لگتا ہے کہ میرا کالم جب شائع ہو گا ، سیاسی صورت حال
مزید بدل چکی ہو گی کیونکہ اسے ہر صورت بدلنا ہے۔ دو دن پہلے تک عمران خان
کا بیانیہ بڑا جرات مندانہ تھا جس سے عمران خان کی مقبولیت میں یکایک بہت
اضافہ ہوا۔ وہ لوگ جو عمران کے پرانے ووٹر تھے اور جواس کی حکومتی کارکردگی
اوراقدامات سے مایوس تھے ، عمران کے ڈٹے رہنے سے خو ش ہوئے اور ایک بار پھر
عمران کی حمایت میں کھڑے ہو گئے تھے۔ سیاست ایک کھیل ہے اور فتح اور شکست
اس کا حصہ ہے۔لگتا تھا عمران نے دلیری سے شکست کو قبول کرکے لوگوں کے دل
موہ لئے ہیں۔ مگر آخری وقت میں جس انداز سے آئین کا استعمال کیا، وہ کچھ
لوگوں کو بھایا نہیں ، یہ انداز ٹھیک ہے یا غلط یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔لیکن
عمران اگر حکومت چھوڑ دیتا تو شاید اگلے الیکشن میں بہت بڑی اکثریت سے
کامیاب ہوتا۔ اب وقتی حاصل ہونے والی کامیابی نے اس کے اقتدار کو وقتی دوام
تو دیا ہے مگر عمران کے دلیرانہ تاثر کو یقیناً متاثر کیا ہے۔اگلا الیکشن
جیتنے کے لئے عمران کو بہت محنت کی ضرورت ہو گی مگر یہ کام آسان نہیں
ہوگا۔سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے کا نوٹس لیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہاں جلد
کوئی فیصلہ ہو جائے جو شاید ممکن نہیں کیونکہ یہ معاملات اس قدر گھمیر ہیں
کہ جلد فیصلہ شاید مزید مشکلات کا باعث ہو ۔جو فیصلہ آئے گا وہ بدلی ہوئی
صورت کو واپس نہیں لا سکے گا۔ جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ اب مستقبل میں بہتری
کی صورت ڈھونڈھنی ہو گی۔ چلے ہوئے تیر کبھی واپس نہیں آتے۔سیاسی جماعتیں کی
آپس میں انتہا کی کشیدگی اور ان کا ایک دوسرے کے ساتھ رویہ پوری طرح انارکی
کو دعوت دے رہے ہیں۔
سیاست میں یہ جو بڑی تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے اس تبدیلی کے کئی محرکات
ہیں۔کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کی ذمہ دارعمران کی حکومت ہے اور کچھ ایسی چیزیں
ہیں کہ جن کی ذمہ داری براہ راست عوام پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت کے زوال میں
حکومتی لوگوں کا ٍ اپنابہت زیادہ حصہ ہے۔ میں ہمیشہ مشہور چینی فلسفی تاؤ
کا قول دھراتا ہوں کہ نرمی اور لچک زندگی کی نشانی ہے جب کہ بے لچک اور سخت
ہوناموت کی۔حکومتی افراد بہت بے لچک تھے، اپنے موقف میں انتہائی سخت۔ وہ
جتنی باتیں کرتے تھے اس کی عملی صورت کبھی نظر نہیں آئی، جو ایک بہت بڑی
خامی تھی۔عمل کے بغیر ہمت اور استقلال کا سارا فلسفہ بے معنیٰ ہوتا ہے۔آدھی
کابینہ ان لوگوں پر مشتمل تھی کہ جو خالصتاً امپورٹڈ تھے اور یہ امپورٹڈ
لوگ مقامی منتخب لوگوں سے زیادہ با اثر تھے۔۔ لوکل منتخب لوگوں کو زمینی
حقائق کا علم ہوتا ہے،انہیں مستقبل میں اپنے حلقے میں دوبارہ جانا اور
لوگوں کو جوابدہ ہونا ہوتا ہے۔ وہ ہر حکومتی پالیسی کو اسی تناظر میں
دیکھتے اور اسی کے مطابق وزیر اعظم کو مشورہ دیتے ہیں۔ جب کہ وقتی طور پر
آنے والے غیر منتخب اور دوہری شخصیت والے غیر ملکی لوگ عام آدمی کے بارے
میں سوچتے ہی نہیں اور اگر سوچیں بھی تو ان کا نقطہ نظر عوامی نہیں ہوتا۔
