اسلامو فوبیا کا پوری دنیا کو خطرہ ۔ اسکے خلاف مشترکہ اقدامات کی ضرورت

بین الاقوامی سطح پر دشمنانِ اسلام آئے دن مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات اورشرانگیز اقدامات کررہے ہیں ان حالات میں ترکی عالمِ اسلام کے خلاف ہونے والی سازشوں اور شرانگیزی کو روکنے کے لئے عالمی قائدین کی توجہ مبذول کروائی ہے۔ترکی کی قومی اسمبلی کے اسپیکر مصطفی شن توپ نے کہا ہیکہ گذشتہ بیس سالوں میں اسلاموفوبیا نسل پرستی کو ہوا ملی ہے ۔ انہوں نے بین البراعظمی اقتصادی تعاون(MIKTA)کی پارلیمنٹ کے اسپیکرز سے امتیازی سلوک، نسل پرستی ، اسلاموفوبیا اور نفرت انگیز تقریر کے رجحانات کے خلاف مشترکہ ٹھوس اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔میکتا پارلیمنٹ کے اسپیکرز کا 7 واں اجلاس، جس میں میکسیکو، انڈونیشیا، ترکی اور آسٹریلیا ممبران ہیں، ویڈیو کانفرنس کے طریقہ کار کے ذریعے منعقد کیا گیا تھا۔ آسٹریلیا کی میزبانی میں ہونے والی میٹنگ کے ساتھ ہی، MIKTA کی مدت صدارت ترکی کو دی گئی۔شَن توپ نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ "موثر پارلیمنٹس سپورٹنگ ڈیموکریسی" کے موضوع پراجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رکن ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ غلط معلومات، نفرت انگیز تقاریر، نسل پرستی اوراسلامو فوبیا جیسے مسائل جو پوری دنیا کیلئے خطرہ ہیں کے خلاف مشترکہ طور پر اقدامات اٹھائیں۔اس موقع پر شَن توپ نے واضح کیا کہ اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) نے 15؍ مارچ کو "اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن" قرار دیا ہے۔ انہوں نے’’او آئی سی پارلیمانی یونین کے موجودہ چیئرمین ‘‘کی حیثیت سے کہا کہ، ’’میں سمجھتا ہوں کہ عالمی برادری کیلئے اس دن کو تسلیم کرنا اور اس کی یاد منانا ضروری ہے تاکہ اس خطرے کے خلاف ہماری مشترکہ جدوجہد ہو‘‘۔ترک صدر رجب طیب اردغان اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اس سے قبل بھی اسلاموفوبیا کے خطرہ سے آگاہ کرتے ہوئے دشمنانِ اسلام کی سازشوں کے خلاف متحدہ جدوجہد پر زور دیا تھا ۔ آج مشرقِ وسطیٰ کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ ان عرب ممالک میں کس طرح مغربی ویوروپی تہذیب و کلچر کو عام کیا جارہا ہے۔ کئی ممالک میں مسلم خواتین و لڑکیوں کو حجاب کے مسئلہ پر نشانہ بنایا جارہا ہے تو دوسری جانب مذہبی رجحانات رکھنے والے یا مذہبی شناخت ظاہر کرنے والے نوجوانوں کو بھی شدت پسند قرار دے کر دشمنانِ اسلام ممالک ہی نہیں بلکہ اسلامی ممالک میں کسی نہ کسی بہانے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس طرح دشمنان اسلام اپنی سازشوں میں کامیابی حاصل کررہی ہیں ۔
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کا ماحول ختم کرنے کے لئے اقدامات نہیں کئے گئے تو مستقبل میں اسکے خطرناک نتائج برآمد ہونگے۔ گذشتہ دنوں ہندوستانی ریاست کرناٹک میں جس طرح بھگوا دہشت گردوں نے مسلم لڑکیوں کواسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیز میں حجاب سے روکنے کے لئے ریاستی سطح پر گھناؤنی تحریک شروع کی ہے اسکا جواب ایک کالج کی بہادر مسلم طالبہ’ مسکان‘ نے جس طرح درجنوں فرقہ پرستوں کے خلاف نعرہ تکبیر ’’اﷲ اکبر‘‘کے ساتھ دیا ہے اگر اسی طرح مزید طالبات آگے آئینگی تو ملک میں ماحول انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کرسکتا ہے ، کیونکہ مسلم طالبات حجاب کیلئے اپنے ملک میں دیئے گئے دستوری حق کوحاصل کرنے کے لئے احتجاج کریں گے۔ اس لئے ریاستِ کرناٹک اور ہندوستانی حکومت کی ذمہ داری ہیکہ وہ ماحول کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لئے تعصب پرست بھگوا ذہنیت رکھنے والے طلباو طالبات اور عہدیداروں کو روکیں ۰۰۰

