عمران خان کی ناکامی کی تین بڑی وجوہات

اس میں شک نہیں کہ وطن عزیز میں حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ لوگ خود کو ایک بند اور اندھیری گلی کھڑا ہوا محسوس کررہے ہیں ، جہاں دور دور تک روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی ۔ صرف موجودہ حکومت کے وزیر، مشیر ہی ناکام نہیں ہوئے ، خود وزیراعظم عمران خان کو بھی سمجھ نہیں آرہی کہ ان معاشی بحرانوں سے نکلنے کا راستہ کس طرف ہے۔وہ بھی اندھیرے میں لاٹھیاں چلانے کے سوا کچھ نہیں کرپا رہے۔ وہ ملکی اور غیرملکی قرضوں کے انبار لگا کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے یہ سب کچھ ملک کو بچانے کے لیے کیا ہے ۔ حالانکہ ہر آنے والے دن ملک قرضوں کی دلدل میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے ، اس کو بچانے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ فواد چودھری کا موقف یہ تھا کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کے سوا ہمارے پاس کو ئی چارہ نہیں تھا ۔ اگر فواد چودھری کی بات مان بھی لی جائے تو ان سے پوچھنے کو دل کرتا ہے کہ جب عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کم ہوتی ہیں پھر حکومت کو سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے ۔پٹرول کی قیمتیں کم کرنے کی بجائے لیوی ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرکے عوام الناس کو اسی تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

اس بات کا اظہار بار بار قومی اسمبلی میں کیا جا چکا ہے کہ پٹرول کی قیمت میں ایک لیٹر پر کم از کم 35روپے حکومت منافع لے رہی ہے جو لیوی کی شکل میں عوام الناس کے سر پر ہمیشہ سے سوار چلا آرہا ہے۔ کبھی منافع کی شرح میں اضافہ کردیا جاتا ہے تو کبھی پہلے ہی جیسا رہنے دیا جاتا ہے ۔ہر حال میں عوام کو لوٹنے کا سلسلہ دراز سے دراز ہوتا چلا جا رہا ہے ۔عالمی سطح پر تیل کی قیمت کبھی چند ڈالر کم بھی ہو جاتی ہے تو کبھی چند ڈالر زیادہ ہوجاتی ہے لیکن ہمارے ملک میں تیل کی مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کی بجائے صرف بڑھائی ہی جاتی ہیں۔ کمی کرنے کی توفیق ہمارے حکمرانو ں کو نصیب نہیں ہوتی ۔اسی وجہ سے جو پٹرول نئے پاکستان کا چاند نکلنے سے پہلے 68روپے فی لیٹر تھا وہ اب 160روپے تک جا پہنچا ہے ۔

شواہد کے مطابق صرف 9ماہ میں 12 مرتبہ پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا چکا ہے۔کوئی وزیر کہتا ہے کہ پاکستان میں تیل کے کنویں نہیں ہیں ،اس لیے پٹرول کو مہنگا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔اس لیے عوام اپنی قوت خرید اور مالی بساعت کے مطابق اپنی گاڑیاں اور موٹر سائیکل چلائیں۔ ایسے وزیر سے یہ پوچھنے کو دل چاہتا ہے کہ ایک شخص جو ہر صبح پہلے بچوں کو مختلف تعلیمی اداروں میں چھوڑنے کے گھر واپس آکر اپنے کام کاج پر جاتا ہے کیا وہ اپنی سواری کو چھوڑ کر صبح سے شام تک پیدل ہی پھرتا رہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ایسی باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جنہیں مفت میں نئی سے نئی سے گاڑیاں مع ڈرائیور اور لامحدود پٹرول وغیرہ کی سہولتیں حاصل ہیں ۔ ان کو عوام کی پریشانیوں کا احساس نہیں بلکہ وہ قومی خزانے کی کسی نہ کسی طرح لوٹ مار میں مصروف ہیں ۔ بجلی کے بل بھی صرف عوام ادا کرتے ہیں ۔ اس ملک کی اشرافیہ سمیت وزراء اور مشیروں اور سرکاری افسروں کے، سب کو سرکاری خرچ پر مفت اور بغیر کسی تعطل سے بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے ۔ بزرگوں نے سہی فرمایا تھا کہ جس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے باتیں بھی اسے ہی آتی ہیں۔

