سڑک ٹرانسپورٹ اور قومی شاہراہوں کے وزیر
نتن گڈکری نے نہ جانے کیا سوچ کر سیاست سے سبکدوش ہونے کی خواہش کا اظہار
کیا مگر وزیر اعظم نے موقع غنیمت جان کر ان کی من مراد پوری کردی ۔ ان کو
نہ صرف پارلیمانی بورڈ بلکہ مرکزی انتخابی کمیٹی سے بھی نکال باہر کیا گیا
۔ اس طرح پوری پارٹی سمیت سنگھ پریوار کو یہ پیغام دیا گیا کہ فی الحال
اپنے من کی بات کرنے کا حق صرف فردِ واحد کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی
اور اس کی جرأتِ رندانہ کا مظاہرہ کرے گا تو اس کو محمد زبیریا صدیق کپن
کی مانند زباں بندی کی قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ ایسےمیں اس کا مرکزی
وزیر یا پارٹی کا سابق صدر ہونا بھی کسی کام نہیں آئے گا ۔ آر ایس ایس کی
پناہ بھی اس کی حفاظت نہیں کرسکے گی ۔ سڑک اور قومی شاہراہوں کے وزیر کی
خاطر ’مارگ درشک منڈل‘ (یعنی رہنما مجلس) کا راستہ صاف کردیا جائے گا جہاں
اس کو نہ کوئی پوچھے گا اور نہ کوئی اس کی سنے گا ۔ اس قید میں گھٹ گھٹ
کرسیاسی موت کو گلے لگانے کے سوا اس کے پاس کوئی چارۂ کار نہیں ہوگا ۔
نتن کے ساتھ یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب آزادی کی 75؍ ویں سالگرہ منا ئی
جاچکی تھی ۔ لوگ باگ اسے آر ایس ایس کا بہت بڑا کارنامہ بتارہے تھے۔ یہ
کہا جارہا تھا کہ اس نے اپنی 97 سالہ جدوجہد سے ملک میں ہندو راشٹر کے قیام
کا خوب شرمندۂ تعبیر کردیا ہے۔ ایسے میں سڑک ٹرانسپورٹ اور قومی شاہراہوں
کے مرکزی وزیر نتن گڈکری کے ایک چونکانے والے بیان نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا
۔ موصوف ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کی فکری تربیت کانگریس یا دیگر سیاسی
پارٹی میں ہوئی ہواور جو اقتدار کی خاطر بی جے پی میں شامل ہوگئے ہوں
۔گڈکری نہ صرف بی جے پی کے سا بق صدر بلکہ ایک سنسکاری سنگھ سیوک ہیں۔ آر
ایس ایس کی شاکھا میں خاکی نیکر اور کالی ٹوپی کے ساتھ ان کی تصاویر ذرائع
ابلاغ کی زینت بنتی رہتی ہیں ۔ انہوں نے ملک میں موجودہ سیاسی صورتحال کے
تناظر میں کہاکہ ان کے اندر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنےکی خواہش پیدا
ہورہی ہے کیونکہ زندگی میں کرنے کے لئے سیاست کے علاوہ اوربھی بہت کچھ ہے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایوان اقتدار میں واضح اکثریت حاصل کرلینے
کے بعد آخر ایک معمر سنگھی رہنما کے اندر اس قدر مایوسی کیوں ہے؟ وہ سنگھ
کے گڑھ اوراپنے حلقۂ انتخاب میں اپنا دردِ دل ظاہر کرنے پر کیوں مجبور ہے
؎
اور بھی غم ہیں زمانے میں سیاست کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصلِ وزارت کے سوا
ملک میں آر ایس ایس کا صدر دفتر ناگپور میں ہے ۔ اسی شہر کے ایک جید سماجی
کارکن گریش گاندھی کی 75 ؍ ویں سالگرہ کے موقع پر ایک تہنیتی نشست کا
اہتمام کیا گیا ۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نتن گڈکری نے کہا کہ ان کے
