پاکستان کے معاشی و سیاسی حالات جس حد تک بگڑ چکے اور جس
تیزی سے اور بگڑتے جا رہے ہیں، اس کے متعلق کسی شرح و بسط سے لکھنے کی
ضرورت نہیں، وہ کونسی آنکھ ہے جو ہر روز اس عبرت انگیز منظر کا تماشا نہیں
کرتی اور وہ کونسا دل ہے جو ہر آن اس الم انگیز حقیقت کا احساس نہیں کرتا،
حالات کی یہ خرابی نہ کسی خاص خطہ تک محدود ہے، نہ کسی خاص طبقہ سے مخصوص۔
یہ اس حد تک عالمگیر ہوچکی، جس طرح متعدی امراض کے جراثیم کے مانند اس طرح
فضا میں پھیلی ہوئی ہوں کہ آپ لاکھ بچنے کی کوشش کریں وہ آپ تک اُڑ کر پہنچ
جائیں۔ ان کی شدت، وسعت اور گہرائی کا اس سے اندازہ لگائیے کہ (عوام تو ایک
طرف) وہ ارباب ِ حل عقد، جو امور مملکت کے انتظام و انصرام کے ذمہ دار ہیں
بالکل بوکھلائے ہوئے پھر رہے ہیں اور کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ابتری
کا علاج کیا ہے۔ ان کی یہی پریشانی فکر و نظر اور سراسمیگی ئ قلب و نگاہ ہے
جس کی وجہ سے حالت یہ ہوچکی کہ وہ اس گھتی کو جس قدر سلجھانے کی کوشش کرتے
ہیں، یہ اتنی ہی الجھی چلی جاتی ہے۔ ان حالات کا نتیجہ یہ ہے کہ سارا ملک
ایک عالمگیر مایوسی کے لپیٹ میں آچکا ہے، گویا وہ ایک تناور درخت کے ساتھ
مضبوط زنجیروں سے بندھے ہوئے ہوں اور سامنے آتش فشاں پہاڑ سے، جہاں سوز
لاوے کا سیلاب اس کی طرف امنڈے چلا آرہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان حالات کے سدھرنے کی کوئی شکل ہوسکتی ہے؟۔ نظر بظاہر
ان سوالات کا جواب نفی میں ہے، اس میں شبہ نہیں کہ ملک میں ایک طبقہ ایسا
بھی موجود ہے جو ان خرابیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور اس سے عوام
میں اور زیادہ بددلی اور بداعتمادی پھیلانے کا موجب بنتا ہے۔دنیا میں جو
قومیں انسانی معاملات کو سلجھانے کے لئے شعور و بلوغت کا راستہ نہیں
اپناتے، ان میں فی الواقعہ ناامیدی اور بے بسی کی آخری حد پیدا ہوجاتی ہے،
ان کے لئے اس کے سوا چارہ ہی نہیں رہتا کہ وہ یہ کہہ کر مایوس ہوجائیں کہ
ان مشکلات پر قابو پالینا ہماری دسترس سے باہر ہے۔ لیکن ایسے لوگ بھی موجود
ہوتے ہیں جو کسی بھی حالا ت میں مایوس نہیں ہوتے۔ ان کے متعلق مثال کے طور
پر یوں سمجھئے کہ کوئی جانور کتنا ہی بھوکا کیوں نہ ہو، اگر گھاس کسی ایسی
جگہ رکھی ہے جو اس کی رسّی کی لمبائی سے آگے ہے تو اس کے لئے اس کے سوا
کوئی چارہ ہی نہیں کہ وہ انتہائی مایوسی کے عالم میں اس گھاس کی طرف حسرت
ناک نگاہوں سے دیکھتا رہے اور بھوک سے مرجائے، لیکن یہی صورت کسی انسان کے
ساتھ پیش آجائے تو وہ ایسے موقع پر مایوس ہوکر نہیں بیٹھ جاتا بلکہ کسی
ایسے ذریعے کی تلاش کرتا ہے جو شے مطلوب تک پہنچ جائے۔ کیا آپ نے نہیں
دیکھا کہ جب کسی بچے کا ہاتھ بسکٹوں کے ڈبے تک نہیں پہنچتا تو وہ کسی تپائی
یا کرسی پر کھڑا ہوکر اپنے ہاتھ اس تک لے جاتا ہے۔یہی جانور اور انسان میں
واضح فرق ہے۔
بساط سیاست میں بدلتے ہوتے چہروں سے عوام میں بے زاری اس نہج پر جا پہنچی
کہ اب انہیں اپنے قرب و جوار میں ہونے والی تبدیلیوں کا احساس بھی نہیں
