے ملکی
سالمیت، ریاستی رٹ اور حکومتی سیٹ اپ کو چیلنج اور کمزور کرنے کی ہولناک
واردتوں میں ملوث ہیں اس سے اہل کراچی کے لئے وجہ تشویش اور لمحہ فکریہ بنا
ہوا ہے، آخرسٹریٹ کرائم میں معصوم جانوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ کب تھمے گا۔
کئیبے گناہ شہری سٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں جہاں قیمتی سامان سے محروم
ہوئے تو مزاحمت پرجان بھی گنوا بیٹھے۔ ایسا قریباََ آئے روز ہی ہو رہا ہے
ایسے جرم بے گناہی پر ہلاکتوں کے خلاف عوام کس سے فریاد کریں۔ جس شہر کا
امن مثالی ہوا کرتا تھا اسے کس کی نظر کھا گئی، یہ کس قسم کا معاشرہ ہے جس
میں قانون شکن عناصر کو نکیل ڈالنے والا کوئی نہیں۔
ماضی میں سیاسی کارکنوں، بے شمار سماجی رہنماؤں، علما ء اکرام، ڈاکٹر اور
اساتذہ کے خون سے شہر قائد خون میں نہاتا رہا اور اب نہتے بے قصور معصوم
جانیں اسٹریٹ کرمنلز کا شکار ہیں، بے امنی کا دور سیکورٹی اداروں کے آپریشن
کی وجہ سے وقتی طور پر تھم تو گیا لیکن اس کا دوسرا بھیانک چہرہ اسٹریٹ
کریمنل کی صورت میں عود آیا۔کراچی کے مکینوں اور پاکستان کے کونے کونے سے
یہاں آکر رچ بس جانے والوں کی دلی اور ذہنی کیفیت نا گفتہ بہ ہے۔ وہ حقیقت
میں ذہنی اور نفسیاتی مریض بن چکے۔کچھ عرصہ قبل بھتہ خوروں کی طاقت، رعونت،
بربریت اور قتل و غارت کے جنون کے سامنے قانون نافذ کرنے والے حتمی کاروائی
نہ کرنے تک مصلحت اور مفاہمت کی سیاست کی وجہ سے بے بس نظر آتے تھے اور
قانون کی حکمرانی کو مذاق اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے بنیادی مسائل
گھمبیر شکل اختیار کرچکی تھی، نوشتہ دیوار تھا کہ اگر دہشت کے اس مہیب خطرے
اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت نہ کی گئی اور ان کا اعتماد بحال نہ کیا
گیا تو اس کے مضر اثرات مستقبل میں اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے کراچی
میں سرمایہ کاری کی مکدر فضا، امن ہونے کے باوجود بحال نہیں ہوسکی، تاجر جو
شہر سے خوف زدہ ہوکر گئے تھے، دوبارہ واپس آنے کے لئے تیار نہیں کہ انہوں
نے بڑا بھیانک وقت دیکھا ہے، وہ دوبارہ لاقانونیت کے سمندر میں غرق ہونا
نہیں چاہتے۔ شہری پریشان کہ قاتل دندناتے ہوئے شہریوں پر حملہ آور ہوتے ہیں
ان کی جمع پونچی لوٹ لی جاتی ہے، تھوڑی سی مزاحمت پر قیمتی جان سے ہاتھ
دھونے پڑتے ہیں اور جرائم پیشہ عناصر بھرے بازاروں، مصروف ترین تجارتی و
رہائشی علاقوں میں واردات کے بعد با آسانی راہ فرار اختیار کرلیتے ہیں اور
ذرائع ابلاغ میں سی سی ٹی وی فوٹیج گردش میں رہتی ہے اور دنیا ورطہ حیرت
میں کہ کس طرح اطمینان سے سر عام واردات ہوجاتی ہے اور قانون کا کوئی خوف
نہیں۔
اہل وطن ان واقعات پر سخت رنجیدہ ہیں، ہر مجرم کو سزا عدالت سے ملنی چاہے،
ایسا انصاف جس سے مدعی بھی مطمئن ہو کہ اُسے انصاف ملا، اگر سزا یافتہ با
اثر طبقہ سلاخوں کے پیچھے بھی عیش و عشرت کی زندگی بسر کرے تو اس سے معاشرہ
