ڈینگی سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے

اسلام و علیکم، یہ کالم ڈینگی وائرس کے علاج، احتیاطی تدابیر سے متعلق تحریر کیا گیا ہے

عدنان خان بونیری

پاکستان باالخصوص سندھ میں سرکاری اسپتالوں کا انفرا اسٹرکچر تباہ حال ہے، جس سرکاری اسپتال کا دورہ کریں، وہاں مسائل زیادہ دکھائی دیں گے، گندگی غلاظت تو ان اسپتالوں کی پہچان بن گئے ہیں، کہیں پر ڈاکٹرز دستیاب نہیں تو کہیں کے ڈاکٹرز سرکاری اوقات کار میں نجی کلینکس چلاتے دکھائی دیتے ہیں، کہیں پیرا میڈیکل اسٹاف کا فقدان ہے تو کہیں ادویات نام کی کوئی چیز مئیسر نہیں، ایسے میں غریب، متوسط طبقے کا مریض سرکاری اسپتال جاکر کرے بھی تو کیا، سرکاری اسپتال کے اکثر و بیشتر ڈاکٹرز کا رویہ مریض کے ساتھ ایسا ہوتا ہے، جس سے مریض کی بیماری کے ساتھ ساتھ پریشانی بھی بڑھ جاتی ہے لہذا غریب کے پاس بحالت مجبوری نجی اسپتالوں کا رخ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا، یا معاشی حالت کے باعث وہ گلی، محلوں میں بیٹھے نیم حکیم خطرہ جان کے پاس جانے پر مجبور ہوتے ہیں، جو اکثر اوقات جان سے ہاتھ گنوانے کا سبب بن جاتا ہے، ان دنوں کراچی میں ڈینگی، ملیریا کے کیسز تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں لیکن وزیراعلیٰ سندھ اور محکمہ صحت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑرہا، صحت کے نام پر سالانہ بجٹ میں اربوں روپے کی خطیر رقم رکھی جاتی ہے لیکن یہ رقم کہاں جاتی ہے، اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں، کاغذی کارروائی میں سارے سرکاری اسپتال بہتر سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں، ادویات بھی ہوتی ہیں اور علاج بھی لیکن کس کا؟ یہ تو خود حکومت کو بھی معلوم نہیں، ڈینگی سے جہاں ہزاروں لوگ متاثر ہورہے ہیں، وہیں لوگ معاشی طور پر بھی شدید متاثر ہیں لیکن سرکاری سطح پر نہ تو اسپرے کا کوئی انتظام کیا جارہا ہے اور نہ ہی اسپتالوں میں آئسولیشن وارڈ پر کام کیا جارہا ہے، عوام اپنی مدد آپ کے تحت اپنے ٹیسٹ، علاج کرانے پر مجبور ہیں، میرا تعلق میڈیا سے ہے، ہم نے سرکاری اداروں، سرکاری افسران، بیورو کریسی کو نہایت قریب سے دیکھا ، سمجھا، جانا ہے، ان کے مزاج، کام کے انداز سے بخوبی واقف ہیں، سرکاری افسران کام نہ کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں اور کام کرنے کے الگ سے چارج کرتے ہیں، جس کو رشوت کہیں، مٹھائی کہیں یا نذرانہ، میرا مقصد کسی کی دل آزادی ہے اور نہ ہی الزام تراشی لیکن رائے اکثریت کی بنیاد پر قائم کی جاتی ہے اور ہمارے سرکاری اداروں میں اکثریت بکاو مال کی ہے، مجھے 9 ستمبر بروز جمعہ جسم میں رات گئے اچانک شدید درد ہوا، جسم منٹ، سکینڈز میں ٹوٹ سا گیا، قدرت نے ہمت عطاء کی اور بلاآخر رات گزرہی گئی لیکن وہ تکلیف ناقابل بیان ہے، صبح بیدار ہوتے ہی میں نے والد صاحب کے بھائیوں کی طرح دوست سرفراز رفیقی شہید اسپتال کے میڈیکل سپرنٹںڈنٹ اور فیملی فزیشن ڈاکٹر امیر