گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را

گلشن اسلام کی آب یاری اورسواد ِاعظم اہل سنت وجماعت کے تحفظ وبقا کے لیے ہر دَور کے علماو مشائخ نے اپنا خون ِجگر پیش کیاہے،خانقاہوں ، تحریکوں اور تنظیموں نے اپنی قوت فکر وعمل سے اسے شادوآبادکیااورسخت ترین حالات میں بھی اسے خزاں رسید ہو نے سے محفوظ رکھا ،یہی وجہ ہے کہ امتِ مسلمہ ہر زمانے میں اس طبقے کا منت سناش رہی اور نئی نسل تک ان اساطین ملت کے علمی وفکری اور مذہبی ذخیرے کو منتقل کر نے کی کوششیں ہو تی رہیں ۔بلاشبہہ آنے والی نسلوں کا ذہنی وفکری رشتہ اپنے اسلاف سے استوار رکھنا اور ان کی علمی،تہذیبی اورتاریخی وارثت کا تحفظ ملت کے استحکام وبقا کے لیے بے حدضروری ہے۔

بحمدہ تعالیٰ ایک طویل غفلت کے بعد اسلاف شناسی کا جذبہ ہماری جماعت میں بیدار ہو اہے ، بر صغیر ہند وپاک میں مختلف محاذوں پر کام ہو رہا ہے ، وطنِ عزیز ہندوستان کی کئی خا نقاہو ں اور اشاعتی اداروں نے اس سلسلے میں مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ کام کا آغاز کیا ہے اور تحریر وقلم سے وابستہ کئی بڑی اہم شخصیتیں بھی انفرادی طور پر تذکرۂ اسلاف کی تر تیب وتدوین میں مصروف ہیں ۔اس ضمن میں ملک کےان نوجوان اہل قلم کی کوشسوں کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جوحوادث زمانہ کے گر دوغبار میں دبی ہو ئی شخصیتوں کو منظر عام پر لانے کے لیے مسلسل جد وجہد کر رہے ہیں اور جن کی مساعی جمیلہ سے سیکڑوں فراموش شدہ شخصیتوں کومنظر ِعام پر لایا جا چکا ہے۔

بہار کا علاقۂ سیمانچل ہمیشہ اہل علم وادب کا مسکن رہا ہے،اس خطۂ ارض میں علم وادب کی بڑی عظیم ہستیاں جلوگر ہوئیں ،معرفت وروحانیت کی عہد سازشخصیتوں نے جنم لیا اور اپنے علمی وفکری کما لات سے نہ صرف سیمانچل بلکہ بر صغیر کے ایک بڑے خطے کو متاثر کیا،درس وتدریس، تحقیق وتصنیف ،شعروادب،وعظ وخطابت،قیادت و امامت کے میدانوں میں ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں،یہ وہ نفوس قدسیہ ہیں جنھوں نے سیمانچل کے کاروانِ اہل سنت کوصحیح سمت عطا کی اور معتقدات اہل سنت کے تحفظ وبقا کے لیے اپنا خونِ جگر پیش کیا،بد مذہبوں اور گمراہ فرقوں کے خلاف مسلسل محاذ آرا رہے ،اس خطے میں علم دین کی شمع فروزاں کر نے کے لیے نہایت نا مساعد حالات میں بھی مدارسِ اسلامیہ کے قیام کو اپنا اولین منصوبہ بنایا اور اس کے استحکام وبقا کے لیے دَر دَر کی خاک چھانی،ہزاروں صعوبتیں برداشت کیں،مذہب وملت کی سرفرازی کے لیے تن من دھن کی قر بانیاں پیش کیں اور اپنا چین وسکون تج کر امت مسلمہ کی سرخروئی کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا ۔افسوس ہے کہ ملت کے ان پاسبانوں کی یادیں ، ان کی بے لوث خدمات کے تذکرے ،ان کے تاریخ ساز کارناموں کی زرّین داستانیں ہماری غفلت وتساہلی کی بھینٹ چڑھ کر ہمیشہ کے لیے ہمارے ذہن وماغ سے محو ہو تی جارہی ہیں ، ان کی یادوں کے نقوش مٹتے جارہے ہیں ،ان کی خدمات پرگردش ایام کے دبیز پردے پڑتے جارہے ہیں۔

