گیٹ نمبر 4 کے باہر بیٹھا ایک شخص چیخیں مار رہا تھا،
منتیں ترلے کر رہا تھااور دہائیاں دے رہا تھا کہ گھر کے مکینوں میں سے کوئی
تو باہر آکر اُس کی فریاد سُنے لیکن اندر گہری خاموشی طاری تھی۔ صبح سے شام
ہوئی، پھر رات کے گہرے سائے اور آخر کار جب رات کا پچھلا پہر آیا تو گیٹ پر
بیٹھے گارڈ نے اُس شخص کو مخاطب کرکے کہا
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئے گا
پھر وہ شخص بُڑ بڑاتا ہوا چلا گیا ’’اِس گھر کے مکین سَتّو پی کر سوئے ہوئے
ہیں‘‘ بندہ مگر تیز تھااِسی لیے اُس نے سوچا کہ وہ کوئی ایسا چکر چلائے گا
جس سے بالآخر گھر کے مکینوں کو باہر نکلنا پڑے گا۔ نام اُس شخص کا شیخ رشید
اور عہدہ وفاقی وزیرِداخلہ۔ اب وہ اِسی تگ ودَو میں ہے کہ ملک میں انارکی
پھیلے تاکہ جمہوری بندوبست ٹھپ ہوجائے۔اِسی لیے عدم اعتماد کی تحریک کو
ناکام بنانے اور انارکی پھیلانے کے لیے اُس نے ٹویٹ کیا ’’میری اپیل ہے کہ
وزیرِاعظم کے تمام ووٹرز اور سپوٹرز تحریکِ عدم اعتماد کے دن پارلیمنٹ ہاؤس
کے سامنے ڈی چوک گرین ایریا میں جمع ہوں‘‘۔ اُسے چونکہ وزیرِاعظم کی مکمل
حمایت حاصل ہے اِس لیے وزیرِاعظم نے بھی کہہ دیا کہ وہ ڈی چوک گرین ایریا
میں لاکھوں کے مجمعے سے خطاب کریں گے۔ اِس خبر کے بعد متحدہ اپوزیشن بھی
اُسی روز، اُسی جگہ جلسے کا پروگرام تشکیل دے رہی ہے۔ ایسی صورت میں تصادم
اظہرمن الشمس۔شاید حکمرانوں کی مرضی اور منشا ہی یہی ہو کہ عدم اعتماد پر
گنتی کو ہر صورت میں روکا جائے کیونکہ اُن کے نزدیک تحریکِ عدم اعتماد سے
بچنے کی یہی واحد صورت ہے، ملک وقوم کی کسے پرواہ۔
دراصل شیخ رشید کے ’’بلغمی مزاج‘‘ کو آمریت ہی راس ہے اور وزیرِاعظم کی سوچ
بھی ’’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘۔ 2014ء کے دھرنے میں وہ اِس کا عملی
مظاہرہ بھی کر چکے جب اُنہوں نے انارکی پھیلانے کے لیے سول نافرمانی کا
اعلان کیا، یوٹیلٹی بلز سرِعام جلائے، بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ہُنڈی
کے ذریعے رقوم بھیجنے کو کہا، تھانے پر حملہ کرکے اپنے کارکن چھڑوائے، پی
ٹی وی پر قبضہ کیا، پارلیمنٹ کے گیٹ توڑے اور وزیرِاعظم ہاؤس پر قبضہ کرنے
کی کوشش کی۔ اُنہیں ملک وقوم کی تب پرواہ تھی نہ اب ہے لیکن تب میاں
نوازشریف کی حکمت سے بچت ہوگئی۔ اب صورتِ حال یکسر مختلف، پی ڈی ایم کی
قیادت مولانا فضل الرحمٰن کے پاس ہے اور نوجوان بلاول بھٹو وزیرِاعظم کے
گورنرہاؤس سندھ میں خطاب کے دوران ’’بندوق کی نشست‘‘ پرکہہ چکا ’’ہم نے
کبھی بندوق استعمال نہیں کی مگر استعمال کرنا جانتے ہیں۔جو سمجھتے ہیں ہم
ڈر جائیں گے، جان لیں ہمارے اندر شہیدوں کا خون ہے‘‘۔
ملک کو انارکی کے حوالے کرنے کی تگ ودَو میں شیخ رشید اکیلا نہیں بلکہ فروغ