محمد سولنگی سے بذریعہ فون مشورہ کیا، اپنی کیفیت بیان کی، انہوں نے مجھے فوری پیںا ڈول گولی کھانے اور سی بی سی کروانے کی ہدایت کی، جس کےبعد مجھے میرے بڑے بھائی گارڈن میں موجود انکل سریا اسپتال کی لیب لے گئے اور وہاں سی بی سی کروایا، جس کی رپورٹ میں پلیٹ لیٹس کاونٹ 1 لاکھ 51 ہزار کے لگ بھگ آئے، اگلے ہی روز 10 ستمبر کو میں نے رپورٹ سمیت سرفراز رفیقی شہید اسپتال جاکر ڈاکٹر امیر سولنگی اور ڈاکٹر شکیل اعوان سے ملاقات کی، ڈاکٹر صاحبان نے میری رپورٹس دیکھ کر مجھے فوری طور پر ڈینگی این ایس 1 اور ڈینگی اینٹی باڈی ٹیسٹ کروانے کا کہا، جس کےبعد مجھے دوبارہ انکل سریا اسپتال لے جاکر یہ دونوں ٹیسٹ کرائے گئے، جس میں ڈینگی رپورٹ ہوا، جس کےبعد ڈاکٹر صاحب سے واٹس ایپ پر رپورٹ شئیر کی تو انہوں نے ہدایت دی کہ آپ کو کسی اسپتال جانے کی ضرورت نہیں، ان ہدایت پر عمل کریں، ڈاکٹر شکیل اعوان صاحب نے ہدایت دی کہ آپ گھر پر بیڈ ریسٹ کریں، چلنے پھرنے سے گریز کریں، بخار کی صورت صرف 2 عدد پینا ڈول کھائیں، دن بھر فریش جوسز پئیں، خاص کر انار کا جوس لازمی شامل کریں، جس قدر ممکن ہو، جوسز پیئیں، کھانا کھانے سے گریز کریں، جسم کا پانی خشک نہ ہونے دیں، ڈی ہائیڈریشن سے بچیں، اگر کھائیں تو ہلکی پھلکی غذا جیسا کہ دہلیا، کھچڑی وغیرہ، میں نے ڈاکٹرز کی ہدایت پر من و عن عمل کیا اور ہر لمحہ، ہر پل، ہر دن، ہر رات خود میں بہتری محسوس کی، 10 سے 12 دن کے صبر آزما علاج میں ڈاکٹرز کےبعد سب سے اہم، نمایاں اور کلیدی کردار میری جنت میری والدہ محترمہ، میری بھابھی، میرے بڑے بھائی عرفان خان، میرے بھتیجے شاہ زیب خان اور کاشف خان نے ادا کیا، جس کیلئے میں ان کا ممنون و مشکور ہوں، ان کی دن رات کی توجہ، پیار، خلوص نے مجھے بیماری سے لڑنے میں مدد فراہم کی، حوصلہ بڑھایا اور مجھے اس مرض سے نجات ملی، ڈینگی سے ہرگز مت گھبرائیں، حوصلہ رکھیں، فوری ٹیسٹ کروائیں اور گھر پر رہتے ہوئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرکے علاج جاری رکھیں، آپ کو کسی اسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی یہاں ایک اہم بات ڈینگی گزارنے کے اس تکلیف دہ عمل میں زندگی نے کئی اہم سبق بھی سکھادئیے، جس میں سب سے اول اللہ رب العزت کی شکر گزاری، بندگی اور اطاعت شامل ہے، آخر میں بس اتنا کہوں گا انسان کو کبھی بھی اپنی اوقات نہیں بھولنی چاہئے، پیر ہمیشہ زمین پر رکھ کر چلنا چاہئے، زمین پر اکڑ کر مت چلو، کسی کا دل مت دکھاو، کسی کا حق نہ مارو، کسی کے خلاف سازشیں نہ کرو، زندگی نہایت مختصر ہے، ہنس کر گزاریں، خدمت خلق میں گزاریں، اگر کسی کے ساتھ اچھا نہیں کرسکتے تو برا بھی نہ کریں، اچھا کرنے والوں کے ساتھ دینا کی کوئی طاقت برا نہیں کرسکتی۔۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Adnan Bonairee
About the Author: Adnan Bonairee Read More Articles by Adnan Bonairee: 15 Articles with 13426 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.