خودمختار اور آزاد فلسطینی ریاست کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا۰۰انتونیوگوٹیرس
فلسطینیوں کی املاک کو لوٹنے اور اس پر قبضہ کرنے والے غاصب آج مظلوم فلسطینیوں کو آزادی دینے کے حق میں نہیں ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے لئے عالمی سطح پر آوازیں اٹھتی رہی ہیں لیکن صیہونی غاصب مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے بات تک کرنا نہیں چاہتے۔ اقوام متحدہ بھی فلسطینیوں کو انکا حق دلانے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس بھی مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستی نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سوائے اپیل کے اور کچھ نہیں کرسکتے۔ عالمی طاقتیں بھی فلسطینیوں پر اسرائیل کے مظالم کے خلاف کچھ کرنے سے قاصر ہے یا پھر وہ صرف دکھاوے کے لئے مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے بیانات جاری کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے فلسطین۔اسرائیل تنازعے سے متعلق کہا کہ وقت کم ہوتا جا رہا ہے لیکن ہماری امید ہے کہ یہ قبضہ ختم ہو اور دو ریاستی حل کے ہدف تک پہنچا جائے۔ گوٹیرس نے تحفظ حقوق فلسطین کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ مسئلہ فلسطین عالمی امن و استحکام کیلئے مسلسل خطرہ ہے اور تاحال ایک خود مختار اور آزاد فلسطینی ریاست کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا ہے۔ سیکریٹری جنرل نے بتایا کہ فلسطین میں سیاسی،اقتصادی اور سلامتی کی صورتحال ابتر ہوتی جا رہی ہے جن کے حل کی تلاش اور قبضے کے خاتمے کے لئے کوششیں تیز کرنا ہوگی جس کیلئے دو ریاستی حل ناگزیر ہے۔گوٹریس نے مزید کہا کہ تشدد کو ہوا دینے والے یکطرفہ اقدمات اور غیر قانونی مظاہروں سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے جبکہ میں تمام فریقین سے مطالبہ کرتا ہوں کہ مذاکرات کی میز پر واپس آتے ہوئے ٹھوس اقدامات اختیار کریں۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کی جانب سے کی جانے والی اس درخواست کو عالمی طاقتیں خصوصاً امریکہ حتمی شکل دینے اور اس پر عمل کرانے کے لئے اسرائیل پر زور ڈالیں یا اسے منوانے کے لئے اقدامات کرے۔ ان دنوں اسرائیل کے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر ہوتے جارہے ہیں۔ اگر فلسطین کو خودمختار فلسطینی ریاست کی حیثیت دی جاتی ہے تو خطے میں مزید خوشحالی اور ترقی ممکن ہوسکتی ہے ۰۰۰ کاش اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی کے بجائے علاقے میں خوشحالی اور ترقی کے لئے مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستی نظریہ پر راضی ہوجاتا۰۰۰

ذرائع ابلاغ کے مطابق فلسطینی صدر محمود عباس نے مقبوضہ دریائے اردن کے مغربی کنارے کے شہر رملہ میں منعقدہ فلسطین تحریک نجات کی مرکزی کونسل کے 31ویں ٹرم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب تک اسرائیلی قبضے سے نجات حاصل نہیں ہوجاتی بیت المقدس کی حمایت فلسطینی قیادت کی اولین ترجیح رہے گی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے پاس بیت المقدس سے زیادہ قیمتی اور کوئی اثاثہ نہیں ہے۔ حصول آزادی تک بیت المقدس کے عوام کی تحریک مزاحمت کے ساتھ تعاون ہماری اولین ترجیح ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’بیت المقدس ، فلسطین کا ابدی دارالحکومت ہے، ہم نے نہ تو اس موقف سے روگردانی کی اور نہ کریں گے۔ ہم بیت المقدس اور اس کے عوام کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کریں گے‘‘۔ صدر فلسطین نے کہاکہ فلسطینی ، مشرقی بیت المقدس کے دارالحکومت والی اور 1967کی سرحدوں میں، فلسطینی حکومت کے قیام کے خواہشمند ہیں۔ لیکن تل ابیب انتظامیہ پورے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کر ہمارے مطالبہ کی مخالفت کررہی ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے 1967کی سرحدوں کو نامنظوری ، جبری ہجرت کرنے والے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کی مخالفت اور غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر بند کرنے سے انکار پر اپریل 2014کو اسرائیل ۔فلسطین امن مذاکرات رک گئے تھے۔ اب دیکھنا ہیکہ سکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی درخوست پر اسرائیل اورعالمی طاقتیں کس قسم کے ردّعمل کا اظہار کرتے ہیں ۰۰۰