نسیم،بابر اعوان، فوادچودھری اور شہبازگِل بھی اُس کی بھرپور معاونت کر رہے
ہیں۔ شہبازگِل بلدیاتی کونسلر کا انتخاب بھی نہیں جیت سکتا۔ اُسے یہ بھی
علم ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو اُسے امریکہ لوٹنا پڑے گا۔
فروغ نسیم کو خود اُس کی جماعت ایم کیو ایم قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ڈال
ڈال پھدکنے والے بابراعوان اور فواد چودھری کو اب کوئی سیاسی جماعت قبول
کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اِسی لیے یہ سبھی مل کر غیرآئینی اقدام کی تگ ودَو
میں ہیں۔اِنہی لوگوں نے مل کر وزیرِاعظم کو مشورہ دیا ہے کہ عدمِ اعتماد پر
ووٹنگ والے دن تحریکِ انصاف کا صرف ایک رکن پارلیمنٹ میں جائے اور اگر پھر
بھی تحریکِ انصاف کے کچھ ارکان پارلیمنٹ میں داخل ہو جائیں تو سپیکر قومی
اسمبلی یہ کہتے ہوئے اُنہیں ووٹ ڈالنے سے منع کر دے کہ اُن پر آئین کا
آرٹیکل 63-A لاگو ہوچکا، جس کے تحت وہ قومی اسمبلی کی سیٹ سے نااہل ہو چکے۔
سپیکر کا یہ عمل مکمل طور پر غیرآئینی ہوگا کیونکہ آرٹیکل 63-A میں واضح
طور پر لکھا ہے کہ صرف فلورکراسنگ پر عمل درآمد کی صورت میں ہی نااہلی ہو
سکتی ہے اور اِس کا طریقۂ کار بھی درج کر دیا گیا ہے۔ آئین کے تحت کسی بھی
پارلیمنٹیرین کو نہ تو پارلیمنٹ میں آنے سے روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی ووٹ
ڈالنے سے۔حقیقت یہی کہ نہ تو وزیرِاعظم اور حواریوں کو آئین وقانون کی
پرواہ ہے اور نہ ہی سپیکر قومی اسمبلی کو۔ چھوٹی سی مثال یہ کہ الیکشن
کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کے ضابطوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے وزیرِاعظم کو
دیر میں جلسہ کرنے سے روکالیکن وہ 11 مارچ کو دیر گئے بھی اور وہاں جلسے سے
خطاب بھی کیا۔ خطاب کے دوران اُنہوں نے اپنی چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر
جاوید باجوہ صاحب سے فون پر گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’باجوہ صاحب
کہتے ہیں کہ میں فضل الرحمٰن کو ڈیزل نہ کہا کروں۔ میں نے جواب دیا کہ قوم
اُسے ڈیزل کے نام سے ہی جانتی ہے‘‘۔ وزیرِاعظم نے اِس بیان کے بعد متعدد
بار مولانا کو ڈیزل کہہ کر پُکارا۔ سمجھ سے بالاتر کہ آخر وزیرِاعظم چاہتے
کیا ہیں۔ ایسے بیانات دے کر وہ اپوزیشن کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے، خود اپنے
لیے ہی گڑھا کھود رہے ہیں۔ اِسی خطاب میں وزیرِاعظم نے یہ بھی کہا کہ
نیوٹرل تو صرف جانور ہوتے ہیں جنہیں اچھائی برائی کی پہچان نہیں ہوتی۔ یہ
بیان وہ اُس وقت دے رہے ہیں جب عام تاثر یہی ہے کہ فوج نیوٹرل ہو چکی۔ ہمیں