مشیر خاص شہباز گل کہتے ہیں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے پیدل چلنے والوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ واہ کیا حجت نکالی ہے مشیر خاص نے ۔ جس کا کام صرف عمران خان کی غلط پالیسیوں اور عوام دشمن فیصلوں کا دفاع ہے ۔ انہیں نہ تو خدا کا خوف ہوتا ہے اور نہ آخرت میں پوچھ گچھ کا۔ وہ آخرت کو بھول کر صرف عمران خان کی خوشنودی کے لیے آسمان او زمین کے قلابے ملاتے جا رہے ہیں ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ان کا ضمیر ہی مرچکا ہے ۔ جن کا ضمیر زندہ ہوتا ہے وہ کبھی ایسی باتیں نہیں کرتے ۔

فواد چودھری فرماتے ہیں ۔ہم کب تک تیل کی قیمتوں کو بڑھنے سے روک سکتے ہیں ۔گویا 9ماہ میں 12مرتبہ پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کا دفاع بھی انتہائی بھونڈے انداز میں کررہے ہیں، جیسے عوام ان کی باتوں پر من و عن یقین کرلیں گے ۔پچھلی حکومتوں میں پٹرول کی قیمتوں میں مہینے بعد کمی و بیشی کی جاتی تھی لیکن نئے پاکستان کے پیرو کاروں نے قیمتوں میں اضافے کا عذاب پندرہ دن بعد ہی نازل کرنا شروع کردیا ہے ۔اس مرتبہ اخبارات میں اوگرا کی جانب سے 8روپے فی لیٹر اضافے کی خبریں سننے میں آ رہی تھیں لیکن عمران خان نے چار روپے اپنے پاس سے ڈال کر 12روپے فی لیٹر اضافہ کرکے ثابت کردیاہے کہ انہیں عوام کی حالت زار کا کوئی خیال نہیں ہے بلکہ خود انہوں نے 2018ء سے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اگر بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو سمجھ لینا چاہیئے کہ آپ کا وزیر اعظم چور ہے ۔ جن کاموں پر عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے سے تنقید کیا کرتے تھے ۔ قدرت نے وہی کام ان سے کروا کر انہیں بھی چور ثابت کردیا ہے ۔

