لاپتہ افراد کا معمہ ؟


ایک عرصہ سے پاکستان کے شمالی علاقہ جات بالخصوص بلوچستان میں لاپتا افراد ایک معمہ بنے ہوئے ہیں مسنگ پرسن کے حوالہ سے بہت سی ہولناک کہانیاں بھی مشہورہیں جن میں کہی ان کہی بھی شامل ہیں لاپتا افراد کی بازیابی کے لئے سینکڑوں احتجاجی مظاہرے ہوچکے ہیں اس سال لاپتا افراد کے 34 مزید کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔ کمیشن کے مطابق جنوری میں لاپتا افراد کے 46 کیسز پر قانونی عمل مکمل ہوا جبکہ 15 افراد کا سراغ بھی لگا لیا گیا ہے۔ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق سراغ لگائے گئے 15 افراد میں سے 12 لاپتا افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹے جبکہ تین دیگر لاپتا افراد کا سراغ بھی لگالیا گیا جو اس وقت فوج کے زیر نگرانی حفاظتی مراکز میں قید ہے۔ دستاویزات کے مطابق 31 ایسے کیسز کو خارج کیا گیا جو کمیشن کے پاس لاپتا افراد کے طور پر درج ہوچکے تھے مگر تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ وہ کیسز لاپتا افراد کے نہیں تھے اس لئے ان کو خارج کیا گیا ہے۔ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق کمیشن کے قیام سے اب تک 8 ہزار 415 کیسز موصول ہوئے جن میں سے6 ہزار 163 کیسز پرقانونی عمل مکمل ہوچکا ہے جبکہ 2 ہزار 252 ایسے لاپتا افراد ہیں جن کا تاحال کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا ہے گذشتہ سال 2021 میں ملک میں لاپتا افراد کے 1,460 مزید کیسز درج ہوئے تھے اور کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چھ برس میں لاپتا افراد کے درج ہونے والے کیسز میں سب سے زیادہ کیسز سال 2021 میں درج ہوئے، سال 2016 میں لاپتا افراد کے 728، سال 2017 میں 868، 2018 میں 1098 میں، سال 2019 میں 800 جبکہ 2020 میں 415 کیسز درج ہوئے۔کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2021 میں بلوچستان کے 249 لاپتا افراد اپنے گھروں کو واپس چلے گئے سال 2022 کے پہلے مہینے جنوری میں جبری گمشدگیوں کے مزید 34 کیسز درج ہوئے۔ ملک میں لاپتا افراد کے لئے قائم کئے گئے کمیشن کے جنوری کے مہینے کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں لوٹے۔ اعداد و شمار کے مطابق جون میں 137 ، نومبر میں 67 جبکہ دسمبر کے مہینے میں 45 لاپتا افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹے۔

دستاویزات کے مطابق اس وقت فوج کے زیر نگرانی حفاظتی مراکز میں 939 افراد قید ہیں جن میں سب سے زیادہ تعداد خیبر پختونخوا کے رہائشیوں کی 781 ہے۔ فوج کے زیر انتظام انٹرمنٹ سنٹر میں پنجاب کے 91، سندھ کے 41، بلوچستان کے 2، اسلام آباد کے 20، آزاد جموں کشمیر کے 3 جبکہ گلگت بلتستان کے ایک رہائشی فوج کے زیر انتظام مراکز میں قید ہیں۔

کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 10 برس میں 228 لاپتا افراد کی لاشیں ملی جن میں 67 کا تعلق پنجاب سے ، 59 افراد کا سندھ سے، 61افراد کا خیبر پختونخوا سے، 31 افراد کا تعلق بلوچستان سے، 8 کا تعلق اسلام آباد سے جبکہ 2 کا تعلق آزاد جموں اینڈ کشمیر سے تھا۔

کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق کمیشن نے گزشتہ دس برس میں 1,146 ایسے کیسز کو خارج کیا جو کمیشن کے پاس لاپتا افراد کے طور پر درج کئے گئے تھے مگر تحقیقات سے پتاچلا کہ وہ لاپتا افراد کے نہیں اس لئے کمیشن نے ان کیسز کو خارج کیا۔ گزشتہ برسوں کی نسبت سال 2021 میں لاپتا افراد کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ، سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے لاپتا افراد کے کیسز پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ائندہ اجلاس میں لاپتا افراد کے کمیشن سے بریفنگ لینے کا فیصلہ کیا ہے.لاپتا افراد کے کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق کمیشن کے قیام سے اب تک 8 ہزار 415 کیسز موصول ہوئے جن میں سے6 ہزار 163 کیسز پرقانونی عمل مکمل ہوچکا ہے جبکہ 2 ہزار 252 ایسے لاپتہ افراد ہیں جن کا تاحال کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا حفاظتی مراکز کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ لاپتہ افراد میں زیادہ تردہشت گردی،قانون کو ہاتھ میں لینے اور غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں زیرِ حراست ہیں جو تفتیش میں بے گناہ ثابت ہوجائیں ان کورہاکردیاجاتاہے جبکہ ان میں ایسے افرادبھی شامل ہیں جوقوم پرست سرداروں،علیحدگی پسندسیاستدانوں یاپھردہشت گردوں کے آلہ ٔ کارہیں وہ قافلوں پرحملوں،بم دھماکوں اوراسی نوعیت کے غیرقانونی کاموں میں کارروائیاں ڈال کر ہوکرپہاڑوں پرچلے جاتے ہیں لیکن ان کے لواحقین شورمچاتے ہیں کہ انہیں فوج نے اٹھالیاہے جوحقائق کے منافی ہے۔
 

Ilyas Mohammad Hussain
About the Author: Ilyas Mohammad Hussain Read More Articles by Ilyas Mohammad Hussain: 474 Articles with 352059 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.