جنوبی ایشیاء اور مشرقِ وسطیٰ تقریباً پانچ عشرے سے میدان
جنگ بنادیاگیاہے،صحافت میں داخلہ سے قبل ہی خبروں کا شوق رہا،فلسیطینوں کے
سینے میں پیوست ہونے والی گولیاں اور سات دہائیوں سے اُن پر ہونے والے راکٹ
اورمیزائل حملے اور فی الحال ڈرون حملے رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں،ان
چار_پانچ عشرے میں یہ خطہ بڑی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کاگڑھ بنارہاہے۔اس
خطہ میں اصل افراتفری کی شروعات 1970 کے عشرے میں ہوئی تھی جب یونین آف
سوویت سوشلسٹ ری پبلک (یوایس ایس آر) کی افواج افغانستان میں داخل ہوگئیں
اور کچھ عرصہ بعد ایران میں امریکی دست راست ایران کے رضا شاہ پہلوی کاتختہ
آیت اللہ خمینی کے زیر قیادت اسلامی انقلاب کے ذریعہ پلٹ دیاگیا،ایران کے
پڑوسی ملک میں روسی افواج میں داخل ہونے اور ایران سے امریکی مفادات کے
خاتمہ کے بعد عراق اور ایران کے درمیان خونریز جنگ کے آغاز نے رہی سہی کسر
پوری کردی۔دوسُپر پاور آمنے سامنے کھڑے نظر آئے،سوویت یونین اور امریکہ کے
باہم سرد جنگ اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی ،
دراصل ایران سے امریکی تسلط کے خاتمے اور افغانستان میں روسی افواج کی
موجودگی سے امریکہ کاتلملاجانافطری امر تھا،سو امریکی حکمرانوں نے ہجرت
کرکے پاکستانی علاقے میں پہنچے افغان نوجوانوں کو مسلح کرکے 'مجاہدین"
کانام دے کر ایک مسلح فوج تیار کروائی جوجدید اسلحہ سے لیس تھی اور روسی
فوج سے نبردآزما ہوگئی اوراُن کی گوریلامسلح لڑائی سے پہلے روسیوں اور
چاردہائیوں کے بعد امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے چھکے چھڑادیے۔دونوں خالی
ہاتھ لوٹ گئے۔ آج افغانستان طالبان کے زیر اثر ہے۔پہلے یونین آف سوویت
سوشلسٹ ری پبلک یعنی روس کے افغانستان سے ٹکرانااس کے زوال کاسبب بن
گیا۔جبکہ ایک سال قبل امریکہ بھی طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال کر رخصت ہوچکا
ہے۔روس کو 1991میں ایک بڑی قیمت چکانی پڑی،اور اس کا شیرازہ بکھر گیا۔
اُسی سابق سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گورباچوف گزشتہ منگل کو 91سال کی
عمر میں اس دار فانی ڈے کوچ کر گئے۔جن کے بارے میں مثبت سرخیاں پیش کی گئی
ہیں کہ "سرد جنگ کا خاتمہ " کرنے والاحکمراں نہیں رہا،لیکن یہ آنکھوں پر
سیاہ چشمہ لگانے والے مغربی ذرائع ابلاغ کو ایک سپر پاور کوختم کرنے والے
کا چہرہ نظر نہیں آیا،سوویت یونین کے خاتمے نے امریکہ کی دنیا پراجارہ داری
کاآغاز کیا اور 1991میں ہی عراق کی کویت پر یلغار کے بہانے مشرق وسطی پر
امریکہ فوجی کی چڑھائی اور متعدد ممالک پرتسلط بڑھ گیا اور عرب حکمرانوں نے