اپنی فوج سے والہانہ عقیدت ہے اِس لیے ہم وزیرِاعظم کی اِس بَدتہذیبی کی
مزید تشریح نہیں کریں گے لیکن اُن سے یہ ضرور پوچھیں گے کہ وہ ہمیشہ بڑے
فخر سے کہتے رہے کہ کرکٹ میں نیوٹرل امپائرز لانے کا سہرا اُن کے سَر ہے۔
کیا نیوٹرل امپائرز بھی جانور ہی ہیں؟۔
حکمرانوں کی جانب سے10 مارچ کو انارکی پھیلانے کی ایک کوشش تب ہوئی جب
پارلیمنٹ کا تقدس مجروح کرتے ہوئے پولیس نے پارلیمنٹ لاجز میں گھُس کر
جمعیت علمائے اسلام کے 2 ارکانِ اسمبلی سمیت 10 افراد کو گرفتار کر لیا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے بھی طیش میں آکر اپنے کارکنوں کو فوری طور پر اسلام
آباد پہنچنے کا حکم دیا اور ساتھ ہے یہ بھی کہہ دیا کہ جو کارکُن اسلام
آباد نہ پہنچ سکیں وہ اپنے اپنے علاقوں میں سڑکیں بند کر دیں۔ وہ تو خیریت
گزری کہ گرفتار شدہ افراد اُسی رات رہا کر دیئے گئے اور مولانا نے اپنی کال
واپس لے لی وگرنہ حکمرانوں نے تو انارکی پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی
تھی۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک جمع ہوتے ہی وزیرِاعظم کا
رویہ یک لخت تبدیل ہوگیا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ایک دفعہ پھر کنٹینر پر
چڑھ چکے ہوں کیونکہ اُن کی زبان وہی غیرپارلیمانی الفاظ اُگل رہی تھی جس نے
قوم کا مزاج پہلے ہی بگاڑ دیا ہے۔ گورنر ہاؤس کراچی میں خطاب کرتے ہوئے
اُنہوں نے کہا ’’آصف زرداری خُدا کے واسطے اپنے بیٹے کو اُردو تو سکھا دو۔
اُسے یہ بھی نہیں پتہ کہ لڑکی آتاہے کہ آتی ہے‘‘۔ بجا ارشاد لیکن بقول
مرتضیٰ سولنگی ’’عمران خاں 70 سال میں یہ نہیں سیکھ سکا کہ ووٹ ہوتا ہے یا
ہوتی ہے‘‘۔ اپنے اِسی خطاب میں وزیرِاعظم نے فرمایا ’’آصف زرداری میری
بندوق کی نشست پر ہے‘‘۔ بصد ادب بندوق کی ’’شست‘‘ ہوتی ہے ’’نشست‘‘ نہیں۔
جس روحانیت کے وہ پرچارک ہیں اُسے بار بار ’’رحونیت‘‘ بولتے رہے۔ حلف
برداری پر لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ درست تلفظ کے ساتھ نہ بول سکے۔ اِس کے
باوجودبھی ہم اِسے طعنہ نہیں سمجھتے کیونکہ قائدِاعظمؒ نے ایک دفعہ مولوی
عبدالحق سے کہا ’’میری اُردو تو تانگے والے کی اُردو ہے‘‘۔ گورنر ہاؤس میں
وزیرِاعظم کے خطاب کے بعد ہم نے مولانا فضل الرحمٰن اور میاں شہباز شریف کے
چہروں پر بھی اشتعال دیکھا۔ اُن کی گفتگو اور لہجہ بھی انتہائی تلخ ہو چکا
کیونکہ عمران خاں نے انتہائی تضحیک آمیز انداز میں مولانا فضل الرحمٰن کو
’’فضلو ڈیزل‘‘ اور میاں شہباز شریف کو ’’بوٹ پالشیا‘‘ کہا۔ اگر عمران خاں
واقعی ملک وقوم کی بہتری چاہتے ہیں تو پھر ایسے اشتعال انگیز بیانات سے
گریز ہی بہتر جو انارکی کا سبب بنیں کیونکہ اِسی میں نہ صرف خود عمران خاں
بلکہ ملک وقوم کا بھی بھلا ہے۔
|