سیاسی استحکام کا مطلب موثراور اعلیٰ معیار کی حکومت،
قانون کی حکمرانی اور بدعنوانی سے پاک نظام پر مبنی ادارہ جاتی معیار ہے
۔ویانا یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق2050 تک دنیا کا قریباً 30 فیصد حصہ
سیاسی عدم استحکام ، بد عنوانی اور تنازعات سے متاثر ہوسکتا ہے ۔ پاکستان
اس وقت سیاسی عدم استحکام کے بدترین دور سے گذر رہا ہے جس کے نتیجے میں
اقتصادی بحران کا سونامی تباہی در تباہی برپا کررہا ہے۔ لبنان ، صومالیہ ،
سری لنکا اور نیپال اس وقت اقتصادی بحران اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے
اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گذر رہے ہیں۔ ان ممالک کے موجودہ حالات
کاپاکستان سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو بیشترمعاملات پر مماثلت حیران کن تک
سامنے آتی ہے۔ چونکہ ہمارا میڈیا ، عوام کو ان حقائق سے آگاہی میں زیادہ
دلچسپی نہیں رکھتا کہ سری لنکا میں کیا ہورہا ہے اور نیپال کن مسائل کا
شکار ہے ، لبنان معاشی بحران کا کیوں شکار ہوا اور صومالیہ میں سیاسی عدم
استحکام نے ملک کو کن حالات پر پہنچایا ہے ، ہمارے نزدیک ان جیسے متعدد
ممالک میں پائی جانے والی تشویش ناک صورت حال سے لاتعلقی کی بنیادہ وجہ یہ
بھی ہوسکتی ہے کہ عالمی امور پر الزام تراشیاں کرنا تو ہمارا مرغوب مشغلہ
بن چکا ہے لیکن وہ نامساعد حالات کا شکار کیوں ہوئے اس کے مضر اثرات سے
کوئی سبق حاصل نہیں کیا جاتا ۔
اب کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کی موجودہ صورت حال کی وجہ تباہ
کن سیاسی عدم استحکام ہے ، جس کی باعث سیاست میں مخالفین کے خلاف الزامات
اور عدم برداشت کے رویئے نے شرم ناک کلچر کو جنم دیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر
مخالفین کی عزت نفس کو نشانہ بنانے کے لیے گالم گلوچ بریگیڈ کے ڈیتھ سکوڈ
قائم ہوئے تو دوسری جانب عدم برداشت کا رویہ اب انٹر نیٹ کی دنیا سے نکل کر
سماج میں سیاسی اور معاشرتی نظام کی بنیادیں ہلارہا ہے۔ حکومتی رٹ اور
اداروں کے خلاف جمہوریت دشمن اور انسانیت بیزار قوتوں نے فروعی مفادات کے
تابع منفی عناصر کے ہاتھوں پورے سیاسی نظام کو یرغمال بنارکھا ہے۔ اتحادی
جماعتوں نے اپنی شراکت داری سے تحریک انصاف کی حکومت کو اپنے منطقی انجام
تک تو پہنچا دیا لیکن مستقبل میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے، بچھائے
جانے والی معاشی و سماجی بارودی سرنگوں کی تباہ کاریاں آنے والے وقت میں
تباہ کن اثرات کے ساتھ عوام کی دہر ی کمر کو توڑنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑے
گی۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ عمران خان کو مسند اقتدار سے ہٹانا نہیں
چاہیے تھا تاکہ وہ اپنے بوجھ سے خود گر جاتی ، لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ
ناتجربہ کاری اور زمینی حقائق سے ادارک نہ کرنے سے ملک و قوم کو ناقابل
تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ پاکستان میں سیاسی استحکام اور اقتصادی بحران کو
سیاسی جماعتوں کی باہمی آویزش اور کشیدگی نے ہموار کیا ۔ راتوں رات کوئی
انقلاب نہیں آیا کرتا ، لیکن ذہن سازی کچھ اس طرح کی گئی کہ سبز باغ
