کلرسیداں کے عوام اس وقت قانون کے رکھوالوں کی لاپرواہی
کی وجہ سے اذیت کی زندگی گزار رہے ہیں آئے روز ہوائی فائرنگ لڑائیاں جھگڑے
ڈکیتیاں اور اس طرح کی دیگر وارداتوں کی وجہ سے شہریوں کا امن و امان برباد
ہو چکا ہے اور اب تو لوگ اس طرح کی وارداتوں کو دیکھ کر منہ دوسری طرف کر
لیتے ہیں اور کسی کو شکایت تک نہیں کرتے ہیں کیوں کہ ان کو بخوبی علم ہے کہ
کس کو بتائیں کوئی سنتا ہی نہیں ہے کلرسیدا ں کا علاقہ بڑا پر امن سمجھا
جاتا تھا لیکن اب کچھ سالوں سے یہاں پر حالات قدرے خراب ہو چکے ہیں اور اس
کو امن کا علاقہ کہنا ایک خواب بن چکا ہے غیر مقامی افراد کی آباد کاری کی
وجہ سے مقامی لوگ غیر محفوظ ہو کر رہ گے ہیں مقامی سرکاری انتظامیہ اپنی
قانونی زمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر نظر آ رہی ہے ان تمام تر ھالات کی سب
سے زیادہ زمہ دار پولیس تھانہ کلرسیداں ہے جس کی چشم پوشی کی وجہ سے جرائم
بڑھ رہے ہیں زیادہ دور نہیں صرف حالیہ دنوں میں رونما ہونے والی وارداتوں
پر نظر ڈالتے ہیں شاہ باغ کے علاقہ میں معصوم بچے کو زیادتی کے بعد قتل کر
دیا گیا ملزمان ابھی تک نہیں پکڑے جا سکے ہیں شاہ باغ کے قریب ہی ایک ماہ
قبل راولپنڈی سے کلرسیداں آنے والی فیملی کو راجہ مارکیٹ میں نماز جمعہ کی
ادائیگی کے وقت گاڑی میں موجود خواتین سے ایک عام موٹر سائیکل سوار ڈکیت جو
کے موقع پر موجود افراد کے مطابق کوئی بڑا وارداتیا بھی نہیں لگ رہا تھا نے
اسلحہ کی نوک پر زیورات وغیرہ لوٹ لیئے لیکن معاملہ ابھی تک وہیں لٹکا ہوا
ہے یہ واقعہ پورے کلرسیداں کیلیئے شرندگی کا باعث بنا لیکن ہماری پولیس نہ
جانے کیوں خاموش ہے ایک ہفتہ قبل شاہ باغ میں ہی ایک موبائل شاپ سے موٹر
سائیکل سوار ڈکیت گروہ نے ڈکیتی کی کامیاب واردات کرتے ہوئے دکان مالک سے
سب کچھ لوٹ کر فرار ہو گئے ہیں لیکن معاملہ ابھی تک حل طلب ہے شاہ باغ شہر
ہی میں چاند رات کو دو گروپوں میں لڑائی جھگڑا ہوا ہوائی فائرنگ ہوئی اس سے
قبل بھی ان دونوں گروپوں میں متعدد بار جھگڑے ہو چکے ہیں لیکن پولیس خاموش
تماشائی بنی ہوئی ہے اور شاید اس انتظار میں بیٹھی ہوئی ہے کہ کوئی بندہ
ضائع ہو اور پھر کچھ کریں انجمن تاجراں شاہ باغ کے عہدیداروں نے بھی ایس
ایچ او سے ملاقات کی اور اپنے تحفظات سے آْگاہ کیا لیکن پھر بھی پولیس نے
کوئی کاروائی نہیں کی ہے کلرسیداں شہر میں ہوائی فائرنگ ہوتی رہتی ہے جس کی
باقاعدہ شکایت ممبران پریس کلب کلرسیداں نے ایس پی کی کھلی کچہری کے موقع
پر کی تھی لیکن کوئی حل نہیں نکلا ان تمام واقعات کے پیچھے پولیس کی غفلت و
لاپرواہی شامل ہے او یہ پولیس کی روایتی بے حسی کا نتیجہ ہے ان تمام
وارداتوں کے ملزمان کے خلاف کاروائی کون کرے گایہ کلرسیداں کے عوام کی
بدقسمتی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیر زمہ داری کی وجہ سے
مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے پولیس کا کام صرف معمولی درخواستوں پر
کاروائی کرنا رہ گیا ہے طاقت ور افراد غریبوں کی زمینوں پر قبضے کر رہے ہیں
غریب تھانے سے رجوع کرتا ہے پولیس اس کو ایک عام کیس سمجھ کر ٹال دیتی ہے
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسی بات پر دوبارہ بڑا جھگڑا ہو جاتا ہے لیکن قصور
وار اور بے قصور کا تعین پھر بھی نہیں ہو پاتا ہے اور منہ زور کم زور کو
طعنہ دیتے ہیں کہ تھانے جا کر ہمارا کیا بگاڑ لیا ہے وہ پہلے سے زیادہ تنگ
کرنا شروع کر دیتے ہیں بینکوں کے بار لوگ نوسر بازوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں
لیکن ان کا کوئی سراغ نہیں لگ رہا ہے اگر ایس ایچ او تھانہ کہوٹہ صدیق گجر
شہر میں آوارہ پھرنے والوں سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ تم لوگ بغیر کسی کام کے
یہاں کیا کر رہے ہو تو کلرسیداں پولیس کو ایسا کرنے میں کیا رکاوٹ پیش آ
رہی ہے وہ تھانے جانے والے سائلین کو مطمئن کرنے میں کیوں ناکام ہے وہ
معمولی جھگڑے جو بعد میں بڑے سانحات کی شکل اختیار کر جاتے ہیں ان کو بروقت
کنٹرول کیوں نہیں کر سکتی ہے وہ بینکوں کے باہر کھڑے ایسے افراد جن کا بینک
میں کوئی کام ہی نہیں ہے ان سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کرتی ہے کہ تم بغیر کسی
کام کے بینک کے باہر کیوں کھڑے ہو تو وہ دوبارہ کبھی بھی بینک کے پاس کھڑا
ہونے کی جرآت نہیں کرے گا پو لیس اگر دیانتداری سے اپنی زمہ داریاں پوری
کرے تو کسی جرائم پیشہ کی جرآت نہیں ہو سکتی ہے کہ وہ کوئی لاقانونیت کا
مظاہرہ کرے افسران کے روئیے کے باعث پولیس اور عوام میں فاصلے بڑھتے جا رہے
ہیں جو ایک نقصان دہ عمل ہو گا ایس ایچ او کلرسیداں کو اس حوالے مکمل ایکشن
لینا ہو گا اور اپنے ما تحت تفتیشی افسران کو متحرک کرتے ہوئے جرائم کی روک
تھام کیلیئے موثر اقدامات کرنے کی ہدایات کرنے کے ساتھ ساتھ کلرسیداں کے
عوام کو یہ ثابت کر کے دکھانا ہو گا کہ اس تھانے میں کوئی کام کرنے والا
دیانتدار ایس ایچ موجود ہے
|