اس سے قطع نظر کہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا اثر ہر اس چیز پر پڑتا ہے جو کسی نہ کسی طرح انسانی استعمال میں آتی ہیں ۔ بلکہ سب سے زیادہ متاثر اشیائے خورد ونوش ہو تی ہیں جن کی قیمتوں میں بیٹھے بٹھائے دس سے بیس فیصد اضافہ کردیا جاتا ہے ۔چونکہ حکومت ہر محاذ پر بے بس ہے اس کا کنٹرول کسی بھی چیز اور ادارے پر نہیں ہے اس لیے سب سے پہلے تو قیمتیں بڑھنے کا فائدہ پٹرول پمپ والے اٹھاتے ہیں جن کے لاکھوں لیٹر پٹرول کا ذخیرہ زیر زمین موجود ہوتا ہے ۔جسے وہ عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافے کی باز گشت سننے اور اخبارات میں اوگرا کی سمری کے بارے میں جان کر کرلیتے ہیں ۔ پھر جیسے ہی یکم اور پندرہ تاریخ کو پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اسی لمحے حکومت کی اعلان شدہ قیمتوں پر پٹرول کی فروخت شروع کردیتے ہیں ۔ گویا بیٹھے بٹھائے لاکھوں اور کروڑوں روپے کا منافع چند منٹوں میں حاصل کر لیتے ہیں لیکن یہ اضافہ پٹرول پمپوں کے مالکان کی جیب میں جاتا ہے ،لیکن پٹروم پمپوں پر کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں میں ایک پیسہ بھی اضافہ نہیں کیا جاتا بلکہ وہ ملازمین تو بے روزگاری سے تنگ آکر پہلے ہی حکومت کے مقرر کردہ کم سے کم تنخواہ سے بہت کم ماہانہ تنخواہ پر ملازمت کرنے پر مجبور ہیں ۔چونکہ ہر چیز کو منڈیوں سے لاکر دکانوں پر فروخت کرنے کے بہانے ہر دکان پر پہلے سے پڑی ہوئی اشیاء کی قیمتوں میں بھی من چاہا اضافہ کرلیا جاتا ہے ۔ ایک بات میں اپنی آزمودہ بتانے جارہا ہوں ۔سردیوں کی سوغات چلغوزے توہم خرید کر کھا نہیں سکتے کیونکہ وہ 36سو روپے سے زیادہ نرخوں پر مارکیٹوں میں دستیاب ہیں ۔ جبکہ سردیوں کے موسم میں شام ڈھلے جب بستروں میں ٹانگیں رکھ کر نگاہیں ٹی وی پر جمی ہوتی ہیں تو دل چاہتا ہے کہ کچھ نہ کچھ کھایا جائے ۔ پچھلی سردیوں میں تو مونگ پھلی خرید کر کھا لیا کرتے تھے لیکن اس مرتبہ کھانسی نے اس قدر بے حال کردیا کہ مونگ پھلی کھانے کا رسک لینے سے ڈر لگتا ہے ۔ چنانچہ اس کا حل یہ نکالا کہ بھنے ہوئے چنے کھا لیے جائیں ۔ خشک میوہ جات کی دکان جو ہر جگہوافر مقدار میں کھلی دکھائی دیتی ہیں ان میں دو قسم کے بھنے ہوئے چنے ہوتے ہیں ایک 60روپے کے پاؤ اور دوسرے 80روپے کے پاؤ ملتے ہیں ۔ہم نے اس سردیوں میں 80روپے پاؤ والے چنے خرید کر چلغوزوں کی طرح خوب کھائے ۔جس دن حکومت نے پٹرول کی قیمتوں میں یکدم 12روپے کا اضافہ کردیا تو اگلی صبح جب میں بھنے ہوئے چنے خریدنے گیا تو دکاندار نے وہی چنے جو اس کے پاس وافر مقدار میں موجود تھے یکدم ریٹ بڑھا کر 100 پاؤ کردیا ۔ میں نے کہا بھائی ابھی رات کو تم پٹرول کی قیمتیں بڑھی ہیں اور چنے آپ کی دکان پر کئی مہینوں سے وہی دکھائی دے رہے ہیں ۔ آپ پہلے سے رکھے ہوئے چنوں کی قیمت میں اضافہ کس چکر میں کردیا ہے ۔دکاندار نے کہا جب سب چیزوں کی قیمتیں بڑھتی ہیں ہمارے بھنے ہوئے چنے بھی مہنگے ہوگئے ہیں ۔مزے کی بات تو یہ ہے ڈرائی فروٹ فروخت کرنے والے سب کے سب ایک ہی ریٹ میں فروخت کررہے ہیں ۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ دکاندار بھی عوام کو کند چھری سے ذبح کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ اسے ہم ترقی کہیں یا تنزلی ۔ حقیقت حال سب کے سامنے ہے ۔ عوام کی طرف سے یہ مطالبہ بالکل جائز دکھائی دیتا ہے کہ پٹرول کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں اگر 15ہزارروپے تنخواہ لینے والا ملازم اپنی جیب سے پٹرول خرید سکتا ہے تو اس ملک کے سرکاری افسران ، ججز، وزراء، ایم این اے اور ایم پی اے جن کی تنخواہیں لاکھوں میں ہیں وہ پٹرول اپنی جیب سے کیوں نہیں خرید سکتے ۔اگر عوام مہنگے پٹرول کو خرید کر اپنی اپنی سواریوں میں ڈلوا رہے ہیں تو اس ملک کی اشرافیہ کیوں قومی خزانے پر بوجھ بن رہی ہے جو ہمیشہ سے خالی نظر آتا ہے ۔

یہی حال پاکستانی روپے کی گراوٹ اور ڈالر کی قیمت آسمان پر پہنچنے کا سبب ہے ۔ اس لمحے ہماری کرنسی افغانستان اور نیپال سے بھی کمتر ہو چکی ہے ۔ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ایک ملکی قرضوں میں حد درجہ اضافہ ہو جاتا ہے تو دوسری طرف بیرونی ممالک سے جو اشیاء خورد نوش اور ادویات منگوانی پڑتیں ہیں ان کے نرخ بھی آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں ۔ حج عمرے پر جانے والوں کے لیے یہ عمل انتہائی تکلیف دہ ہے کیونکہ جو عمرہ موجودہ حکومت کے آنے سے پہلے ایک لاکھ میں ہو جاتا تھا اب اڑھائی لاکھ تک پہنچ چکا ہے جبکہ حجکے اخراجات اڑھائی لاکھ تھے جو اب چار لاکھ سے بھی اوپر جارہے ہیں ۔ وزیراعظم عوام کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ گبھرانے کی ضرورت نہیں جلد بہت اچھا وقت آنے والا ہے ۔

