ملک کی کے سیاسی افق پر بلڈوزر ایک انتخابی کھلونا ہے ۔
بچہ کھلونے سے کھیلتا ہے اور دوسروں کو بھی کھلاتا ہے ۔ اس طرح بہت سارے
بچوں کو کھیل کود میں شامل کرلیتا ہے۔ بچے اس کھیل میں ایسے مصروف ہوجاتے
ہیں کہ وہ پڑھنا لکھنا تو دور کھانا پینا بھی بھول جاتا ہے۔ فی الحال
بلڈوزر بلڈوزر کھیل نے آئی پی ایل کی مقبولیت کو مات دے دی ہے۔ ویسے کھیل
کھیل میں کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کھیل کھلانے والا بچہ خودبھی امتحان فیل
ہوجاتا ہے اور اس کا اپنا کھیل ختم ہوجاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال عدالتِ
عظمیٰ کے اندر سالیسٹر جنرل کے ذریعہ سامنے آئی۔ سپریم کورٹ کے اندر
جہانگیر پوری میں ایم سی ڈی کے بلڈوزر کی کارروائی زیر بحث تھی ۔ اس سماعت
کاایک فائدہ تو یہ ہوا کہ عدالتِ عظمیٰ نے سماعت کو دو ہفتوں کے لئے ٹال کر
اس دوران توڑ پھوڑ پر روک لگا دی لیکن اس سے بڑا فائدہ سالیسٹر جنرل کا بے
ساختہ انکشاف تھا جس نے نادانستہ طور پر بی جے پی کا کھیل بگاڑ دیا۔
عدالت کے اندر سماعت کے دوران عرضی گزاروں نے الزام عائد کیا کہ کارروائی
صرف ایک طبقہ کو نشانہ بنانے کے لئے کی جا رہی ہے۔ معروف وکیل دشینت دوے نے
دہلی پولیس کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ، اس نے ایف آئی آر میں تسلیم
کیا ہے کہ جلوس بلا اجازت نکالا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس کو زیرِ بحث
موضوع سے غیر متعلق قرار دے کر مستر د کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں
ہے۔دوے کا اصرار تھا کہ یہ دونوں باتیں آپس میں وابستہ ہیں۔ان کے مطابق
بغیر اجازت کے جلوس نے فساد برپا کیا مگر پولیس نے ایک خاص طبقہ یعنی
مسلمانوں کو ملزم بنادیا اور اس کے بعد ہی ایم سی ڈی نے کارروائی کی۔ اس
الزام کو آگے بڑھاتے ہوئے معروف وکیل اور سابق وزیر قانون کپل سبل نے اس
کا دائرۂ کار پورے ملک میں پھیلاتے ہوئے کہہ دیا، تجاوزات کا مسئلہ صرف
دہلی کا ہی نہیں ہے بلکہ پورے ملک کا ہے۔ ان میں مسلمانوں کو ہی نشانہ
بنایا جا رہا ہے۔
حکومتِ وقت پر یہ ایک بہت بڑا حملہ تھا ۔ اس کی مدافعت کے لیے سالیسٹر جنرل
کوعدالت بھیجا گیا تھا اس لیے انہوں نے ان اپنا فرضِ منصبی نبھاتے ہوئے ان
الزامات کو خارج کردیا کہ ایک طبقہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔سیاسی جلسوں
میں مبہم دعویٰ چل جاتاہے لیکن عدالت کے اندر مخصوص بات شواہد کے ساتھ پیش
کرنی ہوتی ہے۔ انہوں نے عدالتی روایات کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے فرمایا کہ
مدھیہ پردیش کے کھرگون میں مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کے گھر گرائے گئے
ہیں۔ اس جملہ میں ایک خاص علاقہ کے حوالے سے انہوں نے چونکانے والے اعدادو
شمار پیش کردئیے ۔ ۔ وہ بولے مدھیہ پردیش کے کھرگون میں حکومت کی مہم کے
دوران 88 ہندوؤں اور 28 مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچا۔ دہلی کے
جہانگیر پوری کی بابت بتایا کہ یہ کارروائی صرف تجاوزات کے خلاف تھی۔ ان
لوگوں کو 2021 میں نوٹس جاری کئے گئے تھے۔ اس وقت سماعت بھی ہوئی تھی۔
سالیسٹر جنرل کے اس بیان کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کیونکہ ان کے بالمقابل دو
معزز وکیل موجود ہیں جو اس کا ثبوت مانگیں گے ۔ بی جے پی کا مسئلہ یہ ہے کہ
اس کے کئی مکھوٹے ہیں۔ وہ لوگ جب عوام میں جاتے ہیں جو کچھ کہتے ہیں میڈیا