سیمانچل کی فراموش کردہ شخصیتوں میں ایک اہم نام زبدۃ الفضلاحضرت مولاناشاہ حفیظ الدین لطیفی قدس سرہ[۱۲۴۵-۱۳۳۳ھ] کا ہے ، کٹیہار بہار کے بارسوئی اسٹیشن سے تقریبا۱۰؍کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع رحمٰن پورتکیہ شریف آپ کی دعوت وتبلیغ کا مرکز تھا ۔ آپ علم وفضل ، زہد وتقویٰ اور معرفت وروحانیت کے بلند مقام پر فائز تھے،ایک زمانے تک سہسرام کے مدرسہ خانقاہ کبیریہ کے علاوہ پٹنہ ، مجگاؤں ، بھاگل پور، شاہ جہاں پور کے اداروں میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیے۔ ہزاروں تشنگان ِ علوم فنون نے آپ کی درس گاہ ِ علم وفن سے اکتساب فیض کیا ، سیکڑوں طالبان معرفت نے آپ کی نگرانی میں معرفت وروحانیت کے منازل طے کیے ۔سیمانچل سمیت مغربی بنگال کے کثیر اضلاع میں بھی آپ نے رشد وہدایت کی تحریک چلائی ،بے شمارگم گشتگان ِ راہ نے آپ کی کوششوں سے ہدایت کا سفر طے کیا ، معتقدات اہل سنت کے تحفظ وبقا اور باطل فرقوں کی تردیدو ابطال کے حوالے سے آپ کی مخلصانہ کوششیں ناقابل فراموش ہیں ۔

آپ نے درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ کے ساتھ کئی اہم کتابیں بھی تصنیف فر مائیں، نظم ونثر دونوں میدانوں میں یکساں دسترس رکھتے تھے ، فارسی شاعری میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا ، عربی شاعری میں بھی آپ طبع آزمائی فرماتے تھے ، اردو زبان میں بھی آپ کے کلام ملتے ہیں ،’’دیوان لطیفی‘‘ آپ کےشاعرانہ کمالات اور اس میدان میں آپ کی عظمتوں کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔

حضرت مولانا شاہ حفیظ الدین لطیفی علیہ الرحمۃوالرضوان مجدد اعظم اعلیٰ حضرت امام احمدرضا بریلوی قدس سرہ[۱۲۷۲-۱۳۴۰ھ] کے ہم عصر وہم خیال تھے ، پٹنہ میں تحریک رد ندوہ کے جلسہ ٔ عام منعقدہ۱۳۱۸ھ کے لیے مشرقی بہار کے نمائندہ کے طور پر آپ ہی کا انتخاب عمل میں آیاتھا ،حضرت لطیفی علیہ الرحمۃ والرضوان نے بڑھ چڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیا تھا اور مشائخ اہل سنت کے شانہ بشانہ چل کر اپنی نمائندگی کا حق ادا فر مایا تھا۔