یقین جانیئے اب تو ٹی وی دیکھنے کو بھی دل نہیں کرتا کیونکہ ایک ترجمان جھوٹ بول کر ابھی فارغ نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہے ۔ بہرکیف موجودہ حکومت کی ناکامی کا سب بڑا عنصر مہینے میں دو تین مرتبہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنا بھی شامل ہے ۔ 2018سے پہلے بجلی کا ایک یونٹ 14روپے تھا ،اب اسی بجلی کا یونٹ 35روپے تک پہنچ چکا ہے ۔گرمیوں میں آٹھ دس ہزار روپے ماھانہ بجلی کا بل آنا ایک معمول تھا لیکن ستم ظریفی تو دیکھیئے کہ بجلی کے ریٹ اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ سردیوں میں گرمیوں جتنی مالیت کے بل موصول ہو رہے ہیں اور وہ بھی مہینے کی آخری تاریخوں میں۔ ابھی پچھلے مہینے کے بل کا زخم بھرتا نہیں کہ نیابل عذاب کی شکل میں نازل ہوجاتا ہے ۔اگریہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ غریب ہو یا امیر ہو ۔ موجودہ حکمرانوں کا بلاشبہ یہ اعزاز ہے کہ انہوں نے سب کو ایک ہی چھری سے ذبح کیا ہے ۔عمران خان فرماتے ہیں کہ حکومت مکمل ہونے پر ہم دیکھیں گے کہ غربت ختم ہوئی ہے یا نہیں ۔سچی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کو یہ کہنا چاہیئے تھا کہ حکومت مکمل ہونے پر دیکھوں گا کہ غربت ختم ہوئی ہے یا غریب ۔ اس عمرانی دور میں سب سے زیادہ متوسط طبقہ متاثر ہوا ہے۔ غربت کے ساتھ ساتھ غریبوں کو تو صفحہ ہستی سے ہی مٹانے کا مشن تو اب بھی جاری ہے بلکہ جب تک عمران خان وزیراعظم ہیں اس وقت یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے گا۔
...............

والد ین اپنی بچیوں کی شادیوں میں سونے کے زیورات بناتے تھے، اب سونے کی قیمت سوا لاکھ سے بھی اوپر جا پہنچی ہے ۔ غریب آدمی تو پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جا رہا تھا اب وہ اپنی بیٹیوں کی شاد ی کے لیے دو چار تولے سونا کہا ں سے لائے گا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سونا خریدنا بھی اب ایک خواب بنتا جا رہا ہے ۔میری ایک سنیارے سے بات ہوئی ،میں نے کہا آپ کی تو چاروں ہی گھی میں ہیں ۔ سنیارے نے کہاسونا مہنگے ہونے کی وجہ عام لوگ سونے کے زیورات خریدنے ہی سے عاجز آچکے ہیں یو ں محسوس ہورہا ہے ہمیں یہ کاروبارچھوڑ کر کوئی اور کاروبار کرنا پڑے گا ۔ یہ حکومت کی چوتھی ناکامی ہے جس کی طرف موجودہ حکمرانوں کا دھیان ہی نہیں ہے ۔

بہرکیف یہ چار عوامل ہیں جو موجودہ حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی ہر شعبے میں صفر سے بھی نیچے جا چکی ہے لیکن ترجمانوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ ترجمان اپنی حکومت کی نااہلیت اور غلط اقدامات کو سابقہ حکومتوں کی وجہ قرار دیتے ہوئے نہیں تھکتے ۔پھر عمران خان کہتے ہیں کہ مجھے مہنگائی کی وجہ سے نیند نہیں آتی ۔ نیند تو عوام کی اڑ تی جا رہی ہے، آپ تو تین سو کینال اراضی پر بنے ہوئے عالیشان محل "بنی گالا" میں زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں آپ کو غریبوں کی اگر اتنی ہی فکر ہوتی تو مہینے میں تین مرتبہ بجلی کی قیمت نہ بڑھاتے ۔ اگر آپ کو وطن عزیز کے عوام کا اتنا ہی خیال ہوتا تو پٹرول کی قیمت میں حکومت کو ملنے والے منافع کو یکسر ختم کرکے جس قیمت پر پٹرول عالمی سطح پر مل رہا ہے اسی قیمت پر عوام کو فراہم کرتے ۔ ویسے آپس کی بات ہے ۔ پاکستان کو تو سعودی عرب سے مفت تیل ملتا ہے پھر تیل کی قیمتوں ہوشربا ٹیکسوں کا نزول کیوں ضروری سمجھا جاتا ہے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 667351 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.