سیدنا علی رضی اللہ عنہ علمبردار اسلام

یہاں ہمارا موضوع شیر خدا حیدر کرار سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کی شجاعت و بہادری نہیں ہے بلکہ تاریخ میں سے ان واقعات کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش ہے جن میں آپ ؓ علمبردار رہے اور دشمن کا تن تنہا مقابلہ کیا۔

جنگوں میں علم وہ اُٹھاتا ہے جو بہادروں کا بہادر اور قوم کی آنکھ کا تارا ہو۔ہم جب سیدنا علی ؓ کی سیرت پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو آپ ؓقلم اُٹھانے کے ساتھ ساتھ عَلَم اُٹھائے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔

حق و باطل کا پہلا معرکہ غزوہ بدر میں حضرت خاتم المعصومین ﷺ اپنے تین سو تیرہ جانبازوں کو لے کر میدان بدر میں آئے،عرب دستور کے مطابق عام لڑائی سے پہلے اکیلے اکیلے لڑائی ہوتی اور ہر فریق اپنے اپنے بہاد۷۷روں کو میدان میں لاتا۔قریش کے تین جوان میدان میں نکلے تو حضور اکرم ﷺ نے مقابلے کے لیے اپنے تین جانبازوں کو مقابلے کا حکم دیا،ان میں سیدنا حمزہ ؓ اورسیدنا عبیدہؓ کے ساتھ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے۔

حضور اکرم ﷺ کا انتخاب کیسا تھا کہ آپ کے تینوں جانبازوں نے تنہاہی اپنے اپنے مقابل کو جہنم واصل کردیا،پھر عام مقابلہ ہوا۔آنحضرت ﷺ نے بدر میں عَلَم سیدنا علی ؓ کو عطا کیا۔خاتم المعصومین ﷺ کے قلمبردار سیدنا علیؓ بدر میں آپ کے علمبردار بھی تھے۔

جنگ اُحد میں عَلَم حضرت مصعب بن عمیر ؓ کے ہاتھ میں آیا،آپؓ جانبازوں کی طرح لڑتے ہوئے شہید ہوئے تو سیدنا علیؓ نے وہ گرتا ہوا عَلَم خود اُٹھالیا اور اسی عَلَم کو لے کر مشرکین کے علمبردار پر ٹوٹ پڑے اور اس کا قصہ تمام کر دیا اس دن شیر خدا علی ؓ کے مقابل ٹھہرنے والا کوئی نہ تھا۔ہاتف نے آواز لگائی۔”لافتیٰ اِلّا علی،لا سیف اِلّا ذوالفقار“علی کے جوڑ کا کوئی جوان نہیں اور ذوالفقار جیسی کوئی تلوار نہیں۔ روایت میں آتا ہے کہ یہ جملہ سب سے پہلے اسی دن سنا گیا۔

غزوہ احد کے بعد بنو نضیر کو ان کی بد عہدی کے باعث مدینہ سے جلا وطن کیا گیا،سیدنا علی ؓ اس میں بھی پیش پیش تھے اور عَلَم ان ہی کے ہاتھ میں تھا۔

5ہجری میں مشرکین مکہ ہرطرف کے قبائل کو اکٹھے کر کے اپنی مجموعی قوت سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے،آپ ﷺ نے مدینہ منورہ کے گردخندق کھود کر حفاظت کا بندو بست کیا۔مشرکین کبھی کبھی خندق میں گھس گھس کر حملہ کرتے،ایک دفعہ سواروں کے ایک دستے نے حملہ کیا، دستے کے سردار عمروبن عبدِوُدّ عرب کا مشہور معمرپہلوان جنگجو تھا،اس نے عرب دستور کے مطابق تنہا مقابلے کی دعوت دی،سیدنا علی ؓ حضور اکرم ﷺ کی اجازت سے مقابلے کے لیے نکلے،عمروبن عبدِوُدّ نے متکبرانہ انداز میں کیا ”میں تمہیں قتل نہیں کرنا چاہتا“ شیر خدا نے جواب دیا کہ ”میں تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں“وہ برہم ہوکر گھوڑے سے کود پڑا،اور اپنے تمام داؤ پیش آزمانے لگا،تھوڑی دیر شجاعانہ مقابلے کے بعد سیدنا علی ؓ نے عمرو بن عبدِوُدّ کو تلوار کے ایک ہی وار سے جہنم واصل کردیا،اس کا قتل ہونا تھا کہ باقی سوار بھاگ کھڑے ہوئے۔

