بی جے پی حکومت مسلم "چہرہ مُکت" ہوگئی

ملک میں گزشتہ چند سال سے جس طرح کے حالات پیدا کیے گئے ہیں،وہ اظہر من الشمس ہیں ،انتظامیہ،پولیس،ذرائع ابلاغ پر شکنجہ کسنے کے بعد عدلیہ پر بھی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش جاری ہے،کیونکہ کئی معاملات اور فیصلے کبھی کبھی سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ آخر سیاسی اور سماجی سطح پر کس طرح کی منصوبہ سازی کی جارہی ہے،شمال سے لیکر جنوبی ہند تک صرف اور صرف اقلیتی فرقے کو ٹارگٹ کیا جارہاہے، پیغمبر اسلام اسلام کی شان میں گستانی کرنے والی بی جے پی کی معطل شدہ تر جمان نوپور شرما کو سپریم کورٹ نے سخت پھٹکار لگائی،لیکن وہ دیدہ دلیری سے آزاد ہے جبکہ خبر کی سچائی کو پیش کرنے والے صحافی زبیر کو ضمانت تو مل رہی ہے،لیکن جیل سے رہائی ممکن نہیں ہورہی ہے ۔نوپور کے معاملہ میں احتجاج کرنے والے جیلوں میں ٹھونس دیئے گئے اور "اگنی پتھ" کے پُر تشدد "مظاہرین آزاد ہیں۔

نوپور شرما کے معاملے میں سپریم کورٹ نے تو یہ تک کہہ دیاکہ پورے ملک سے معافی مانگنی چاہئیے اور "ادے پور میں جوالمناک واقعہ پیش آیا ہے ،اُسکی ذمہ دار بھی نو پور شرم ہی ہے۔ جو کچھ ہوا وہ بہت زیادہ شرم ناک ہے ۔ انھیں پورے ملک سے معافی مانگنی چاہئے۔عدالت عظمیٰ کے ان سخت ترین تبصروں کے باوجود اُن کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی ہے۔البتہ احتجاج کرنے والے اور بیان دینے کے خلاف فورآ ایف آئی آر کرنے میں کسی طرح کی تاخیر نہیں کی جارہی ہے ۔حال میں ایک پاکستانی صحافی کے سابق صدر جمہوریہ حامد انصاری کے بیرونی ملک پریس کانفرنس میں مبینہ شرکت پر ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز رہی شخصیات پر بی جے پی حملہ آور ہے۔

ان دوپیراگراف کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ سب ایک عام سی بات ہے،مسلمان ایک حد تک سہم گیا ہے،لیکن اس کے ساتھ حال میں خطرناک پہلو بھی اجاگر ہوا ہے،جب مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور اور حج واوقاف مختار عباس نقوی نے مودی کابینہ سے استعفیٰ دے دیااور ظفرالاسلام کی راجیہ سبھا کی رکنیت بھی ختم ہوگئی،اس کے ساتھ بی جے پی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور مرکزی کابینہ سے مسلم "،مکت" ہوگئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اُن کے استعفیٰ سے مودی حکومت میں کوئی مسلمان نہیں بچاہے۔اس 10،جولائی کو اُن کی راجیہ سبھا کی مدت ختم ہوگئی تھی۔مودی نے کابینہ کی میٹنگ میں اُن کے کام کاج کی تعریف کی تھی۔جس کے بعد یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ بی جے پی اب انہیں راجیہ سبھا کی رکنیت نہیں دے گی۔

مختار عباس نقوی کے بعد مرکزی حکومت میں کوئی بھی مسلمان چہرہ نہیں رہا ہے،بلکہ جائزے سے پتہ چلا ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد پہلی مرتبہ مرکزی حکومت میں کوئی بھی مسلمان چہرہ نہیں ہے،نقوی کے ساتھ ساتھ ایم جے اکبر،ظفرالاسلام،کی بھی رکنیت ختم۔ہوچکی ہے اور پارلمینٹ کے دونوں ایوانوں میں بی جے پی تقریباً چار سو اراکین میں ایک بھی مسلمان ممبر نہیں ہے۔حالانکہ صدر جمہوریہ کے کوٹہ سے نامزد کیے جانے ممبران کی سات نشستیں خالی ہیں۔آخر یہ کیا سیاسی کھیل کھیلاجارہاہے ۔