ان کی سوچ مغرب سے مستعار لی گئی ہوتی ہے وہ باتیں ان ملکوں کے حساب سے
کرتے ہیں جنہیں ہم ویلفئر سٹیٹس کہتے ہیں، وہاں کی سوچ اور رہن سہن ، ہماری
سوچ اور ہمارے رہن سہن سے کسی طرح بھی میچ نہیں کرتا۔ایسے لوگوں کو منتخب
ارکان پر فوقیت دینا حکومت کی بہت بڑی غلطی تھی۔کرپشن کی بہت پکار تھی مگر
کبھی کسی کرپٹ کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ ملزم جب تک مجرم نہ بن جائے
اس کی تشہیر بے معنیٰ ہوتی ہے۔لوگوں کی خواہش تھی کہ اگر کوئی کرپٹ ہے تو
اس کا پیٹ پھاڑ کر عوام کی رقم وصول کرنا حکومت کا فرض تھا مگر اس سلسلے
میں حکومت مکمل ناکام رہی۔
عوام کا قصور یہ ہے کہ ان کا اپنے نمائندے منتخب کرنے کا کوئی معیار نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ منتخب لوگوں میں جھکنے اور بکنے والے عام ملتے ہیں اور انہیں
اپنے ایسے افعال پر کوئی شرم بھی محسوس نہیں ہوتی۔ الیکٹریبل کے نام پر ہر
دفعہ وہی چالیس پچاس لوگ منتخب ہو کر آ جاتے ہیں۔ یہی لوگ اس ملک میں اصل
خرابی کا باعث ہیں۔ شاید اب لوگوں کو شعور آ جائے اور اس مرتبہ لوگ ایسے بے
ضمیر لوگوں کو انجام تک پہنچا کر ہی دم لیں۔ مجھے امید ہے اگلا الیکشن ایسے
لوگوں کے لئے بہت کڑا ہو گا اور انہیں اپنے حلقوں میں مشکلات کا سامنا ہو
گا۔آج کی صورت حال میں نئے الیکشن کے سوا کوئی دوسری صورت نہیں۔حکومت اور
حکومت مخالف ساری جماعتوں میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ ان میں کچھ اگر وقتی
طور پر یکجا ہیں تو حب علی میں نہیں فقط بعض معاویہ میں اکٹھی ہیں۔ حکومت
مخالف جماعتوں کا واحد مقصد عمران کو اس کے عہدے سے ہٹانا تھا۔ وقتی
(Interim)حکومت کی تشکیل ہوتے ہی ان کا مقصد حل ہو جائے گا۔ وقتی حکومت کے
عہدیداروں کا چناؤ میں اب شاید عمران حکومت کسی حد تک پابند ہو کیونکہ لگتا
ہے کہ شاید سپریم کورٹ کی مداخلت موجودہ حکومت کا یہ حق محدود کر
دے۔اپوزیشن کو سپریم کورٹ سے کچھ زیادہ ہی امیدیں ہیں۔ مجھے نہیں سمجھ آتا
کہ جو ہو چکا اسے کیسے واپس لیا جا سکتا ہے۔سپریم کورٹ موجودہ حالات میں
آئندہ کے لئے صاف اور شفاف الیکشن کے علاوہ شاید ان جماعتوں کی کوئی مدد نہ
کر سکے۔ جانے یہ جماعتیں جو بوتی ہیں اسے خود کاٹنے کی بجائے سپریم کورٹ پر
نظریں کیوں جما لیتی ہیں۔میں حیران ہوتا ہوں کہ برطانیہ کا کوئی لکھا ہوا
آئین نہیں، مگر وہ لوگ اپنی روایات کے اس قدر پابند ہیں کہ وہ اپنے زبانی
آئین کو پوری طرح مانتے اور ہمیشہ اس کے پابند ہوتے ہیں۔وہاں کسی بات کی دو
دو اور تین تین تشریح نہیں ہوتیں۔ ایک ہمارا آئین ہے کہ بیچارہ موم کی ناک
ہے ۔ اس کے ہر آرٹیکل کو جو چاہتا ہے اپنی مرضی سے اپنے مطابق ڈھال لیتا
ہے۔ ہمارا اصل نقص ہمارا آئین نہیں ،ہمارے سیاستدان اور ان کی غلط نیتیں
ہیں۔ان کی سوچ مثبت نہیں ہمیشہ منفی ہوتی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر سیاستدانوں
نے اب بھی اپنی روش نہ بدلی تو اس ساری مشکل کا ایک ہی حل ہے کہ ملک ایک
بار پھر مارشل لا کی آغوش میں ہوگا۔ بوٹوں کی آہٹ تو بہت سے حساس لوگ محسوس
کر رہے ہیں۔
|