میں ان کا وہی لب و لہجہ نہیں ہوتا بلکہ بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ اس کے برعکس
جب وہ عدالت میں جاتے ہیں تو ایسا متضاد موقف اختیار کرتے ہیں کہ گر گٹ بھی
شرما جائے ۔ کھرگون تشدد پر وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے کہا تھا کہ
فسادیوں کو بخشا نہیں جائے گا اور انہیں سخت ترین سزا ملے گی۔ اس اعلان کے
بعد جب بلڈوزر چلے تو لازماً یہی پیغام گیا کہ یہ کارروائی تشدد کے ملزمان
کو سبق سکھانے کے لیے کی گئی ۔ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے جب
دیکھا کہ وزیر اعلیٰ نے تو اپنی سیاسی پوزیشن بہت مستحکم کرلی ہے تو وہ بھی
لنگوٹ کس کے میدان میں کود گئے اور اپنے آپ کو شیوراج سنگھ چوہان سے سخت
گیر ہندوتوا نواز ثابت کرنے کے لیے یہ دھمکی دے دی کہ ، کیمرے پر پتھر
پھینکتے نظر آنے والوں کے خلاف مناسب عمل کی پیروی کی جارہی ہے اور وہ جیل
پہنچ جائیں گے۔ اس معاملے میں جن 148 افراد کو گرفتار کیا گیا ان میں دو
مسلمان تواس وقت جیل کے اندر اورایک کرناٹک میں تھاایک لولے شخص پر پتھر
بازی کا الزام لگا کر گھر توڑ دیا گیا۔
نروتم مشرا نے اس طرح بلڈوزر کے ذریعہ انہدامی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے
کہا کہ جائیداد کے غیر قانونی ہونے کی بات ثابت ہونے کے بعد ہی کارروائی کی
جا رہی ہے نیز اپنے مخالفین پر حملہ آوروں کو بچانے کاالزام لگا کر یہاں
تک کہہ دیا کہ انہیں اس بات کی پروا نہیں ہے کہ مدھیہ پردیش حکومت پر کسی
ایک کمیونٹی کے خلاف کام کرنے کا الزام ہے۔ کہیں بھی فساد ہوتو فسادیوں کو
کچل دیا جائے گا۔ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے
انہوں نے کہا یہ تمام فسادی ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس طرح گویا
عدالت عظمیٰ کے اندر دشینت دوے اور کپل سبل کے الزامات کا ثبوت فراہم کرتے
ہوئے انہوں نے صاف طور پر اعتراف کر لیا کہ’’اگر مسلمان اس طرح کے حملے
کرتے ہیں، تو انہیں انصاف کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔
مدھیہ پردیش کے ایک اور وزیر وشواس سارنگ نے اپنے سینئرس کے سُر میں سُر
ملاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ، ’’ہم نے کھرگون کو فسادیوں سے پاک کر دیا ہے۔
شیوراج سنگھ چوہان کی حکومت یہ یقینی بنا رہی ہے کہ اس طرح کے واقعات
دوبارہ رونما نہ ہوں۔ ہم صرف فسادیوں کو ہی ختم نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس
ذہنیت کا بھی خاتمہ کر رہے ہیں۔‘‘ اور ظاہر ہے یہ کام بلڈوزر کی مدد سے کیا
جارہا ہے۔ سارنگ کا یہ بیان وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کی تائید ہے کہ
جس میں انہوں نے بلڈوزر کو فساد سے جوڑتے ہوئے کہا تھا کہ پتھراؤ میں ملوث
افراد کی ’’غیر قانونی عمارتوں‘‘ کو گرانے کا حکم دیا گیا ہے یعنی اسے
فسادیوں تک مخصوص کرکے دیگر تجاوزات کو بخش دیا گیا ہے ۔ عوامکے اندر اور
میڈیا میں اس طرح کے بیانات دینے والوں کی مدافعت میں عدالت کے اندر
سالیسٹر جنرل اس انہدامی کارروائی کو فساد کے بجائے تجاوزات کو ہٹانے تک
محدود کردیا ۔ یہ دوغلی سیاست فی الحال بی جے پی کا شعار بن گئی ہے۔
سالیسٹر جنرل کے شواہدا ور اعدادوشمار کی تائید افسران کے ساتھ کھرگون کی
صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے کردی۔ وہاں
پر مکمل امن کی بحالی کا اعلان کرنے کے بعد وزیر اعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے
