اسقبالِ رمضان المبارک - وقت پر کام کی منصوبہ بندی

یہ بات طے ہے کہ جو موقع.......جو دن......جو تہوار......جتنی زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے,اُسی قدر زیادہ اس کے استقبال کی تیاری کی جاتی ہے.مثلاً شادی بیاہ, عید یا دوسرے خوشی کےمواقع. چناچہ رمضان کے استقبال کے حوالے سے بھی یہ حقیقت بھی ذہین نشین کر لینی جاہیئے کہ جب تک ہم رمضان کی اہمیت و فضیلت اور اس کی فوائد و ثمرات کا شعوری طور پر ادراک اور احساس نہ کریں گے,اس وقت تک ہم نہ اس کا استقبال اور نہ اس کے استقبال کی تیاری اس کے شایانِ شان کر پائیں گے,اور نہ ہی رمضان المبارک سے اس طرح مستفید ہو سکیں گے جیسا کہ مستفید ہونے کا حق ہے.کیونکہ بے شک یہ رمضان کی اہمیت و فضیلت ہی کا احساسِ عظیم تھا کہ ہمارے پیارے رسول حضرت محمد رمضان المبارک سے پہلے شبعان المعظم ہی میں, نہ صرف خود اس کے استقبال کی تیاریوں میں لگ جاتے,بلکہ صحابہ کرام کے اندر بھی اس کا جوش اور محبت بیدار کرنے کیلئے یوں خوشخبری سُناتے:
"تمہارے پاس رمضان جیسا بابرکت مہینہ آنے والا ہے جس میں اللہ تعالیٰ تمہیں (اپنی رحمتوں سے)ڈھانپ لیتے ہیں,گناہ معاف فرماتے ہیں, دُعائیں قبول فرماتے ہیں, وہ(اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کے لئے)تمہاری رغبت, چاہت اور جوش و خروش کو دیکھ کر فرشتوں پر فخر کرتے ہیں. پس تم بھی اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کو بھلائی دکھلاؤ. شک وہ بڑا ہی بدبخت ہے جو رمضان میں اللہ کی رحمت سے محروم رہ گیا".(مجمع الزوائد)

یاد رہے کہ خوشخبری سننے والوں کے اندر خوشی اور سرور پیدا کرنے کا نام ہے اور رمضان جو نیکیوں کا موسم بہار ہے, اس کے قریب آنے کی خوش خبری سے بڑھ کر اور کون سی خوشخبری ہو سکتی ہے؟ چناچہ آپ اور آپ کے صحابہ ایسی ہی سچی خوشی سے سرشار رمضان کے منتظر ہوتے. ابوداؤد کی ایک روایت میں ہے کہ" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے مہینوں کی بہ نسبت شعبان کی زیادہ حفاظت کرتے تھے" یعنی آپ رمضان کی تاریخیں یاد رکھنے میں زیادہ اہتمام فر ماتے,بلکہ رمضان کی آمد کی تیاری میں شبعان ہی میں کثرت سے روزے رکھتے,جیسے کہ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ"میں نے نہیں دیکھا کہ آپ کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں".(بخاری و مسلم) تاہم آپ نے اپنی امت کوممانعت فرمائی کہ" جب نصف شعبان گزر جائے تو روزہ نہ رکھو" (ترمزی) " ہاں مگر وہ شخص جو پہلے ہی سے ان (میں سے بعض دنوں)کا روزہ رکھتا ہو" (بخاری , مسلم) تا کہ رمضان کے فرض روزوں کیلئے ان کی قوت و توانائی بحال رہے)

گویا پورےانہماک, جوش و جزبے اور ولولے و بے تابی کے ساتھ رمضان المبارک کا انتظار اور استقبال سنتِ نبوی ہے.لٰہزا شعبان المعظم میں , اسی سنتِ نبوی کی تجدید ہمارا مقصدِ اولین ہے اور فلاح و کامیابی انہی کا مقدر بنتی ہے, جو اس مہینے کی ویسے ہی قدر کرتے ہیں جیسا کہ اس کا حق ہے. دوسرے لفظوں میں جو اسوۂ رسول کے مبارک نقشِ قدم پر چل کر اس ماہِ عظیم کی رحمتوں و برکتوں سے اپنی اور اپنے پیاروں کی جھولیاں بھر لینے کے لیے پہلے ہی سے منصوبہ بندی کرتے ہوئے کمر بستہ ہو جاتے ہیں, تاکہ اس عظمت و بزرگی والے مہینے کی قیمتی گھڑیوں کی ایک ساعت بھی ضائع نہ جائے. چنانچہ ایسی ہی منصوبہ بندی کی کوشش کے ضمن میں کچھ راہنما نکات دئیے جا رہے ہیں. ورنہ تنافس اور مقابلہ و مسابقت کے لیے جگہ جگہ اور قدم قدم پر میدان سجے ہیں مگر ہدف ایک ہے......بس ایک:
"دوڑو اور دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اس کی جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین جیسی ہے".(الحدید,۲١/٥٧)

"اور(بے شک) رغبت کرنے والوں کو اسی (جنت) کی رغبت کرنی چاہیے".(المطننین,۲٦/۸٣)

یاد رکھیں کہ ہمارا کام تو صرف نصب العین(ہدف) کو ہمہ وقت ذہن میں رکھتے ہوئے پورے اخلاص , فکری مندی اور سعی و جہد کیساتھ صحیح سمت کی طرف قدم بڑھا دینا ہے, ہم اسی کے مکّلف ہیں.اب آگے رستے سجھانا, سبیلیں پیدا کرنا اور مدد واعانت فراہم کرنا اللہ کے ذمہ ہے.

" بے شک راستہ بتانا ہمارا کام ہے".( الیل ) اور "جو لوگ بھی ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے"(العنکبوت) اس خوشخبری کے ساتھ کہ " تو جس نے( اللہ کی راہ) میں مال دیا اور (اللہ کی نافرمانی سے) پرہیز کیا, اُس کو آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے".

لیکن اس سلسلے میں اہم ترین اور ضروری بات یہ ہے کہ ہمارے مقصد کے حصول کے لیے جتنی نیک نیتی , خیر طلبی اور اسکے مطابق سعی وجہد ہوگی, اُسی تناسب سے اللہ کی مدد"توفیق اور ہدایت ہمارے شامل حال رہے گی. کیونکہ لاحول ولا قوتہ الا باللہ۔

 

Tanveer Nadeem
About the Author: Tanveer Nadeem Read More Articles by Tanveer Nadeem: 3 Articles with 2450 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.