ایران نے 1450کلو میٹر رینج کا حامل میزائل بنالیا
ایران نے ایک نیا میزائل’’خیبر شکن‘‘ تیارکرلیا ہے جو اپنے ہدف کا 1450کلو میٹر فاصلے تک تعاقب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ یہ میزائل زمین سے زمین تک مار کرنے والا نیا بیلسٹک میزائل ہے ۔ متعدد ایرانی دفاعی ماہرین کے مطابق اس میزائل کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ ایران نے اپنے دیرینہ دشمن اسرائیل کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے۔ سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ9؍ فبروری چہارشنبہ کو ایران کی نیم سرکاری خبر ایجنسی ’’تسنیم‘‘ کے حوالے سے یہ خبر منظرعام پر آئی۔ تسنیم کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ اس نئے میزائل کی رونمائی ایرانی فوجی حکام کے پاسداران انقلاب کے میزائل بیس کے دورے کے موقع پر کی گئی۔تقریب میں فوج کے سینئر کمانڈرز کی موجودگی میں انقلاب ایران کی 43ویں سالگرہ کے موقع کی گئی ہے اس موقع پر چیف آف اسٹاف محمد باقری اور پاسدران انقلاب کی ایرواسپیس فورس کے سربراہ کمانڈر عامر علی حاجی زادے بھی موجود تھے۔فوج کے چیف آف اسٹاف محمد باقری نے اس موقع پر کہاکہ یہ میزائل طویل فاصلے تک مار کرنے والا اسٹریٹیجک میزائل ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کو طاقت اور جبر کی زبان کے علاوہ کچھ سمجھ نہیں آتی۔ 1450کلو میٹر تک مار کرنے والا یہ میزائل کسی بھی میزائل شکن نظام کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ذرائع ابلاغ اے ایف پی کے مطابق امریکہ کی جانب سے اس پیشرفت کے ردّعمل میں ایران کی اسلحہ کی پیداواری صلاحیت کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان جیلینا پورٹر نے صحافیوں کو بتایا کہ ’’ایران کی جانب سے بیلسٹک میزائل بنانے او ران کی تعداد میں اضافہ بین الاقوامی سلامتی کیلئے ایک خطرہ ثابت ہوسکتا ہے اور یہ اسلحہ کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لئے ایک چیلنج بن سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ہم اسلحہ کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لئے مختلف اقدامات اٹھارہے ہیں تاکہ ایران کے میزائل پروگرام کو مزید پھیلاؤ سے روکا جاسکے اور اسے یہ ٹیکنالوجی دوسرے ممالک کو منتقل کرنے سے بھی روکا جائے۔ اب دیکھنا ہیکہ ایران مخالف عالمی طاقتیں ایران کے اس میزائل کے خلاف کس قسم کا اظہار کرتے ہیں۔

سعودی وزیر داخلہ شہزادہ عبدالعزیز بن سعود بن نایف کا دورہ پاکستان
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان یوں تو تعلقات ہمیشہ بہتر اور خوشگوار رہے ہیں ۔ یمن کے مسئلہ پر سابق دورِ حکومت میں تعلقات میں کچھ کشیدگی محسوس کی گئی لیکن موجودہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات ہورہے ہیں۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں بھی چند ماہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سرد دکھائی دیئے ۔ ان دنوں حالات دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار ہیں اور سعودی شاہی حکومت پاکستان کے ساتھ مزید مضبوط تعلقات کیلئے پہل کررہی ہے۔ اس سلسلہ میں سعودی وزیر داخلہ شہزادہ عبدالعزیز بن سعود بن نایف نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے7؍ فبروری پیر کو ملاقات کی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق شہزادہ عبدالعزیز بن سعود نے صدر مملکت پاکستان عارف علوی سے بھی ایوان صدر اسلام آباد میں ملاقات کی اور دونوں قائدین کو الگ الگ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے خیر سگالی کے پیغامات وزیراعظم اور صدر مملکت کو پہنچائے۔انہوں نے سعودی قیادت کی طرف سے پاکستان، پاکستانی حکومت اور عوام کی مزید ترقی و خوشحالی کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر سعودی عرب اورپاکستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات اور برادر ملکوں کے درمیان موجودہ تعاون کی مختلف جہتوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔ وزیر اعظم سے ملاقات کے موقع پر پاکستانی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد، اعلی عہدیدار اور سعودی وزیر داخلہ کے ہمراہ سرکاری وفد کے ارکان موجود تھے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ قبل ازیں سعودی وزیر داخلہ پرنس عبدالعزیز بن سعود بن نائف اور پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے درمیان ملاقات میں پاکستان اور سعودی عرب کے داخلہ امور کی وزارتوں کے درمیان روابط کو مزید مضبوط کرنے پر زور دیا گیا۔ اسلام آباد میں ملاقات کے بعد پاکستانی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ سکیورٹی چیلنجز سمیت دیگر مسائل سے نمٹنے کے لیے وزارتوں کے درمیان بہتر روابط ضروری ہیں۔
ٌٌٌٌ*****


 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 210219 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.