موسم بہار کی آمد آمد ہے مگرہر گزرتے ہوئے لمحات مملکت
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی خزاں کا احوال بیان کرتے
دیکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تمام اپوزیشن
جماعتوں کی جانب سے تحریک عدم استحکام کی للکار شبانہ روز سننے کو مل رہی
ہے۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام قائدین کی باہمی و دیگر
اپوزیشن جماعتوں اور حکومتی اتحادیوں کے لیڈران سے ملاقاتوں نے سیاسی ماحول
میں گرمی پیدا کردی ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اپنی
اتحادی جماعتوں کے قائدین کیساتھ ملاقاتوں نے ملک میں جاری سیاسی قیاس
آرائیوں پر حقیقت کی مہر لگا دی ہے۔ گذشتہ چند دنوں سے اسپیکر قومی اسمبلی
اسد قیصر، وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کیخلاف تحریک
عدم اعتماد کی بازگشت ہر طرف سنائی دے رہی ہے۔ آخری خبریں موصول ہونے تک
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کے ڈرافٹ کو حتمی شکل دی
جاچکی ہے۔ شنید یہی کی جارہی ہے کہ آئندہ چند روز میں پارلیمنٹ میں عدم
اعتماد کی تحاریک پیش کردی جائیں گی۔ ان تحاریک کے نتائج کیا نکلیں گے یہ
تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ان تحاریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی
کی صورت میں پاکستان کے مستقبل کے سیاسی منظرنامے پر دوررس نتائج دیکھنے کو
ملیں گے۔ بہرحال یہ بات انتہائی حیران کن ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے سینیٹ
چیرمین کی بجائے وزیراعظم اور اسپیکر قومی اسمبلی کیخلاف عدم اعتماد کے
آپشن کو کیوں چنا؟جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو سینیٹ میں
واضح عددی برتری حاصل ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی
تحریک سب سے پہلے سینیٹ چیرمین کیخلاف پیش کی جاتی تاکہ ٹیسٹ کیس کے طور پر
سینیٹ چیرمین کی تبدیلی کی صورت میں اپوزیشن کے لئے حکومت کے خلاف اپنی
کامیابی کی نئے راہیں تلاش کرنے میں آسانی پیدا ہوجاتی۔ کیونکہ ماضی قریب
کی تاریخ گواہ ہے کہ سینٹ میں اپوزیشن کو واضح عددی برتری ہونے کے باوجود
ہر اہم موقع پر بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔چاہے وہ سینٹ چیرمین کا
انتخاب ہو یاسینٹ چیرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک یا پھر حکومت کی جانب
سے سینٹ میں پیش کئے گئے بل۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت گرانے کے
لیے ممبران قومی اسمبلی کے اراکین کی واضح اکثریت ہونے کے دعوے سننے کو مل
رہے ہیں۔اس تمام سیاسی صورتحال میں مسلم لیگ ق کے قد کاٹھ میں روز بروز
اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ گو مسلم لیگ ق حکومت کی اتحادی جماعت ہے لیکن اپوزیشن
جماعتوں کے سربراہان کی ق لیگ کے قائدین سے ملاقاتوں نے حکومتی صفوں میں
ہلچل مچا دی ہے۔ عمران خان کا قول ''گبھرانا نہیں ہے'' خود انہی پر فٹ آتا
ہوا دیکھائی دے رہا ہے کیونکہ (چوہدری برادران جنکو وہ پنجاب کے سب سے بڑے
ڈاکو کہا کرتے تھے) مگر عمران خان صاحب کو انہی چوہدریوں کے در پر جاکر
چوہدری شجاعت کی عیادت کے لئے جانا پڑاورنہ تاریخ گواہ ہے کہ عمران خان
صاحب نے تو اپنے رفیق خاص نعیم الحق کے جنازہ میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔
بہرحال اقتدار تک رسائی اور اقتدار کو بچانے کے لئے جسکا جتنا بس چلتا ہے
وہ اپنے تئیں تگ و دو ضرور کرتا ہے۔ زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے
کرنے والے شہباز شریف انہی زرداری صاحب سے بغل گیر ہوتے دکھائی دئیے۔ گلی
گلی میں شور ہے نواز شریف چور ہے کی باتیں کرنے والے زرداری بھی نواز شریف
کے بھائی، بیٹی اور بھتیجے سے ملاقاتیں کرتے دکھائی دئیے۔ راقم حکومت وقت
کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا حامی نہ ہے، باوجود اسکے یہ حکومت کس طرح وجود
میں آئی اس پر مزید بات کرنے کی اب گنجائش موجود نہیں ہے، بہرحال اس حکومت
کو پورے پانچ سال ملنے چاہئے کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آج تک کسی
حکمران کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی جسکی بہت سی وجوہات ہیں۔
بالفرض عدم اعتماد تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو عمران خان کو سیاسی شہید بننے
کا بہترین موقع فراہم ہوجائے گا، تین سال سے زائد طرز حکومت، ملکی معیشت،
مملکت کی داخلی و خارجی صورتحال اور عوام الناس کی حالت زار کسی سے ڈھکی
چھپی نہیں ہے اور عمران خان صاحب تو قوم سے ٹیلفونک رابطہ کے دوران سب کو
خبردار کرچکے ہیں کہ اگر انکو اقتدار سے ہٹایا گیا تو وہ بہت خطرناک ثابت
ہونگے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن اک مرتبہ پھرزرداری
کی پیپلز پارٹی کے ہاتھوں میں کھیلتی ہوئی دیکھائی دے رہی ہے جبکہ محترمہ
بے نظیر بھٹو کی وفات کے بعد نواز شریف ججز بحالی تحریک اور دیگر کئی مواقع
پر زرداری کی پارٹی سے کئی مرتبہ دھوکہ کھاچکے ہیں، ابھی کل ہی کی بات ہے
جب پیپلز پارٹی نے سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کی سیٹ حاصل کرنے کے لئے پی ڈی
ایم کی کمر میں خنجر گھونپ دیا تھا۔ اس مرتبہ شہباز شریف فرنٹ سیٹ پر
کھیلتے ہوئے دیکھائی تو دے رہے ہیں مگر امید یہی ہے کہ پیپلز پارٹی اک
مرتبہ پھر دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو دھوکہ دے گی اور عین وقت پر دیگر
اپوزیشن جماعتوں سے کنی کترا جائے گی۔ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ن کی سب
سے متحرک رہنما مریم نواز کی خاموشی اور عملی سیاست سے ظاہری طور پر کنارہ
کشی بھی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ بہرحال اپوزیشن کی نیت شفافیت پر
مبنی تصور تب ہوگی جب یہ جماعتیں اسپیکر اور وزیراعظم کی بجائے سینٹ چیرمین
کے خلاف تحریک لائیں ورنہ یہ سب ڈرامہ بازی تصور ہوگا۔ کیونکہ سینٹ میں
حقیقی برتری ہونے کے باوجود اپوزیشن جماعتیں سینٹ میں ہمیشہ ہار جاتی
ہیں۔لہذ ا اپوزیشن جماعتوں کا وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد تحریک لانے سے
پہلے اپنی صفوں میں چھپے ہوئے اراکین کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کرنا
ہوگا جوہر موقع پر پارلیمنٹ میں اپنی اپنی جماعتوں کو دھوکہ دیکر حکومت وقت
کی بالواسطہ حمایت کردیتے ہیں۔
|