لاوارثوں کا وارث عبد الستار ایدھی 88سال زندہ رہنے کے
بعد 8 جولائی 2016 کو ہمیں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئے جو خدمت خلق کے
شعبہ میں پاکستان اور دنیا کی جانی مانی شخصیت تھے پاکستان میں خدمت کا جو
مشن انہوں نے شروع کیا وہ ناقابل فراموش اور ناقابل یقین کام تھا ایک لاکھ
سے زائد لاشوں کو اٹھا کر کفن دفن کرنے والے ایدھی صاحب کو لاہور مال روڈ
کے ریگل چوک میں کپڑا بچھا کر چندہ اکٹھا کرتے میں میں نے بھی دیکھا کیا
خوبصورت انسان تھے ایک پیسہ سے لوگوں کی خدمت کرنے والے ایڈھی نے ثابت
کردیا کہ انسان کسی بھی شعبہ میں کام کرکے دنیا میں نام کمانا چاہے تو کوئی
مشکل نہیں اپنی محنت اور خدمت سے ایدھی فاؤنڈیشن کو نہ صرف پاکستان کی صف
اول کی این جی او بنایا بلکہ دنیا کے سب سے بڑی خدمت گار ادارے کے طور پر
بھی اپنا آپ منوایا ایدھی فاؤنڈیشن کی شاخیں تمام دنیابھر میں پھیلی ہوئی
ہیں ایدھی صاحب کی وفات کے بعد انکی بیوی محترمہ بلقیس ایدھی بلقیس ایدھی
فاؤنڈیشن کی سربراہ بنی دونوں کو 1986 میں عوامی خدمات کے شعبہ میں رامون
ماگسیسے ایوارڈ سے نوازا گیابلقیس ایدھی صاحبہ کے بعد اب انکے بیٹے فیصل
ایدھی اس مشن کو لیکر پاکستانیوں کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں عبد الستار
ایدھی یکم جنوری 1928میں بھارتی ریاست گجرات میں پیدا ہوئے آپ کے والد کپڑے
کے تاجر تھے جو متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے عبدالستار ایدھی پیدائشی لیڈر
تھے اور شروع سے ہی اپنے دوستوں کے چھوٹے چھوٹے کام کرتے رہتے تھے جب ان کی
ماں ان کو اسکول جاتے وقت دو پیسے دیتی تھی تو وہ ان میں سے ایک پیسا خرچ
کر لیتے تھے اور ایک پیسا کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے خرچ
کردیتے تھے گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی ماں کی دیکھ بھال کا کام
سنبھالا جو شدید قسم کے ذیابیطس میں مبتلا تھیں چھوٹی عمر میں ہی انہوں نے
اپنے سے پہلے دوسروں کی مدد کرنا سیکھ لیا تھا جو آگے کی زندگی کے لیے
کامیابی کی کنجی ثابت ہوئی۔ 1947 میں تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان بھارت
سے ہجرت کر کے پاکستان آیا اور کراچی میں آباد ہوئے۔ 1951 میں آپ نے اپنی
جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اسی دکان میں آپ نے ایک ڈاکٹر کی
مدد سے چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی جنہوں نے ان کو طبی امداد کی بنیادی باتیں
سکھائیں اس کے علاوہ آپ نے یہاں اپنے دوستوں کو تدریس کی طرف بھی راغب کیا
آپ نے سادہ طرز زندگی اپنایا اور ڈسپنسری کے سامنے بنچ پر ہی سو جاتے تاکہ
بوقت ضرورت فوری طور پر مدد کو پہنچ سکیں۔ 1957 میں کراچی میں بہت بڑے
پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی جس پر ایدھی نے فوری طور پر شہر کے نواح میں
خیمے لگوائے اور مفت ادویات فراہم کیں اس موقعہ پر مخیر حضرات نے ان کی دل
کھول کر مدد کی اور ان کے کاموں کو دیکھتے ہوئے پاکستان بھر سے لوگوں نے
اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے اور پھر اسی امدادی رقم سے انہوں نے وہ پوری
عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری تھی اور وہاں ایک زچگی کے لیے سنٹر اور نرسوں
کی تربیت کے لیے اسکول کھول لیا اور یہی ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز تھا اس کے
بعد ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان کے باقی علاقوں تک بھی پھیلتی گئی جب کراچی میں
فلو کی وباپھیلی تھی اس وقت ایک کاروباری شخصیت نے ایدھی صاحب کو کافی بڑی
رقم کی امداد دی سے انہوں نے ایک ایمبولینس خریدی جس کو وہ خود ہی چلاتے
تھے آج ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس سینکڑوں ایمبولینسیں ہیں جو ملک کے طول و عرض
میں پھیلی ہوئیں ہیں کراچی اور اندرون سندھ میں امداد کے لیے وہ خود روانہ
ہوتے تھے ایدھی فاؤنڈیشن کی حادثات پر رد عمل کی رفتار اور خدمات میونسپل
کی خدمات سے کہیں زیادہ تیز اور بہتر ہیں اسوقت ہسپتال اور ایمبولینس خدمات
کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن نے کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لیے
گھر، بلڈ بنک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں
اور اسکول کھولے ہوئے ہیں اس کے علاوہ یہ فاونڈیشن نرسنگ اور گھر داری کے
کورس بھی کرواتی ہے ایدھی مراکز کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر ایدھی مرکز
کے باہر جھولے کا اہتمام ہے تا کہ جو عورت بچے کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی
اپنے بچے کو یہاں چھوڑ کر جا سکے اس بچے کو ایدھی فاونڈشن اپنے یتیم خانہ
میں پناہ د یکر اس کو مفت تعلیم دیتی ہے۔ فاونڈیشن نے صرف پاکستان میں ہی
نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ترقی کی ہے اسلامی دنیا میں ایدھی
فاؤنڈیشن ہر مصیبت اور مشکل وقت میں اہم مدد فراہم کرتی ہے پاکستان کے
علاوہ فاونڈیشن جن ممالک میں کام کر رہی ہے ان میں سے چند نام افغانستان،
عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا اور قدرتی آفت (سونامی) سے متاثرہ
ممالک ہیں۔ 16 اگست 2006 و بلقیس ایدھی اور کبریٰ ایدھی کی جانب سے ایدھی
انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کے قیام کااعلان کیا گیا جس کے تحت دنیا کے
امیریاغریب ہویا دنیا کا کوئی بھی ملک امریکا، یو کے، اسرائیل، شام، ایران،
بھارت، بنگلہ دیش ہوں میں یہ ایمبولینس بطور عطیہ دی جا رہی ہے اورانہیں
ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان ایمبولینس کو 5 سال تک استعمال کرنے کے بعد فروخت
کرکے اس کی رقم خیراتی کاموں میں استعمال کریں فیصل ایدھی کا کہنا ہے کہ وہ
دنیا کاامیر یاغریب ملک ہووہاں مریض مریض ہی ہوتا ہے ایمبولینس کامقصد
انسانوں کی جانیں بچانا ہوتا ہے اور مجھے اس بات کی خوشی ہوگی کہ ایدھی
انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کی ایمبولینسیں نے دنیا بھرمیں انسانوں کی
جانیں بچائیں خواہ وہ لندن، نیویارک، ٹوکیو، تل ابیب، بیروت اوردمشق ہوں اس
طرح انسانیت کی بین الاقوامی خدمت کے حوالے سے ہمارا ایک قدم اورآگے بڑھ
رہا ہے۔ پاکستان کے علاوہ اسلامی دنیا میں بھی ایدھی نے ایک غیر خود غرض
اور محترم شخص کے طور شہرت پائی ہے شہرت اور عزت کے باوجود انہوں نے اپنی
سادہ زندگی کو ترک نہیں کیا وہ سادہ روایتی پاکستانی لباس پہنتے ہیں جو صرف
ایک یا دو ان کی ملکیت تھے اس کے علاوہ ان کی ملکیت کھلے جوتوں کا ایک جوڑا
جسے انہوں نیبیس سال استعمال کیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کا
بجٹ ایک کروڑ وں کاتھا جس میں سے وہ اپنی ذات پر ایک پیسا بھی نہیں خرچ
کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ آج ایدھی فاؤنڈیشن ترقی کی راہ پر گامزن ہے ایدھی
مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ پاکستان کے ہر 500 کلو میٹر پر
ہسپتال تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ گرچہ ان کو احترام کے طور پر مولانا کا لقب
دیا گیا ہے لیکن وہ ذاتی طور پر اس کو پسند نہیں کرتے انہوں نے کبھی کسی
مذہبی اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کی وہ اپنے آپ کو ڈاکٹر کہلوانا پسند کرتے
ہیں کیونکہ انہیں انسانیت کی خدمات پر پاکستان میں انسٹیٹوٹ آف بزنس
ایڈمنسٹریشن سے ڈاکٹری کی اعزازی سند ملی ہوئی تھی وہ اس بات کو بھی سخت
ناپسند کرتے تھے کہ لوگ ان کی یا ان کے کام کی تعریف کریں وہ حکومت یا
کسیجماعتوں سے امداد بھی نہیں لیتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی امداد
مشروط ہوتی ہے اسی لیے ضیاء الحق اور اطالوی حکومت کی امداد انہوں نے واپس
کر دی تھی ایدھی بذات خود بغیر چھٹی کیے طویل ترین عرصہ تک کام کرنے کے
عالمی ریکارڈ کے حامل ہیں اور ریکارڈ بننے کے بعد بھی انہوں نے انسانیت کی
خدمت سے ایک دن کی چھٹی نہیں لی اب انکے نقش قدم پر انکے بیٹے فیصل ایدھی
اور لاہور میں ایدھی صاحب کے عاشق اور دیوانے فیصل جلال انسانیت کے اسی مشن
کو لیکر آگے چل رہے ہیں جوعبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی کا تھا ۔
|