7ہجری غزوہ خیبر کے موقع پر سیدنا علی ؓ آشوب چشم میں مبتلا ہونے کے باوجود نبی کریم ﷺ سے پیچھے نہ رہ سکے،اسی بیماری میں آپ ﷺ کے ساتھ آشامل ہوئے۔خیبر میں حضور ﷺ ایک ماہ کے قریب رہے،یہاں یہودیوں کے بڑے مضبوط قلعے تھے،جن کا مفتوح ہونا آسان نہ تھا،ان قلعوں میں ایک بڑا مضبوط قلع حصن القموص تھا جوبیس دن کے محاصرے کے باوجود فتح نہیں ہورہا تھا۔ایک رات حضور ﷺ نے فرمایا: صبح میں جھنڈا اس شخص کو دون گا جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں اور اسے فتح نصیب ہوگی۔صبح ہوئی تو ہر شخص متمنی تھا کہ کاش اس فخر و شرف کا تاج اس سر پر سجے،لیکن یہ دولت گرانمایہ حیدرکرار کے حصہ میں آئی،آپ ﷺ نے سیدنا علی ؓ کا نام لیا۔اس وقت سیدنا علی ؓ آشوب چشم میں مبتلا تھے،نبی کریم ﷺ نے ان کو بلا کر اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں پر لگایاجس سے
آنکھیں ایسے شفایاب ہوئیں کہ جیسے کوئی بیماری تھی ہی نہیں،اس کے بعد عَلَم سیدنا علی ؓکو مرحمت فرمایا۔سیدنا علی ؓ کے مقابلے میں قلعہ قموص کا یہودی سردار مرحب بڑے متکبرانہ انداز میں رجزیہ اشعار پڑھتا ہوا نکلا”خیبر مجھے جاتنا ہے میں مرحب ہوں“آپ ؓاس متکبرانہ رجز کا جواب دیتے ہوئے آگے بڑھے ”میں علی ہوں میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے“اور جھپٹ کر ایک ہی وار میں مرحب کا قصہ تمام کردیا، اس کے بعد حیدر کرار ؓ نے بڑھ کر حملہ کیا اور حیرت انگیز شجاعت کے ساتھ اس قلعہ فتح کرلیا۔

8ہجری میں فتح مکہ کے دن ایک عَلَم سیدنا سعد بن عبادہ ؓ اور ایک سیدنا زبیر بن عوام ؓ کے پاس تھا۔حضرت سعد جوش میں کہہ رہے تھے:”آج خونریزی کا دن ہے آج ارض حرم میں جنگ ہوگی“آنحضرت ﷺ کومعلوم ہوا تو فرمایا: ایسا نہ کہو آج تو کعبہ کی عظمت کا دن ہے“اور سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کو حکم ہوا کے سعد بن عبادہ سے علم لے فوج کے ساتھ شہر میں داخل ہوں۔چنانچہ وہ کداء کی جانب مکہ میں داخل ہوئے۔

یہاں ہمارا موضوع شیر خدا حیدر کرار سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کی شجاعت و بہادری نہیں ہے بلکہ تاریخ میں سے ان واقعات کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش ہے جن میں آپ ؓ علمبردار رہے اور دشمن کا تن تنہا مقابلہ کیا۔ عَلَم بردار جھنڈا اُٹھانے والے عام مجاہدین سے ممتاز ہوتے ہیں،آنحضرت ﷺ کے جن صحابہ نے مختلف معروکوں میں جھنڈا اٹھایا اوراکیلے مقابلے میں دشمن پچھاڑا،ان جھنڈا اُٹھانے اور تن تنہا مقابلے میں مخالفین کو گرانے والوں میں جو شہرت اور عظمت سیدنا علی ؓ کے حصہ میں آئی وہ انہی کا نصیب ہے۔ میدان میں باربار لوٹنے والے اور ہر طرف سے ہو کر آنے والے کو کرار کہتے ہیں۔بار بار میدان آنے اور ہر طرف سے دشمن کا مقابلہ کرنے پر آپ ؓ کا لقب حیدر کرار ہے۔سیدنا علی حیدر کرارؓ جس طرح میدان کے کرار اور اکثر غزوات میں علمبردار ہی رہنے کے ساتھ ساتھ حضور ﷺ کے قلمبردار بھی رہے۔

ikramulhaq chauhdryاکرام الحق چوہدری
About the Author: ikramulhaq chauhdryاکرام الحق چوہدری Read More Articles by ikramulhaq chauhdryاکرام الحق چوہدری: 20 Articles with 50747 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.