حیرت ہے کہ سیمانچل کی یہ عظیم شخصیت ایک زمانے تک پردۂ خفا میں رہی ، حلقۂ مریدین کے علاوہ شاید ہی کوئی ان کی خدمات اور کارناموں سے واقف رہا ہو ، جو جانتے بھی تھے وہ صرف ایک پیر طریقت کے طور پر جانتے تھے، ان کا علمی مقام ومرتبہ ، ان کی عظیم دینی وتبلیغی خدمات ، ان کی گراں قدر تصانیف اور ان کی روحانیعظمتیں اہل علم وادب کی نگاہوں سے اوجھل تھیں ، ان کی خانقاہ جہا ں کبھی معرفت وروحانیت کے جام پلائے جاتے تھے، ایمان وعقیدے کی حفاظت کےمنصوبے بنائے جاتے تھے اور خلق خدا کی رشد وہدایت کا فریضہ پورے اخلاص کے ساتھ انجام دیا جاتا تھا، جس کے آب وتاب سے مشرقی بہار اور مغربی بنگال کی کثیر آبادیاں روشن تھیں ، آپ کے وصال کے بعد آپ کے جانشینوں نے اپنے اپنے طور پر اس سلسلۂ رشد وہدایت کو باقی رکھنے کی کوشش کی ،لیکن تقریبا ایک صدی تک آپ کی حیات وخدمات پر کوئی کام نہیں ہو سکا ، ۱۹۹۸ء میں آپ ہی کے خانوادے کے ایک قلندر صفت عالم دین حضرت مولانا خواجہ ساجد عالم لطیفی مصباحی نے آپ کی حیات وخدمات کے منتشر اوراق کو سمیٹنے کا منصوبہ بنایا اور پوری دیوانگی کے ساتھ آپ کی کتاب حیات کے گم گشتہ اوراق کی جستجو شروع کی، کبھی اس گھاٹ اور کبھی اس گھاٹ چکر لگاتے رہے ،کئی سالوں کی محنت ومشقت کے بعد حضرت لطیفی کے باقی ماندہ آثار جمع کر نے میں کام یاب ہوئے ، ایک دہائی کے اندر آپ نے حضرت لطیفی علیہ الرحمہ کے احوال وآثار پر کئی کتابچے تحریر فرمائے ، اپنے احباب کے تعاون سے آپ کی دستیاب تصانیف کی از سر نو طباعت واشاعت کا بیڑا اٹھا یا ، حفیظ ملت اکیڈ می کے زیر ہتمام انھیں شائع فر ماکر علمی حلقوں تک پہنچانے کا اہم کار نامہ انجام دیا ۔۲۰۱۲ء میں عرس صد سالہ کے مبارک موقع پر ملک بھر کے اکابرعلماے کرام اور اصحاب فکر وقلم سے رابطہ کر کے حضرت لطیفی علیہ الرحمہ کی حیات وخدمات کے مختلف گوشوں پر مضامین اور مقالات لکھا ئے ، ہر مقالہ نگار کو نہ صرف یہ کہ مواد فراہم کیا بلکہ مسلسل رابطے میں رہ کر ان سے مقالہ لکھوانے میں کام یابی حاصل کی ، ۲۳؍ اپریل ۲۰۱۲ء کو آپ کے عرس صد سالہ کے موقع پر سیمینار کا انعقاد کیا ، جس میں آپ کی حیات وخدمات پر گراں قدر مقالات پیش کیے گئے ،ان مقالات میں سے بعض کو پہلے’’ مجلہ لطیفی ‘‘ کےنام سےشائع کیا اور پھر بعد میں تمام مقالات’’عرفان حفیظ ‘‘ کی شکل میں منظر عام پر آئے ۔خدا کا شکر ہے کہ بہت کچھ ضائع ہو نے کے بعد ہی سہی حضرت لطیفی علیہ الرحمہ کے باقی ماندہ آثار محفوظ ہو گئے اور کچھ حد تک آپ کا تعارف عوام وخواص اور اہل علم کے حلقوں تک ہو گیا ، ورنہ اس علاقے کا حال تویہ ہے کہ بڑی بڑی شخصیتوں کو بہت آسانی کے ساتھ فراموش کر دیا جاتا ہے ، اس سر زمین کے بارے میں کسی دانا نے بہت پہلے کہا تھا کہ ’’یہ مردم خیز بھی ہے اور مردم خور بھی ‘‘۔