اُسے کھلی چھوٹ دے دی۔اسلامی فوبیا کا بڑھوادیاگیا۔
کمیونسٹ روس کے آخری رہنماء میخائل گورباچوف کو ایک عرصے تک "امریکی" ایجنٹ
بھی کہاجاتارہاہے۔ ان کےدور اقتدار کے بارے میں بھی کچھ واضح شکل نہیں اور
یہ مشکل امر ہے کہ انہیں غیر معمولی صلاحیتوں والا حکمراں قرار دیا جائے ،میرے
خیال میں ایسا نہیں کہا جاسکتا ہے ،وہ سوویت یونین کے لیے ایک ویلن بن گئے
تھے۔یہ صحیح ہے کہ دنیا سے سرد جنگ کاضرورخاتمہ ہوا ہو مگر خونی اورپُرتشدد
لڑائی کے دور کی شر و عات ہوگئی۔
یہ حقیقت ہے کہ گورباچوف کے نام کے ساتھ یہ اعزاز رہے گا کہ انہوں نے سرد
جنگ ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ،لیکن دنیا یہ۔بھی۔نہیں بھلاپائے گی۔
ان کی غلط حکمت عملی اور پالیسی کی وجہ سے سوویت یونین کا خاتمہ ہوا اور اس
میں شامل تمام روسی مملکتوں کو آزاد جمہوریہ میں تبدیل کردیا جوکہ سوویت
مملکت کی طاقت تھیں۔
ہاں مسلم دنیا کے لیے ایک مثبت پہلو یہ بھی رہا ہے کہ سات سے زیادہ مملکتوں
میں کئی ایسی تھیں جہاں کی آبادی میں مسلمانوں کی اکثریت تھی ، اُن کی طویل
فہرست ہے۔ اور یہ مملکتیں اسلامی تاریخ وتمدن اور ثقافت کا اہم ترین حصہ
رہی ہیں۔
دنیا نے دیکھا کہ 1990ء کے عشرے میں یونین کے خاتمے کے بعد دنیا پر
جانبداری اور امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے تسلط نے بے چینی اور افراتفری
کو جنم دیا،خصوصی طور پر 2001میں ہوئے 9/11کے واقعہ نے امریکہ کے حوصلے
بلند کردیئے ،القاعدہ اور طالبان کو ختم کر نے اور ایک" نئے ورلڈ آرڈر " کے
اعلان کے ساتھ عرب اور مسلم ممالک پر جومظالم ڈھائے اور ڈھائے جارہے ہیں
،اُس کے لیے سوویت یونین کاخاتمہ بھی سبب ہے،میخائل گورباچوف بھی ہی اس کے
لیے قصور وار رہے ہیں۔اگرسوویت یونین کا وجود برقرار رہتا تو شاید دنیامیں
الگ ہی حالات نظر آسکتے تھے،کیونکہ ایک ہی ملک کی اجارہ داری اور یورپ کی
حمایت نے گزشتہ تین عشرے سے طواف الملکی اور افراتفری کا عالم رہا ہے اور
جس پر قابو حال فی الحال ممکن نظر نہیں آرہا ہے،ان اتحادیوں کا مقصد تیل کی
دولت سے مالامال ملکوں کے حکمرانوں کا اپنے چنگل میں لے کررکھنااور تیل کی
دولت پر بالواسطہ قبضہ برقرار رکھناہے۔تیل اُن کی شہ رگ ہے،جس سے وہ منہ
موڑ نہیں سکتے ہیں۔اس کے لیے تاریخ گورباچوف کو معاف نہیں کرے گی، ہمارے
دورمیں روسی سربراہ کی ایک غلط حکمت عملی نے دنیا کو ایک ہی سُپر پاور کے
چنگل میں دے دیا،جس نے اپنے مفادات کو مدنظر رکھا اور انسانی حقو ق کے
اداروں اور اقوام متحدہ جیسے بلند وبالا ادارہ کو بے وقعت کردیا ہے۔جہاں
کمزور کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی ہے۔اسرائیل اور امریکہ روز اُس کی
قراردادوں کی دھجیاں اڑا رہے ہیں ۔ |