افغانستان میں طالبان کے دورِ اقتدار میں امریکہ نے
امریکی ڈرون حملے کے ذریعہ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو ’’ہیل فائر،
نامی ڈرون حملہ کے ذریعہ کابل شہر کے مرکز میں نشانہ بناکر ہلاک کردیا ، اس
حملہ کی تصدیق امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے ایک بیان کے ذریعہ دی ہے انہوں
نے کہا کہ’’ القاعدہ لیڈر کی موجودگی سے متعلق واضح اور قابلِ یقین شواہد
ملنے پر حملے کی اجازت دی گئی تھی جس میں وہ انجام تک پہنچا‘‘۔ واضح رہیکہ
امریکی میڈیا کے مطابق سی آئی اے نے ایمن الظواہری کو اتوار31؍جولائی
2022کو کابل میں ڈرون حملے کے ذریعہ نشانہ بنایا اور کہا گیا ہے کہ اس
کارروائی میں کسی اور شہری کی ہلاکت نہیں ہوئی ہے، ایمن الظواہری نے
القاعدہ کے بانی قائد اسامہ بن لددین کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کی کمان
سنبھالی تھی۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ جیو نیوز کے مطابق جوبائیڈن نے بتایا کہ
انٹیلی جنس ایجنسیوں نے رواں سال اپریل میں 9/11 حملے کی منصوبہ بندی میں
شامل ایمن الظواہری کا پتہ چلا لیا تھا، انہوں نے کہا کہ وہ ہر قیمت پر
امریکہ کا دفاع کرینگے اور اپنے دشمنوں کا ہر جگہ تعاقب کرینگے،امریکی صدر
کا کہنا تھا ایمن الظواہری نے حالیہ ہفتوں میں امریکہ اور اتحادیوں پرحملے
کیلئے ویڈیوز جاری کئے تھے، صدر کا کہنا ہے کہ الظواہری کی ہلاکت سے
امریکیوں کو انصاف ملا ہے اور یہ دہشت گرد رہنما اب نہیں رہا‘۔امریکی صدر
کا کہنا تھا کہ’ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس میں کتنا وقت لگے، چاہے
آپ کہیں بھی چھپ جائیں لیکن اگر آپ ہمارے لوگوں کیلئے خطرہ ہیں تو امریکہ
آپ کو ڈھونڈ نکالے گا اور مارڈالے گا‘ ۔ دوسری جانب طالبان ترجمان ذبیح اﷲ
مجاہد نے امریکی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی اصولوں کی خلاف ورزی
قرار دیا ہے،واضح رہے کہ ایمن الظواہری کے بارے میں معلومات دینے والے
کیلئے امریکہ نے ڈھائی کروڑ ڈالر انعام کا اعلان کیا تھا،افغانستان سے
امریکی انخلا کے بعد یہ پہلی کارروائی ہے جو انخلا کا ایک سال پورا ہونے کے
موقع پر کی گئی۔جیساکہ اوپر بتایا گیا ہے کہ ایمن الظواہری نے القاعدہ کی
کمان اسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد سنبھالی تھی، اسامہ بن لادن کو
امریکہ نے ایبٹ آباد،پاکستان میں2؍ مئی 2011کو نشانہ بنایا تھا اس وقت
امریکی صدر بارک اوباما اور پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی
تھے۔القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی مبینہ طور پر امریکی خفیہ ایجنسی
(سی آئی اے ) کے ڈرون حملے میں ہلاکت پر سعودی عرب نے اس اعلان کا خیرمقدم
کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی وزارت خارجہ نے کہا کہ ایمن الظواہری
ان دہشت گردوں میں سے تھے جنہوں نے امریکہ اور سعودی عرب میں دہشت گرد
حملوں کی قیادت کی، ایمن الظواہری نے سعودی شہریوں سمیت ہزاروں بے گناہ
لوگوں کو مارا ہے۔
واضح رہے کہ اسامہ بن لادین کو القاعدہ کا چہرہ اور ایمن الظواہری کو اس کا
دماغ سمجھا جاتا تھا، جنہوں نے القاعدہ کیلئے اسٹریٹجک منصوبہ بندی کی تھی۔
بتایا جاتا ہیکہ رواں سال امریکی حکام معلومات حاصل کیں کہ ایمن الظواہری
کا خاندان ، انکی اہلیہ ، بیٹی اور بچے کابل میں ایک محفوظ گھر میں منتقل
ہوگئے تھے اور بعد میں حکام کو اسی مقام پر ایمن الظواہری کی موجودگی کا