خیال میں سیاست کا مقصد سماجی تبدیلی ہونا چاہیے لیکن اب وہ محض اقتدار کے
حصول کا ذریعہ بن گئی ہے۔ اس بیان کی روشنی میں سنگھ پریوار کوخود احتسابی
کرکے اپنے گریبان میں دیکھنا چاہیے کہ کیا تقریباً سو سال اسے کیوں قائم
کیا گیا تھا ؟ کیا اسی خوا ب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی خاطر اس کے رہنماوں
نے اپنی زندگی وقف کردی تھی اور مختلف قربانیاں دی تھیں ؟ اگر نہیں تو یہ
کیوں کرہوگیا کہ حصولِ اقتدار کے بعد کسی سنگھ سیوک کو یہ کہنا پڑ رہا ہے
کہ لوگ جب اس کے لئے بڑے بڑے گلدستے لاتے ہیں یا پوسٹر لگاتے ہیں تو اسے اس
سے خوشی نہیں ہوتی بلکہ وحشت یا نفرت ہوتی ہے۔ سنگھ کو اس بیزاری اور گھٹن
کا علاج تلاش کرنا ہوگا ۔
نتن گڈکری کے خطاب میں علاج تو نہیں مگر مرض کی شدت اور اس کی تشخیص کی
جانب اشارے ملتے ہیں ۔ انہوں نے کہا، ”ہمیں سمجھنا چاہیے کہ لفظ سیاست کا
کیا مطلب ہے؟آیا یہ معاشرےاور ملک کی فلاح کی خاطر ہے یا حکومت میں رہنے
کے لیے ہے۔ جب ہم مہاتما گاندھی کے دور کی سیاست پر نظر ڈالتے ہیں، تو یہ
سماجی تحریک کا حصہ تھی، لیکن اب یہ قوم کی تعمیر اور ترقی کے مقاصد سے علی
الرغم اقتدار میں بنے رہنے پر مرکو زہوگئی ہے۔گڈکری کے الفاظ میں ، ”آج
سیاست میں جو کچھ دیکھا جا رہا ہے وہ صرف اقتدار میں آنے کے بارے میں ہے
لیکن چونکہ سیاست سماجی و اقتصادی اصلاح کا ایک حقیقی ذریعہ ہے ،اس لیے
سیاست دانوں کو معاشرے میں علم و فن وغیرہ کی ترقی کے لیے کام کرنا
چاہیے‘‘۔ موصوف کے ذریعہ کی جانے والی یہ یاد دہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ
موجودہ سیاستدانوں کو سماجی ترقی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
نتن گڈکری کے مطابق موجودہ دور میں جب لفظ سیاست نے اپنا معنی، قدر اور
اہمیت کھو چکا ہے۔ یہ بات اگر درست ہے تو سوال یہ ہے کہ یہ دگرگوں صورتحال
بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کیوں رونما ہوئی؟ اس کی
مادرِ تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے اس انحطاط کو روکنے میں کیوں ناکام
رہی ؟ یا کم ازکم اس نے اس کی ا صلاح کے لیے کیا کیا ؟ گریش گاندھی کا تعلق
سنگھ سے کبھی نہیں رہا ۔ اپنی عمر پندرہ سال این سی پی میں گزارنے کے بعد
انہوں نے 2014میں پارٹی سے استعفیٰ دے کر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی
تھی ۔ انہوں نے ناگپور شہر میں رشٹروادی کے مقامی صدر رکن قانون ساز کونسل
تھے ۔ انہیں افسوس تھا کہ وہ اس طویل عرصہ میں پارٹی کے لیے متوقع سیاسی
کام نہیں کرسکے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اپنے دوست دتاّ میگھے کی طرح
بی جے پی میں چلے جائیں گے انہوں نے صاف انکار کردیا تھا ۔اس کے باوجود
گڈکری نے آخر ڈاکٹر گریش گاندھی کے بارے میں یہ کیوں کہا کہ وہ سیاست کی
اصل تعریف پر عمل پیرا ہیں اور سماجی شعور کو بیدار کرنے کے لیے سخت محنت
کر رہے ہیں؟ اس موقع پر خود صاحب اعزاز نے کہا وہ جمہوری اقدار کی بقاء کے
لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہے اور ملک جمہوریت اور سماجی ہم آہنگی کی
بنیاد پر ہی ترقی کرسکتا ہے۔
مرکزی وزیر نتن گڈکری اس طرح کے بیانات دے کر دادِ تحسین حاصل کرتے رہتے
ہیں لیکن اس سے زمینی صورتحال میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ بی جے پی کی
ڈبل انجن سرکار ہی سیاسی انحطاط کے لیے اصلاً ذمہ دار ہے لیکن بے بس سنگھ
پریوار اقتدار اور بے شمار مالی وسائل کے باوجود خاموش تماشائی بنا ہوا ہے
۔ اس سے پہلےگڈکری نے کہا تھا، 'سیاست میں بھی ہر کوئی پریشان ہے۔ اگر کوئی
ایم ایل اے ہے تو وہ افسردہ ہے کیونکہ اسے وزیر نہیں بنایا گیا۔ اگر کوئی
وزیر ہے تو وہ دکھی ہے کیونکہ اسے اچھا قلمدان نہیں دیا گیا۔ اگر محکمہ
اچھا ہے تو اسے دکھ ہے کہ اسے وزیراعلیٰ نہیں بنایا گیا اور جو وزیراعلیٰ
بنا ہوا ہے اسے اس بات کی فکر ہے کہ اسے کب ہٹایا جائے گا؟ ‘ مہاراشٹر کی
موجودہ صورتحال پریہ تبصرہ من و عن چسپاں ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے وزیر اعلیٰ
اور ان کے نائب کی حلف برداری کے تقریباً چالیس دنوں بعد تک وزراء کے نام
کا اعلان نہیں ہوا کیونکہ ہر رکن اسمبلی کی وہی کیفیت تھی جو اوپر بیان
ہوئی ہے۔ وزارتوں کی تقسیم میں کافی وقت لگا اور اس کے بعدبھی خوشی کم
لوگوں کو ہوئی ناراض زیادہ ہوئے۔ اس بار منگل پرساد لودھانامی بلڈر کو
بنادیا گیا جس کو عوامی فلاح و بہبود کے لیے فرصت ہی نہیں اور چندر کانت
پاٹل کی ناؤ فڈنویس کی چاپلوسی اور وفاداری نے پار لگائی ۔
سیاسی انحطاط کے اس عروج سے نمٹنے کی خاطر بی جے پی کے پاس موجود جادو کی
چھڑی کا نام نریندر مودی ہے ۔ پارٹی کا دعویٰ ہے کہ مودی ہے تو ممکن ہے
لیکن سچائی یہ ہے کہ سارا فساد انہیں کی ہی وجہ سے ہے۔ آر ایس ایس کے
سربراہ موہن بھاگوت نے ابھی حال میں اعتراف کیا کہ ایک رہنما تنہا ملک کو
درپیش سارے چیلنجس سے نہیں نمٹ سکتا ،چاہے وہ کتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو ۔
کوئی ایک تنظیم یا پارٹی ملک میں تبدیلی نہیں لاسکتی ۔ اس بیان میں صاف
اشارہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی سمیت آر ایس ایس کی جانب ہے۔
بھاگوت نے اعتراف کیا کہ تنظیم یا رہنما معاون تو ہوسکتے ہیں لیکن عوام اس
کے لیے کھڑا ہونا ہوگا ۔ انہوں نے کہا جنگ آزادی کا آغاز 1857میں ہوا
لیکن اسے کامیابی اس وقت ملی جب عوام میں بیداری آئی اور عام لوگ سڑکوں پر
اترے۔ آزادی کی جنگ میں انقلابیوں نے حصہ لیا ۔ سبھاش چندر نے جو چیلنج
دیا اس سے عوام کو حوصلہ ملا اور ہرکسی کے دل میں آزاد ی کا جذبہ پیدا
ہوا۔ بھاگوت نے مودی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ رہنما سماج نہیں بناتے
بلکہ سماج رہنما کو بناتا ہے۔ بی جے پی کی تمام تر انتخابی کامیابیوں کے
باوجود موہن بھاگوت اور نتن گڈکری کے دل برداشتہ کرنے والے بیانات فیض احمد
فیض کے اس شعر کی مانند ہیں ؎
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
|