ہم بتادیں کہ بی جے پی بڑی تنددہی سے مستقبل کی انتخابی عملی طے کررہی ہے۔اس نے حال میں۔ اُس کاتجربہ بھی کیاہے، اترپردیش، سمیت پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے دوران حجاب اور حلال جیسے کئی مسائل کو خوب اچھالا گیا ،تاکہ فرقہ وارانہ مسائل کے پس پردہ مہنگائی ،بے روزگاری اور دیگر عوامی پریشاغکو چھپا دیا جائے۔جسمیں مودی سرکار اور بی جے پی کوایک حد کامیابی بھی ملی ہے۔جبکہ دوسرا کام مدھیہ پردیش اور کرناٹک کے بعد حال میں مہاراشٹر میں ادھوٹھاکرے کی قیادت میں مہاراشٹر وکاس اگھاڑی سرکار کا گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کی مدد سے تختہ الٹ دیا گیا ہے ۔اب صرف ایکناتھ شندے اور دیوندر فڈنویس کی دورکنی حکومت کام کررہی ہے،جس سے میڈیا بھی چشم پوشی کیے ہوئے ہے۔

مرکزی حکومت میں واحد مسلم چہرہ رہے مختار عباس نقوی، بی جے پی کی قیادت میں 2014 میں این ڈی اے کی مرکز میں حکومت تشکیل دی گئی تب مودی کابینہ میں وہ وزیر مملکت بنائے گئے اور پھر 2016 میں نجمہ ہیپت اللہ کے میگھالیہ کاگورنربنائے جانے کے بعد انہیں اقلیتی امور اور پارلیمانی امور کاوزیرآزاد چارج دیاگیا پریاگ راج یعنی آلہ آباد میں 16اکتوبر1957 میں پیدا ہوئے، نقوی 1970 کے عشرے میں بی جےپی سے وابستہ رہے ہیں۔اینرجنسی میں جیل بھی گئے۔ان کے ساتھ یہ بات تحریر کی جائے گی کہ 1998 میں رام پور جیسے مسلم اکثریتی حلقہ سے بی جےپی کی ٹکٹ پر کامیاب ہوچکے ہیں۔حالانکہ رام مندر کی بی جے پی پر چھاپ لگی تھی۔انہیں واجپئی حکومت میں وزیر مملکت بھی بنایاگیا تھا

ملک کے سیاسی حلقوں میں خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ انہیں نائب صدر جمہوریہ مقرر کیا جاسکتا ہے ،اور نہیں تو کسی بھی ریاست یا مرکزی انتظامیہ والی ریاست میں لفٹیننٹ گورنر مقرر کیا جائے۔
ویسے آگے بڑھنے سے پہلے اس جانب توجہ مبںذول کروادوں کہ مختار عباس نقوی کے بارے میں سیاسی حلقوں میں یہ کیاجارہا ہے کہ انہیں نائب صدر یا جموں وکشمیر کاگورنر بنائے جانے کاامکان ہے۔
خیال یہ بھی ہے کہ بی جے پی کسی نہ کسی مسلمان کوراجیہ سبھا کی خالی نشستوں پر نامزد کرے۔پھر بھی یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ بی جے پی 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ہم اکثریت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں ،اس لیے پارٹی لیڈر شپ نے یہ چال چلی ہے،ممکن ہے کہ یہ غلط ہو لیکن کچھ وقفہ کے لیے تو یہ پیغام عام کیا جاچکا ہے،اور اس سچائی سے بھی انکار نہیں جاسکتا ہے کہ بی جےپی حکومت ،پارلیمنٹ اور پارٹی کی سطح پر کوئی مسلمان چہرہ نہیں بچاہے،یعنی بی جے پی کو مسلمانوں سے کبھی عرصہ کے لیے "مکت" کردیاگیا ہے اور یہی سنگھ پریوار کا ایجنڈا ہے،جس پر بی جے پی عمل پیراہے۔


 

Javed Jamaluddin Javed
About the Author: Javed Jamaluddin Javed Read More Articles by Javed Jamaluddin Javed: 53 Articles with 39933 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.