علم ہوا۔ ایک عہدیدار کے مطابق جس وقت ایمن الظواہری کابل سیف ہاؤس پہنچے
تو ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کبھی سیف ہاؤس سے باہر نکلے یا نہیں البتہ
بالکونی میں انکی کئی بار شناخت ہوئی، جہاں وہ بالآخر مارے گئے۔ کئی ماہ کی
خفیہ معلومات کے بعد حکام نے یقین کرلیا کہ انہو ں نے ایمن الظواہری کی
درست شناخت کی ہے ، بعد ازاں اپریل میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک
سلیوان نے صدر جوبائیڈن کو اس حوالے سے بریفنگ دی تھی۔ بتایا جاتا ہیکہ
حکام نے سیف ہاؤس کی طرز تعمیر اور نوعیت کی چھان بین کی اور اسکے مکینوں
کی جانچ پڑتال کی تاکہ اس بات کویقینی بنایا جاسکے کہ امریکہ اس عمارت کی
ساخت کو نقصان پہنچائے بغیر اور شہریوں اور ایمن الظواہری کے خاندان کو کم
سے کم خطرے میں ڈالتے ہوئے اعتماد کے ساتھ آپریشن کرسکے۔ بتایا جاتا ہیکہ
حالیہ ہفتوں میں صدر جوبائیڈن نے اہم مشیروں اور کابینہ کے ارکان کے ساتھ
میٹنگز کیں تاکہ انٹلیجنس کی جانچ پڑتال کی جاسکے اور کارروائی کے بہترین
طریقہ کار کا جائزہ لیا جاسکے۔اور پھر یکم ؍ جولائی کو سی آئی اے کے
ڈائرکٹر ولیم برنزسمیت ان کی کابینہ کے اراکین نے وائٹ ہاؤس میں ایک مجوزہ
آپریشن کے بارے میں آگاہ کیا اور اس کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔ ایک
عہدیدار کے مطابق امریکی صدر نے انکی معلومات کے ذرائع اور ان کے مستحکم
ہونے، سیف ہاؤس، موسم، حالات، افغان طالبان سے تعلقات پر ہونے والے اثرات
اور آپریشن کی کامیابی کے امکانات کے حوالے سے تفصیلی سوالات کئے۔ اسی طرح
سینئر انٹرایجنسی وکلا کی ٹیم نے انٹیلی جنس معلومات کی سخت اسکروٹنی کی
اور اس بات کی تصدیق کی کہ القاعدہ کی مسلسل قیادت کی بنیاد پر ایمن
الظواہری ایک جائز ہدف ہیں۔ 25؍ جولائی کو امریکی صدر نے اپنی کابینہ کے
اہم ارکان اور مشیروں کو حتمی بریفنگ کے لئے بلایا اور اس بات پر تبادلہ
خیال کیا کہ ایمن الظواہری کی ہلاکت سے دیگر مسائل کے علاوہ طالبان کے ساتھ
امریکہ کے تعلقات کس طرح متاثر ہونگے۔امریکی عہدیدار کے مطابق تمام افراد
سے آرا طلب کرنے کے بعد جوبائیڈن نے اس شرط پر ایک محتاط اور عین موزوں
فضائی حملے کی اجازت دی کہ اس سے شہری ہلاکتوں کا خطرہ کم سے کم ہو۔ اور
پھر امریکی صدر سے منظوری حاصل کرنے کے بعدالقاعدہ سربراہ ایمن الظواہری کو
ہلاک کردیا گیا۔اس طرح 21سال کی شدید تلاش کے بعد امریکہ نے القاعدہ کے
دوسرے بڑے رہنما ایمن الظواہری کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہوا۔ اب دیکھنا
ہیکہ افغان طالبان حکمراں اور امریکہ کے درمیان ایمن الظواہری کی ہلاکت کے
بعد تعلقات کیا نوعیت اختیارکرتے ہیں ہوسکتا ہیکہ امریکی جوبائیڈن حکومت
افغان طالبان حکومت کو ایمن الظواہری کی ہلاکت پر خاموشی اختیارکرنے کی
صورت میں اپنی پالیسی میں نرمی پیدا کرتے ہوئے اسکے منجمد کئے ہوئے اثاثوں
کو بحال کرے۰۰۰ یہاں یہ بات واضح رہے کہ 21سال قبل امریکہ نے اسامہ بن
لادین کی گرفتاری اور انہیں ہلاک کرنے کیلئے افغانستان پر حملہ کیا تھا اور
اُس وقت کے افغان طالبان حکمراں ملامحمد عمر نے اپنے مہمان یعنی اسامہ بن
لادین کو کسی صورت امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا ، جس کی قیمت
انہیں اپنا اقتدار کھوکر اداکرنی پڑی لیکن امریکہ اس حملہ کے بعد اسامہ بن
لادین کو پکڑنے میں ناکام رہا البتہ دس سال بعد پاکستان میں انہیں ہلاک کیا
