بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ،کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اپنی عمر کے سوسال مکمل کرنے جارہا ہے۔ اس عرصے میں اسے بہت سارے سربراہ (سرسنگھ چالک) ملے اور ان میں بڑا فرق تھا ۔ آر ایس ایس کے پہلے سربراہ ڈاکٹر ہیڈگیوار چونکہ کانگریس سیوا دل سے آئے تھے اس لیے ان کا مزاج دوسرے سرسنگھ چالک گرو گولوالکر سے بہت مختلف تھا ۔ دونوں کے اندر مقصد کی ہم آہنگی تو تھی مگر ایک کا زور میدان عمل پرتو دوسرا فکر و نظکا شہسوار تھا ۔ آج بھی سنگھ کی فکری اساس کو تلاش کرنے کی خاطر گرو کولوالکر کی کتابوں اور نظریات کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ سنگھ کے مخالفین کو ان تصنیفات میں اس کی شدت پسندی کو واضح کرنے والا بہت سارا مواد مل جاتا ہے مگر سنگھ کے لوگ اس سے کم ہی رجوع کرتے ہیں ۔ موہن بھاگوت خود گولوالکر کے بجائے ڈاکٹر ہیڈگیوار کے خطبات پر زیادہ انحصار کرکے انہیں ہیرو بناکر پیش کرتے ہیں ۔ دہلی کے راج بھون میں عمائدین شہر کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے گروجی کی معروف تصنیف ’بنچ آف تھاٹ‘ سے اختلاف کرتے ہوے اس کے اگلے ایڈیشن میں کچھ چیزیں ہذف کرنے کا اشارہ بھی دےدیا ۔

موہن بھاگوت اپنے پیش رو سربراہوں سے اس لیے مختلف ہیں کہ وہ بولتے بہت ہیں۔ جدید ذرائع ابلاغ کے سبب ان کی باتیں آسانی سے لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں اور موجودہ حکومت کا وفادار گودی میڈیا اس کی تشہیر کرکے اپنی نمک خواری کا حق ادا کرتا ہے۔ اس کا سنگھ کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس کے نظریات کی تبلیغ ہوجاتی ہے لیکن نقصان یہ ہے کہ پہلے چھپی رہنے والی اس کی تضاد بیانی اب عیاں ہوجاتی ہے۔ اس لیے متضاد بیان بازی میں موہن بھاگوت سرِ فہرست ہیں۔ ابھی حال میں ناگپورکے اندر آر ایس ایس کے تربیتی پروگرام کی اختتامی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے، بھاگوت نے اپنے پرانے موقف کو دوہراتے ہوئے کہا کہ سنگھ رام جنم بھومی تحریک کے بعد مزید کوئی تحریک چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ سر سنگھ چالک کا یہ بیان گیان واپی مسجدکے تناظر میں تھا ۔ وہ اس تنازعہ کو باہمی رضامندی سے حل کرنے کے حق میں ہیں حالانکہ یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ انتخابی کامیابی کی خاطر اٹھائی جانے والی فتنہ پردازی ہے ۔ آر ایس ایس کے سربراہ نے1992 میں ایودھیا کے اندر بابری مسجد کے انہدام سے مماثل سڑکوں پر مظاہروں کا امکان مسترد کردیا لیکن اس یقین دہانی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کاشی وشوناتھ کاریڈور کی تعمیر کے دوران مودی اور یوگی سرکار نے سیکڑوں شیولنگ اکھاڑ کر کوڑے دان میں پھینک دیئے مگر کسی کان پر جوں نہیں رینگی لیکن ان بھگتوں کو مسجد کے فوارے میں شیولنگ نظر آگیا اور وہ شور مچا نے لگے ۔ ایسے نامعقول لوگوں سے بات چیت کا مشورہ اور باہمی رضامندی سے حل تلاش کیا جانا بھی بے معنیٰ ہے ۔ بھاگوت کا یہ مفروضہ خلافِ حقیقت ہے کہ اگر مسائل ہوں گے تو اٹھیں گے اور یہ کسی کے خلاف نہیں ہیں ۔ بچہ بچہ جانتا ہے کہ یہ مسائل ازخود جنم نہیں لیتے بلکہ مسلمانوں کے خلاف پیدا کیے جاتے ہیں ۔ بھاگوت نے باہمی سمجھوتے میں ناکامی کے بعد عدالت سے رجوع کرنے کا مشورہ دے کر کہا کہ عدالت کے فیصلے کو مان لینے کی تلقین کی۔ ان کے مطابق عدالتی نظام کو مقدس اور اعلیٰ سمجھتے ہوئے فیصلوں پر سوال نہ کرکے ان کی پابندی کرنی چاہیے۔ اس مشورے پر تو اسی وقت عمل ہوگا جب عدالت اپنے تقدس کا خیال کرکےمبنی بر انصاف فیصلے کریں ۔ بابری مسجد کے معاملے مسلمانوں کے دلائل کو تسلیم کرنے کے بعد عقیدے کی بنیاد پر فیصلہ سناکر عدالتِ عظمیٰ نے خود اپنے وقار کو پامال کردیا اس لیے اب یہ نصیحت بھی بے معنیٰ ہوگئی ہے۔