دکھانے والوں کو خود سمجھ نہیں آیا کہ اپنے وعدو ں اور دعوئوں کو کس طرح
پورا کریں۔ بدقسمتی سے حکمرانوں نے صورت حال کی آتش فشانی کو ہر دور میں
نظر انداز کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مادر ِ وطن کے ہر گلی کوچے میں سیاسی
عدم استحکام اور سیاسی جماعتوں کے موجودہ بیانیہ پربے یقینی اور بے چارگی
عروج پر ملے گی۔ اقتصادی بحران اس قدر شدید نوعیت کا ہے کہ فوری طور پر عام
انتخابات بھی اس کا حل نہیں کیونکہ الیکشن کے بھاری اخراجات کا بار بھی
عوام پر ہی پڑے گا اور جس بدترین معاشی حالات کا اس وقت ملک و قوم کو سامنا
ہے ، اس سے فی الفور نکلنے کا نسخہ کسی کے پاس اس لیے نہیں کیونکہ تیر کمان
سے نکل چکا ہے۔ ارباب ِ اختیار کا یہ احساس زیاں افسوس ناک ہے کہ وہ ترقی
پذیر ممالک کے بدترین اقتصادی بحران سے کوئی سبق حاصل کرنے کو تیار نہیں،
بدقسمتی سے یہاں مقطع میں وہی ’کچھ دیگر قوتوں ‘ والی گسترانہ بات کی جا
رہی ہے ، جس کو بے نقاب کرنے کے دعوے کئی عشروں سے سنتے چلے آرہے ہیں۔
امام مالک کا قول ہے کہ ’’ انسان کا بھاری بوجھ غصہ ہے‘‘۔ اس غصہ نے ہماری
سیاست کی رگوں میں دوڑتے ہوئے اب برہمی ، اشتعال ، انتقام اور ظلم کے کئی
ہولناک روپ دھار لیے ہیں ۔ عدم برداشت اکیسویں صدی کا ہولناک مظہرہے،
پاکستانی سیاست اور سماج کو اس کی نو آبادیاتی سوچ کے غلامانہ تسلسل اور
تناظر سے اب کاٹ کر الگ کردینا ناگزیر ہے ، ملکی جمہوری نظام کی بقا اسی
میں ہے کہ عدم سے آباد ، تدبیر سے استحکام ، علم سے جمیل ، نیکی سے شاداب
،شجاعت ، دوراندیشی ،ایمان داری اور خلوص نیت کے ساتھ عوام کو درپیش مسائل
سے نکالنے کی اجتماعی کوشش کی جائے۔
ہمارے عزم مسلسل کی تاب و تب دیکھو
سحر کی گود میں رنگ شکست شب دیکھو
تحریک انصاف ، اقتدار سے بیدخلی کے بعد عوام میں جلسوں کے ذریعے اپنے
بیانیہ کی تشہیر میں مصروف ہے اور بعض سیاسی پنڈتوں کے مطابق یہ سب کچھ ری
لانچنگ کی مشق ہے ، لیکن بعض ماہرین اس نکتہ نظر سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ
عمران خان ، ریڈ لائن کراس کرچکے ہیں۔ یہ امر قابل تشویش ہے کہ ملکی نظام
کو سیاسی استحکام نہیں، اس وقت جو بوجھ پی ٹی آئی نے اٹھانا تھا ، غیر
محسوس طور پر پاکستان مسلم لیگ نون نے اپنے ناتواں کندھوں پر رکھ دیا ہے۔
نون لیگ نے بھاری بھرکم بوجھ کو اٹھاتو لیا لیکن مسائل اس قدر گھمبیر ہیں
کہ غیر مقبول فیصلوں سے انہیں مستقبل میں بھاری نقصان پہنچنے کا یقینی
احتمال ہے اور جن چیلنجز کا جواب پی ٹی آئی نے عوام کو دینا تھا، اب
وزیراعظم میاں شہباز شریف اور ان کی سیاسی جماعت کو دینا ہوں گے ، ان کے
اتحادیوں پر سیاسی دبائو کا کوئی بوجھ نہیں کیونکہ ان کو ملی مراعات سے
عوام کے مسائل کے حل کا کوئی تعلق نہیں بنتا اس لیے نون لیگ کے اتحادی
مطمئن ہیں ، جب کہ پی ٹی آئی نے اپنے بیانیہ سے عوام کے اذہان سے سب کچھ
محو کرایا ہے کہ جن بدترین حالات کا سامنا عوام کررہی ہے اس میں دیگر سیاسی
جماعتوں کے ساتھ ان کا حصہ سب سے بڑا ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ نون، آگے
سمندر پیچھے کھائی کے مترداف اپنے سیاسی مستقبل کے بھنور میں الجھ چکی ہے۔
آنے والا وقت عوام سمیت نون لیگ پربھاری ہے اور اپوزیشن کی جارحانہ روش
ملکی مفاد سے متجاو ز و متصادم پر گامزن ۔
|