گیا جبکہ ملامحمد عمر کو امریکہ تلاش کرنے میں ناکام رہاآخر ملامحمد عمر
عام زندگی گزار کر خالقِ حقیقی سے جاملے۔ ادھر بیس سالہ طویل ناکام جنگ کے
بعدگذشتہ سال اگسٹ میں امریکہ نے اپنے فوجیوں کا انخلا راتوں رات عمل میں
لایا اور دیگر نیٹو افواج بھی امریکہ سے چلے گئی۔ امریکی فوج کے انخلاء کے
بعد افغان صدر اشرف غنی نے بھی ملک سے جلاوطنی اختیار کی اور پھر طالبان نے
بغیر خون خرابے کے افغان دارالحکومت کابل کو حاصل کرتے ہوئے افغانستان میں
اپنی حکومت کا اعلان کردیا۔ لیکن افغان طالبان حکومت کے ساتھ فی الحال
عالمی سطح پر کسی ملک نے بھی سفارتی تعلقات بحال نہیں کئے۔ خیر القاعدہ کے
سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد اب دیکھنا ہیکہ کون انکی جگہ لے
پائینگے اور القاعدہ مستقبل میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے گی یا پھر آہستہ
آہستہ ختم ہوجائیں گے۰۰۰
لبنان معاشی بحران کا شکار، روٹی کیلئے قطار میں طویل انتظار
لبنان کسی وقت ’’مشرقِ وسطیٰ کا سوئٹزرلینڈ‘‘ کہلایا جاتا تھا ، لیکن
2019کے بعد معاشی بحران کا شکار ہوگیا ۔ گذشتہ دنوں آئی ایک رپورٹ کے مطابق
معاشی بحران کا شکار لبنان میں شہری ایک وقت کی روٹی خریدنے کیلئے قطاروں
میں کھڑے ہو کر طویل انتظار کی اذیت سے گزر رہے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق
سنہ 2020 میں قومی قرضے کے باعث دیوالیہ ہو جانے والے لبنان کی کرنسی کی
قدر 90 فیصد تک گر چکی ہے۔ورلڈ بینک نے لبنان کے معاشی بحران کو 19 ویں صدی
کے بعد سے آنے والا بدترین بحران قرار دیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق
پانچ میں سے چار لبنانی شہری خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔بین
الاقوامی قرض دہندگان کی جانب سے نئی امداد کے اجرا سے قبل معاشی اصلاحات
کا مطالبہ کیا گیا جس کی وجہ سے مشکلات کی شکار حکومت زیادہ تر ضروری اشیا
پر سبسڈی ختم کرنے پر مجبور ہو گئی ہے تاہم گندم ابھی تک شہریوں کو کم نرخ
پر فراہم کی جا رہی ہے۔کم قیمت بریڈ اور روٹی کے نرخ بھی بڑھ گئے ہیں اور
اگر ان پر سے سبسڈی ختم کی گئی تو مزید مہنگائی کا خدشہ ہے۔ بیکریوں کی
جانب سے گندم کی ذخیرہ اندوزی شروع کیے جانے کے باعث شہریوں کو مشکلات کا
سامنا ہے۔بتایا جاتا ہیکہ بریڈ کے ایک پیکٹ کی قیمت سرکاری طور پر 13 ہزار
لبنانی پاؤنڈ مقرر ہے جبکہ یہ بلیک مارکیٹ میں 30 ہزار لبنانی پاؤنڈ کی مل
رہی ہے۔ایک شہری خلیل منصور کا کہنا ہیکہ ہم بریڈ کیلئے گھنٹوں قطار میں
کھڑے رہنے کی اذیت سہتے ہیں اور کسی دن وہ بھی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھ
پائینگے۔انکا کہنا ہے کہ’گذشتہ ہفتے ہم نے تین دن بریڈ نہیں خریدی کیونکہ
30 ہزار پاؤنڈ میں اس کو خریدنے کی استطاعت نہیں تھی۔‘یا پھر بعض اوقات
بیکریوں میں روٹی ختم ہوجاتی ہے۔سعودی عرب کی شاہی حکومت نے ایک مستحسن
اقدام کیا ہے ۔ سعودی عرب میں شاہ سلمان مرکز برائے امداد و انسانی خدمات
کے تحت شمالی لبنان میں الامل فلاحی بیکری منصوبہ جاری ہے۔ اس کے تحت ضرورت
مند خاندانوں کو روزانہ کی بنیاد پر مفت روٹی تقسیم کی جارہی ہے۔ ذرائع
ابلاغ کے مطابق شاہ سلمان مرکز نے لبنان کی عکار کمشنری اور المنیہ ڈسٹرکٹ
میں الامل فلاحی بیکری کھولی ہوئی ہے۔شمالی لبنان میں سکونت پذیر شامی،
لبنانی اور فلسطینی باشندوں کو روزانہ فی خاندان روٹیوں کے دو پیکٹ فراہم
کیے جارہے ہیں۔ یومیہ دس ہزار خاندانوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔شاہ سلمان
مرکز نے یہ پروگرام نادار خاندانوں کے معاشی حالات بہتر بنانے کی غرض سے
شروع کیا ہے۔ کھانے پینے کی بنیادی اشیاء نادارخاندانوں کو مستقل بنیادوں
پر فراہم کی جارہی ہیں۔ اسکے باوجود لبنان سخت ترین معاشی بحران کا شکار ہے
، نہیں معلوم حالات عالمی سطح پر کس ملک کو کہاں پہنچائینگے، سری لنکا اس
دور سے گزر رہا ہے اور عالمی سطح پر کئی ممالک معاشی بحران کی طرف رواں
دواں ہیں۰۰۰۰
امریکی پیٹریاٹ میزائل کی سعودی عرب کو فروختگی
امریکہ اپنیمعیشت کو بہتر اور مضبوط بنانے کیلئے عالمی سطح پر اپنے کروڑوں
ڈالرس کے ہتھیاردوسرے ممالک کو فروخت کرکے عالمی سطح پر انتشار پیدا کرتا
رہاہے۔ سعودی عرب سے ان دنوں تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں جاری ہے اور اس
میں پیشرفت بھی دکھائی دینے لگی ہے جس کا سلسلہ امریکہ نے پیٹریاٹ میزائل
اور اس سے متعلقہ آلات کی سعودی عرب کو فروخت کی منظوری سے کیا ہے۔عرب نیوز
کے مطابق منگل کو امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے بتایا کہ محکمہ خارجہ نے
سعودی عرب کے ساتھ تین ارب ڈالر مالیت کے معاہدے کی منظوری دی ہے جس کے تحت
پیٹریاٹ میزائل اور دیگر متعلقہ آلات فراہم کیے جائیں گے۔پینٹاگون کے مطابق
متحدہ عرب امارات کو دفاعی سامان فراہم کرنے کے دو ارب 25 کروڑ ڈالر کے
معاہدے کی بھی منظوری دی گئی ہے۔ اس میں امریکی دفاعی نظام ’تھاڈ‘ میزائل
(ٹرمینل ہائی ایلٹی ٹیوڈ ایریا ڈیفنس) اور تھاڈ ٹرمینل فائر کنٹرول اور
کمیونیکیشن اسٹیشن شامل ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ نے ایک نوٹس میں کانگریس کو
میزائل کی فروخت کے حوالے سے بتایا کہ ’مجوزہ فروخت سعودی عرب کے پیٹریاٹ
جم ٹی میزائلوں کے گھٹتے ہوئے ذخیرے کو مستحکم کر کے موجودہ اور مستقبل کے
خطرات سے نمٹنے کیلئے مملکت کی صلاحیت کو بہتر بنائے گی۔‘محکمہ خارجہ کے
مطابق ’یہ میزائل سعودی عرب پر سرحد پار سے حوثیوں کے بغیر پائلٹ ڈرون اور
بیلسٹک میزائل حملوں کے دفاع کیلئے استعمال کیے جاتے ہیں۔‘جیسا کہ حوثی
ڈرون اور بیلسٹک میزائل فضائی نظام اور سعودی عرب میں شہری مقامات اور اہم
انفراسٹرکچر کو نشانہ بناتے ہیں۔متحدہ عرب امارات کو دفاعی سامان کی فروخت
کے حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ ’ایک اہم علاقائی پارٹنر کی
سلامتی کو بہتر بنانے میں مدد دے کر اس کی قومی سلامتی کو مستحکم کرے گا۔
متحدہ عرب امارات مشرق وسطیٰ میں سیاسی استحکام اور اقتصادی پیشرفت کے لیے
امریکہ کا اہم شراکت دار ہے۔‘ واضح رہیکہ گذشتہ ماہ امریکی صدر جوبائیڈن نے
سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور مشترکہ اعلامیہ میں اس بات کا اعادہ کیا گیا
تھا کہ ’کئی دہائیوں سے امریکہ اور سعودی عرب کی شراکت داری خطے کی سلامتی
کیلئے مرکزی کردار ادا کرتی رہی ہے۔ دونوں ممالک ایک مزید محفوظ، مستحکم
اور خوشحال خطہ چاہتے ہیں جو دنیا کے ساتھ منسلک ہو۔‘سعودی عرب اور متحدہ
عرب امارات کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت ایران کو جوہری ہتھیار وں کی تیاری
یا اسے حاصل کرنے سے روکنا ہے۔کیونکہ دونوں فریقوں نے دوسرے ممالک کے
اندرونی معاملات میں ایران کی مداخلت، اس کی مسلح پراکسیوں کے ذریعے دہشت
گردی کی حمایت اور خطے کی سلامتی اور استحکام کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں
کو روکنے کی مزید ضرورت پر زور دیا تھا۔
ٌٌٌ***
|