موہن بھاگوت جزوی طور پر معقول باتیں کہتے کہتے اچانک بہک جاتے ہیں۔ مذکورہ تقریر میں انہوں نے فرمایا جب اسلام حملہ آوروں کے ذریعے ہندوستان میں آیا تو ہندوستان کی آزادی کے خواہاں لوگوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے ہزاروں زیارت گاہوں کو مسمار کر دیا گیا۔ ان میں ایسے مندر بھی ہیں جن کی ہندو پوجاکرتے ہیں۔ اس بیان میں کئی باتیں غلط ہیں ۔ اول تو ہندوستان میں اسلام مبلغین دین کے ذریعہ آیا۔ دوسرے یہ کہ مسلم حکمراں چونکہ اسی ملک میں بس گئے تھے اس لیے ان کے خلاف آزادی کی کوئی تحریک نہیں چلی ۔ تیسری بات یہ ہے کہ مخالفین کی حوصلہ شکنی اور دھن دولت کی خاطر مندروں کے انہدام کا کام بہت سارے ہندو راجاوں نے بھی کیا ۔ مسلمانوں کی آمد سے قبل بدھ مت و جین مت کے مندروں کو تو تباہ تاراج کرنے کا کام ہندو راجاوں نے بھی کیا ۔ موہن بھاگوت کو معلوم ہونا چاہیے کہ ڈھیروں سچ میں معمولی جھوٹ کی آمیزش بھی اسے جھوٹ بنادیتی ان کے یہاں تو بے شمار کذب گوئی کے درمیان تھوڑا بہت سچ دکھائی دے جاتا ہے ۔ ویسے سر سنگھ چالک کی زبان سے وہ بھی غنیمت ہے۔
ملک کے طول و عرض میں فی الحال مساجد کے خلاف ایک مہم چھڑی ہوئی ہے ۔ ایسا کرنے والوں سے خود کو الگ کرتے ہوئے بھاگوت نے کہا کہ ’ ہم 9 نومبر کو(یعنی بابری مسجد سےمتعلق متنازع فیصلے کے دن) کہہ چکے ہیں کہ ہمیں رام جنم بھومی ایجی ٹیشن کے بعد کسی بھی تحریک میں کوئی دلچسپی نہیں ہے‘ ۔ موہن بھاگوت نے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ سنگھ نے ایودھیا سے وابستہ رام مندر تحریک میں مخصوص حالات کے اندر حصہ لیا تھا لیکن اس تحریک میں شامل ہونا تنظیم کی بنیادی فطرت کے خلاف تھا۔ اب آر ایس ایس مستقبل میں کسی مندر تحریک میں شامل نہیں ہوگی۔ اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سنگھ اپنی فطرت انحراف بھی کرتا ہے۔ ماضی میں وہ اپنی بغل بچہ پارٹی کو سیاسی فائدہ پہنچانے کی خاطر ایسا کرچکا ہے تو آگے بھی کرسکتا ہے؟ ویسے مودی یگ میں سنگھ کا بی جے پی پر انحصار پہلے کی بہ نسبت بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔

موہن بھاگوت نے اپنی فطرت سے متعلق یہ اہم انکشاف کیا کہ سنگھ ہندوستان میں ایک عبادت اور ایک زبان پر یقین نہیں رکھتا کیونکہ وہ سب کو ایک ہی آباؤ اجداد کی اولاد سمجھتا ہے۔ اس لیے آر ایس ایس کسی بھی قسم کی عبادت کا مخالف نہیں ہے ۔ وہ ان سب کو مقدس مان کر قبول کرتاہے۔بھاگوت کے مطابق مسلمانوں نے عبادت کی غیر ملکی شکل تو اختیار کی ہے لیکن وہ ہمارے رشیوں، مونیوں، کھشتریوں کی اولاد ہیں۔ بھاگوت جی نے مسلمانوں کی عبادت کا طریقہ تو دیکھا مگر اسلامی عقیدے سے واقف نہیں ہوئے یا اس کا اظہار نہیں کیا ۔ دین فطرت میں نہ صرف کسی ایک ملک یا خطے بلکہ ساری دنیا کے انسان ایک آدم کی اولاد ہیں۔ اس لحاظ سے وہ ایک کنبے کے افراد ہیں ۔ ان سب کا خالق و مالک ایک ہی ہے اس لیے سبھی کو اپنے پاک پروردگار کی عبادت و اطاعت اور نبیٔ آخر الزماں کی اتباع کرنی چاہیے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس عقیدے کی اپنے قول و عمل سے دعوت دیتے ہیں۔

موہن بھاگوت نے یہ کہہ کر سا معین کو چونکا دیا کہ اب سنگھ کے ذریعے ہر طرف صرف بھائی چارے کو فروغ دیاجانا ہے اور ہندوتوا کو تقویت دینی ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اب ملک کے فرقوں کے درمیان لڑائی نہیں ہونی چاہئے، ہندوستان کو ’وشو گرو‘ بننا چاہئے اور پوری دنیا کو امن کا درس دینا چاہئے۔ سنگھ سربراہ نے اپنے خطاب میں ہندو مذہب کو مضبوط کرنے کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ہندو مذہب کو مزید طاقتور بنانا ہے، لیکن نہ کسی سے ڈرنا ہے اور نہ ہی کسی کو ڈرانا ہے، سب کے ساتھ مل کر رہنا ہے اور وشو گرو بننے کی طرف بڑھنا ہے۔ بھاگوت نے ملک کو ’وشوگرو‘ یعنی عالمی بنانے کی بات کی تو روس اوریوکرین جنگ کا تذکرہ ہونا ہی چاہیے تھا ۔ اس پر بھاگوت نے یوکرین پر روسی حملے کے حوالے سے ہندوستانی موقف کو متوازن بتایا ۔آر ایس ایس سربراہ نے حکومت ہند کی موجودہ پالیسی کی تعریف کرنے کے بعد کہا کہ روس یوکرین جنگ نے ہندوستان کو بھی بتا دیا ہے کہ اس کا مضبوط رہنا ضروری ہے۔ اس جملے میں چین کی جانب یہ خفیہ اشارہ موجود ہے کہ اگر اس نے روس کی طرح حملہ کردیا تو ہندوستان کا مزاحمت کے لیے طاقتور ہونا چاہیے۔ ا س بیان میں چینی خطرے کا بلاواسطہ اشارہ موجود ہے اور یہ اعتراف بھی کہ چین کے مقابلے مزید طاقت درکار ہے۔

موہن بھاگوت نے اس تربیتی پروگرام کے اختتامی خطاب میں آر ایس ایس کارکنان کو تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں ہر مسجد میں شیو لنگ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کچھ عقیدت کے مراکز ہو سکتے ہیں لیکن ہر موضوع پر لڑائی کیوں کرنی؟ تنازعہ کیوں بڑھانا؟‘‘ کوئی بھی تاریخ کو نہیں بدل سکتا اور ماضی آج کے ہندوؤں یا مسلمانوں نے نہیں بنایا تھا۔ یہ معقول باتیں ہیں لیکن ہاتھی کے دو بڑے دانت دکھانے کے لیے اور اندر کے پوشیدہ دانت کھانے کے لیے ہوتے ہیں ۔ خدا کرے کہ بھاگوت کے الفاظ دکھانے کے دانت نہیں بلکہ کھانے والے اصلی دانت ہوں ۔ سنگھ پریوار اگر اخلاص کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہوجائے تو ملک میں امن و امان قائم ہوسکتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت وقت کے سامنے مسلمانوں کی مانند سنگھ پریوار کی ایک نہیں چلتی ۔ فرق یہ ہے کہ اول الذکر کی کھلے عام دلآزاری کرکے اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور مؤخر الذکر کو اکیلے میں سمجھا کر اپنی ہمنوا ئی پر مجبور کر لیا جاتا ہے۔ بقول غالب؎
کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی




 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449621 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.