میں انارکی پھیلے گی۔پاکستانی معاشرہ میں بڑھتی لاقانونیت میں بے گناہوں کے
قتل کے بڑھتے واقعات پر پولیس اور رینجرز کو ملوث عناصر کی گرفتاری اور
اسٹریٹ کرائمز کا سلسلہ روکنے کے لئے اپنا آہنی ہاتھ استعمال کرنا ہوگا
ورنہ پھر دیر ہوجائے گی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کراچی میں حکومت کی رٹ
قائم کریں، عجیب غفلت مجرمانہ ہے، نجانے یہ شہر اور صوبہ کس کے رحم و کرم
پر ہے، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی حالت زار اس اعتبار سے چشم کشا ہے کہ
جرائم پیشہ عناصر نے جیسے ہر علاقے کو بادی ئ النظر یرغمال بنایا ہوا
ہو۔کسی مہذب شہر کے کسی بھی حصہ میں جرائم پیشہ اس قدر طاقت ور ہوجائیں کہ
وہاں قانون کی رٹ قائم نہ ہوسکے اور کوئی شہری آزادی کے ساتھ اکیلا یا اپنے
رشتے دار اور دوستوں کے ساتھ کسی بھی مصروف یا غیر معروف شاہراہ پر دن کی
روشنی یا رات کی تاریکی میں بے خوف جا نہیں سکتا، ہر لمحہ دھڑکا لگا رہتا
ہے کہ کسی کونے کدرے سے اچانک سامنے کوئی آئے گا اور اسلحے کے زور پر جو
کچھ ہے اُسے چھین لے گا یہاں تک کہ جان بھی۔
اہل کراچی نے ایسا وقت بھی دیکھ چکے کہ جرائم پیشہ عناصر اتنے طاقت ور تھے
کہ سیکورٹی اداروں کی 200ا فراد کی نفری بھی مخدوش علاقوں میں داخل نہیں
ہوسکتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف قانون نافذ
کرنے اداروں کی ماضی میں خدمات بھی قابل قدر رہی ہیں، مگر کراچی میں پولیس
اور رینجرز کے کریک ڈاؤن سے حاصل شدہ نتائج خاصے مایوس کن رہے اور دیکھتے
دیکھتے ایک بار پھر بیشتر علاقے جرائم کا گڑھ بنتے جارہے ہیں، جرائم کی
سرکوبی کے لئے جدید خطوط پر موثر حکمت عملی اپناتے ہوئے شہر کراچی کے
مکینوں کو اپنے گھروں کے دروازوں پر محفوظ ہونے کی تدبیر کرنی چاہے، ورنہ
سماجی انحطاط، سیاسی کشیدگی، لسانی عصبیت کے وتیرے اور اسٹریٹ کرائم کے ظلم
و بربریت کے نتیجے میں قانون پر رہا سہا اعتماد بھی ختم ہوسکتا ہے۔
سٹریٹ کرائم بھی دہشت گردی کی ایک بھیانک شکل ہے، یہ حقیقت ذہن نشین کرنی
چاہے کہ جرم کوئی بھی ہو اگر مضر اثرات معاشرے کے ہر طبقے پر پڑتے ہوں اور
ہر ذی حس متاثر ہوتا ہو تو تحمل، تدبر، مثالی جذبہ سرفروشی، پیشہ وارنہ
استعداد و مہارت اور عوام کی جان و مال کے تحفظ اور ریاستی سلامتی سے
کمٹمنٹ ضروری ہے، وقت کم ہے جب کہ مجرمانہ کاروائیوں کی سرکشی عروج پر ہے۔
سیاسی جماعتیں تو حکومت بچانے اور گرانے تک ہی جیسے محدود ہوگئی ہیں، اس
تشویش ناک دورانئے میں ملکی معاشی شہ رگ کو اسٹریٹ کرائم سے ناقابل تلافی
نقصان ہورہا ہے۔ اس کا سدباب قانونی کی حکمرانی قائم کرکے ہی کیا جاسکتا
ہے۔ یہ سب کچھ جمہوری عمل کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاؤٹ ثابت ہوئی ہے،
ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں جرائم پیشہ ہوں وہاں ان پر قہر بن کر فورسز
نازل ہوں تب ہی جرائم کا خاتمہ اور عوام کے جان و مال کا تحفظ ممکن ہوسکے
گا۔
|