فسادات کے دوران فسادیوں نے جن کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی ہے، املاک کو
نقصان پہنچایا ہے، ایسے مکمل طور پر تباہ شدہ دس مکانات کو دوبارہ بنا نے
کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت اپنے مکمل تعاون سے یہ تعمیر نو کرے گی۔ مسلمانوں
کے تعلق سے تو یہ کہہ دیا گیا تھا کہ وہ انصاف کی امید نہ رکھیں اور یہ بات
بھی کہہ دی گئی تھی جن عمارتوں سے پتھر بازی ہوئی صرف انہیں کو سزا دینے کے
لیے مکانات و دوکانیں گرائی گئیں پھر یہ یو ٹرن کیوں ہوگیا ؟ وزیر اعلیٰ نے
یہ بھی کہا کہ کھرگون میں جزوی طور پر تباہ ہونے والے مکانات کی تعداد 70
ہے۔ حکومت کی مدد سے ان کی مرمت کرکے انہیں پھر بہتر بنایا جائے گا۔ اس کے
علاوہ زخمیوں کے مفت علاج کا انتظام اور انہیں تکلیف نہیں ہونے دینے کی بھی
یقین دہانی کی گئی ۔ سوال یہ ہے کہ اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے ؟
کھرگون تشدد واقعات میں ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی املاک کو نقصان پہنچنے
کا اندازہ ہے۔ 66 مکانات، 10 دکانیں اور 27 گاڑیاں جلائی گئی تھیں۔ 90 سے
زائد کا پنچنامہ تیارکرنے کی بھی خبر ہے۔ وزیر اعلیٰ نے نہایت ہمدردانہ
انداز میں کہا ہے کہ جن لوگوں کی روزی روٹی خراب ہوئی ہے ہم ان کی معیشت
بحال کریں گے۔ حکومت ان کا کاروبار دوبارہ شروع کرنے میں مکمل مدد فراہم
کرے گی ۔ وزیر اعلیٰ نےا پنے پاس 16 ایسے لوگوں کی فہرست کا ذکر کیا جن کے
نقصان کی پوری تلافی فی الحال حکومت کرے گی اور بعد میں فسادیوں سے وصولی
ہوگی۔اس کے بعد وہ بولے اپنے کسی بھی بھائی بہن کو وہ مشکل وقت میں تنہا
نہیں چھوڑیں گے۔ حکومت ان کے ساتھ کھڑی رہےگی ۔اوپر مذکورہ بیانات کی روشنی
میں کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ اتنے پیار سےجن کو بھائی بہن کہہ
رہے ہیں وہ مسلمان ہیں یا پھر سالیسٹر کا اعتراف درست ہے کہ غلطی سے جن
116املاک پر بلڈوزر چل گیا ان میں 88 ہندووں کے تھے اور انہیں سے یہ ہمدردی
جتائی جارہی ہے ۔
وزیر اعلیٰ کی ہمدردی اور سالیسٹر جنرل کے انکشاف کو ملا کر دیکھیں تو بی
جے پی کی وہ دلیل خارج ہوتی ہے جس کے ذریعہ وہ ہندو رائے دہندگان کی منہ
بھرائی کرکے ان کا ووٹ لینا چاہتی ہے۔ اس معاملہ میں ایک دلچسپ کہانی حسینہ
فخرو کی ہے جن کو وزیر اعظم دفتر کے تحت چلائی جانے و الی اسکیم پی ایم اے
وائی نے گھر بنانے کے لیے ڈھائی لاکھ روپے دئیے تھے۔ 2020ء تک یہ خاندان اس
پلاٹ پر کچے گھر میں رہ رہا تھا۔اس سال جب اسے پی ایم آواس یوجنا کے تحت
منظوری ملی، تو اسے پکا بنایا گیا۔ سرکاری امداد ڈھائی لاکھ روپے کے علاوہ
مزید ایک لاکھ روپئے ذاتی بچت سے خرچ ہوئے اور یہ مکان تقریباً 6؍ ماہ قبل
مکمل ہوگیا ۔ اس کے بعدا نتظامیہ نے دعویٰ کرکےگرا دیا کہ یہ تمام مکانات
تجاوزات سے بنائے گئے تھےاور ان کا تعلق پتھراؤ کرنے والے ملزمین سے تھا ۔
ذرائع ابلاغ میں جب یہ حکومت کی بدنامی کا سبب بننے لگا تو انتظامیہ نے
مسجد میں پناہ گزین اس خاندان کو تلاش کرکے اسے گھر دینے کی پیشکش ۔
بلاسوچے سمجھے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے کی جانے والی انتقامی کارروائی کے
سبب حکومت کی یہ رسوائی ہوئی۔ اتفاق سے راحت اندوری کا یہ شعر خود ان کے
علاقہ میں چلنے والے بلڈوزر پر صادق آگیا ہے ؎
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|