احسان ناشناسی اور اسلا ف فراموشی کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ، ماضی قریب میں اس علاقے میں کتنے اکابر علما ایسے گزرے جنھوں نے اپنی پوری زندگی دین وسنیت کے تحفظ میں لگادی ، اپنا مال ومتاع سب کچھ قوم کی صلاح وفلاح کے لیے قربان کر دیا ، اپنی ساری توانائی ملت کے بکھرے زلفوں کو سنوار نے میں صرف کردی، آج انھیں کوئی یاد کر نے والا نھیں ہے ، ان کی یادوں کے چراغ ہمیشہ کے لیے بجھا دیے گئے ، ان کی قر بانیوں کو بہت بے دردی کے ساتھ فراموش کر دیا گیا، کسی پر بہت پیار آیا تو ان کا مزار تعمیر کر کے وہاں عرس اور میلے ٹھیلے کا انتظام کر دیا گیا، اس میں بھی ان سے عقیدت کم اپنی دنیاوی مفاد زیادہ پیش نظر رہا ، آج جب مجھ جیسا نئی نسل کا کوئی طالب علم شہر خموشاں کے ان چراغوں سے روشنی حاصل کر نے کی کوشش کرتا ہے تو پتہ چلتا ہے گنبد ومینار کے سوا کچھ نہیں بچا ہے ، احباب ومتعلقین نام وپتہ کے علاوہ کوئی کچھ بتا نے کی پوزیشن میں نھیں ہیں ،اور بتائیں بھی کیوں ، بغیر بتائے ہی ’’ کارو بار ‘‘ اچھا چل رہا ہے، اعراس ترقی پذیر ہیں اور مفادات حاصل ہو رہے ، پھر دماغ سوزی کی کیا ضرورت ہے۔

افسوس ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ اب بھی ہوش کے ناخن لینے کو تیار نھیں ، کارواں لٹ جانے کے بعد بھی احساس زیاں پیدا نہیں ہو سکا ہے، اپنے اکابر واساتذہ کے حالات اب بھی جمع کر نے کی طرف کو ئی خاص پیش قدمی نہیں ہو سکی ہے، اور جو مٹھی بھر افراد اس راہ میں آبلہ پائی کررہے ہیں ، ان کی نہ قدرکی جاتی ہے اور نہ حوصلہ افزائی ، انھیں علمی وقلمی تعاون پیش کر نے کی بجاے ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے ، انھیں دیوانہ سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے ، اس طبقے سے جب اسٹیج اور منبر ومحراب کی بات کی جاتی ہے تو ان کے چہرے کھل اٹھتے ہیں ،باچھیں کھل جاتی ہیں ، رخ زیباپر فرحت و مسرت کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں ، رات رات بھر جلسے کے اسٹیجوں میں بیٹھ کرپیشہ ور مقررین اور گویے قسم کے نعت خوانوں کو اچھل اچھل کر داد دینے والے بعض علما سے جب کسی علمی کام کے لیے ایک گھنٹے کا وقت مانگا جاتا ہے تو ان کی پیشانیاں شکن آلود ہو جاتی ہیں اور کسی نہ کسی بہانے وہ دامن چھڑا نے میں کام یاب ہو جاتے ہیں ، میں ہوائی اور خیالی باتیں کر نے کا قائل نھیں ، ادھر کئی سالوں میں اس طرح کے بے شمار حادثات پیش آئے اور بڑے تلخ تجربات سے دوچار ہوا،اس طرح کے تجربات دیگر ارباب فکر وبصیرت کو بھی ہوئے ہوں گے ۔ افسوس ہو تا ہے کہ ہماری جماعت کہاں جار ہی ہے ، ہماری نئی نسل کی ترجیحات کیا ہیں ؟ ہماراشعور کب بیدار ہوگا اور کب ہم ماضی کے نقصانات کا جائزہ لیں گے ؟۔

نئی نسل کے علما جن کے کندھوں پر مستقبل کی ذمے داریاں ہیں ، جنھیں ملت اسلامیہ کے کاروان ِ فکر وعمل کی قیادت سنبھالنی ہے ، جنھیں اپنی جماعت کا فکری ونظریاتی رُ خ متعین کر نا ہے ان میں اکثر سوشل میڈ یا پر ایک دوسرے کی پگڑیا ں اچھالنے میں مصروف ہیں ،سوشل میڈیا میں ان کی دھینگا مشتی دیکھ کر ہر درد مند دل کو شدید افسوس ہو تا ہے ، جماعت تانے بانے کو بکھیر نے میں ان بے لگام کرداروں کا بھی اہم کردار ہے ، کاش یہ اپنے اسلاف کی تاریخ کا مطالعہ کر تے ،ان کی کتاب حیات کا جائزہ لیتے ، ان کے اخلاق وکردار کو اپنے لیے نمونۂ عمل بناتے ،تحفظ ِ اوقات کے حوالے سے ان کی زندگی کی صبح وشام کو دیکھتے تو کبھی سوشل میڈیا کے خرافات میں اپنی قیمتی زندگی ضائع نہیں کرتے ۔ ہمیں اپنی ترجیحات کی تعیین کے لیے اپنے اسلاف کی تاریخ کا مطالعہ کر نا بہت ضروری ہے ، فکر وعمل کی اصلاح کے لیے بھی ان کے تذکروں کو حزر جاں بنا نے کی سخت ضرورت ہے، ہم زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ان سے بے نیاز نہیں ہیں ۔
تازہ خواہی داشتن گر داغہاے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را