رہا، انہیں اپنے مسائل سے نکلنے کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں کہ کس طرح ان
بدترین حالات سے باہر نکلا جاسکتا ہے۔ ارباب ِ حل و عقد ہوں یا بے بس عوام
انہیں صرف اپنی ذات تک، جیسے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت محدود کردیا گیا
ہو۔ ورنہ جائزہ لیجئے کہ بھارت و مقبوضہ کشمیرکے مسلمانوں پر آج کل جو
قیامت گزر رہی ہے کونسا قلب حساس ہے جو اس پر خوں فشاں اور کون سے چشم
اعتبار ہے جو اب اس پر اشکبار ہوئی ہے۔ حالاں کہ آج بھی ان کے گھر بار لوٹے
جا رہے ہیں، انہیں پابند طوق ِ سلال کیا جارہا ہے، انہیں گولیوں کا نشانہ
بنایا ہے، لیکن ان کے لئے اٹھنے والی موثر آواز آج کل سوشل میڈیا میں
مخالفین کی عزتیں اچھالنے میں مصروف ہیں، سیاسی جماعتیں رسمی بانات دے کر
جیسے فرض کفایہ پورا کرلیتی ہیں، راقم کے لئے یہ امر حیرت کدہ ہے کہ بھارت
میں خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کی شان ِ اقدس میں دریدہ دہن (پناہ بخدا)
پھرگستاخی کی گئی لیکن اس پر خاموش رہنا، ظاہر کرتا ہے کہ دنیا بھر میں
اٹھنے والی متحد آواز کو جیسے کسی منظم منصوبے کے تحت بکھیر دیا گیا۔
ہندو انتہا پسند مودی سرکار نے اقلیتوں کی جان، مال عصمت اور مذہب کے تحفظ
کے دعوؤں کو خاک میں اڑا دیا ہے، بھارت جو دنیا میں اپنی نام نہاد وسعت ظرف
اور کشادہ نگہی کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتا تھا، اب اس میں باب میں دنیا
کے سامنے وہ پوری طرح آشکار ہوچکا کہ انہیں قوت کے نشے میں اس کا ہوش ہی
نہیں کہ انسانیت کسے کہتے ہیں۔اور شرافت کس جنس کا نام ہے۔پاکستان میں رہنے
والے مسلمانوں پر اب حیرت ہوتی ہے کہ دور غلامی میں آپ کی یہ حالت تھی کہ
اگر سمرنا کے کسی یتیم کے پاؤں میں کانٹا چبھ جاتا تو ہندوستان کے شہروں
اور گاؤں میں آپ پر راتوں کی نیند حرام ہوجایا کرتی تھی، لیکن آزادی کے کچھ
دہائیوں کے بعد اب ایسی حالت ہوگئی ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں
مسلمانوں پر اس قدر بے پناہ مظالم ہو رہے ہیں اور اب کسی کے کان پر جوں تک
نہیں رینگتی۔
اگر آزادی کا یہی اثر ہے تو اس آزادی سے وہ غلامی ہزار درجے اچھی تھی، جس
میں دلوں میں اسلام کی غیرت اور مظلوموں سے ہمدردی کے جذبات موجزن رہتے
تھے، کیا آپ وہی نہیں نامو س ِ رسالت ﷺ کے تحفظ کے لئے اپنی جانیں تک قرباں
کردیا کرتے تھے۔ اب آپ کی حمیت کو کیا ہوگیا؟۔ اگر آپ کا احساس (بے حسی) کا
یہی عالم ہے تو اس زندگی سے موت ہزار درجہ بہترہے جو دل ناموس ِ رسالت ﷺ کے
تحفظ اور مظلوموں کی امداد کے لئے دھڑکتا نہیں اس کی حرکت جتنی جلدی بند
ہوجائے اچھا ہے۔ اب اس امر پر غور فرمائے کہ یہ سب کیا ہے؟۔ کیا ہمیں ایک
سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ جیسے بدترین حالات
اور بحران پیدا کرنے والوں کا مقصد ہی یہی تھا کہ یہ کسی کی فکر تو کیا
اپنی اساس کی قدر کو بھی بھول جائیں اور انسان سے جانور بن جائیں۔
|