حضرت لطیفی علیہ الرحمہ کے احوال وآثار پر یہ خصوصی شمارہ پیش کر تے ہو ئے ہماری ٹیم انتہائی مسرت محسوس کررہی ہے، در اصل یہ خصوصی شمارہ خانوادۂ لطیفی کے چشم وچراغ اور اپنے آبا واجداد کے علمی وقلمی ورثہ کے امین وپاسبان ، متحرک وفعال شخصیت حضرت مولانا خواجہ ساجد عالم لطیفی مصباحی استاذ مدرسہ وخانقاہ لطیفیہ رحمن پور تکیہ شریف کی خصوصی تحریک اور نظر التفات سے منظر عام پر آرہا ہے ، یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ گرامی وقار حضرت مولانا خواجہ ساجد عالم لطیفی مصباحی کے اس اقدام وپیش رفت میں آپ کے احباب و متعلقین میں پروفیسر مشفق عالم ، ٹی این بی کالج بھاگل پور، عالی جنا ب ماسٹر حماد مظہری رحمن پور ، عالی جناب عقیل احمد خاں وحیدی رحمن پور ،حضرت حافظ وقاری اقبال احمدرضوی فیضی کھیم پور ،حضرت مولانا مفتی شمیم اختر تحسینی صدرالمدرسین وصدر شعبۂ افتا مدرسہ وخانقاہ رحمن پور، عالی جناب ماسٹر غلام وحید وحیدی استاذ شعبۂ انگلش وہندی مدرسہ و خانقاہ لطیفیہ رحمن پور جب کہ خانوادۂ لطیفی کے اصحاب و افراد میں حضرت شاہ بارق عالم شاہدی لطیفی ، حضرت مولانا شاہ خواجہ خورشید عالم لطیفی، حضرت مولانا قاری شاہ آفتاب عالم لطیفی مصباحی ،حضرت مولانا شاہ خواجہ تہذیب عالم لطیفی مصباحی ،حضرت شاہ خواجہ شاہد لطیفی ایڈوکیٹ، حضرت مولانا شاہ خواجہ نوید عالم لطیفی ،حضرت مولانا شاہ خواجہ ریحان اصغر لطیفی مصباحی ،حضرت مولانا شاہ خواجہ وحید نواز لطیفی مصباحی ،حضرت شاہ فرہاد عالم صدر مدرسہ و خانقاہ ،حضرت مولانا شاہ خواجہ نورعالم لطیفی نعیمی سجادہ نشیں خانقاہ لطیفیہ ،حضرت مفتی شاہ خواجہ نیر عالم لطیفی صدر شعبۂ افتا خانقاہ ِ رحمٰن پور کی نیک خواہشات شامل ہیں ۔

ان تمام معززین کی خدمت میں مبارک باد کا گلد ستہ پیش ہے ،قارئیں ان کرم فر ماؤں کے حق میں دعاے خیر کریں ۔ رب تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ حضرت لطیفی کا علمی وروحانی مشن خانقاہ لطیفیہ رحمن پور تکیہ شریف کے بینر تلے جاری رہے اور حضرت کے روحانی فیوض وبر کات سے ہم سب مالال مال ہوں۔ آمین بجاہ حبیبہ سید المر سلین ۔

 

محمد ساجدرضا مصباحی
About the Author: محمد ساجدرضا مصباحی Read More Articles by محمد ساجدرضا مصباحی: 56 Articles with 93340 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.