دیو استبداد مرمو کی قبا میں پائے کوب

ملک کے اندر فی الحال دو قبائلی کرداروں کا چرچا ہے۔ ان میں سےایک کا تعلق سیاست کے سبب خاص طبقہ سے اوردوسری عام سماج کی فرد ہے ۔ دروپدی حزب اقتدار جماعت کی مدد سے صدارت کے عہدے پر فائز ہیں ہیں جبکہ بے یارو مددگار سنیتا کا سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہاں اس کی مالکن سیما پاترا کا تعلق فی الحال بی جے پی سے ضرور ہے جسے عارضی طور پر معطل کردیا گیا ہے ۔ ان تینوں کی مدد سے ملک کی موجودہ سیاسی اور سماجی صورتحال کو سمجھا جاسکتا ہے۔ وطن عزیز میں دروپدی مرمو کو پہلی قبائلی خاتون کے طور صدر مملکت کے عہدے پر فائز ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ سیما پاترا تیس سال سےسیاست میں مصروفِ عمل ہیں۔ سرکار دربار سے دور سنیتا اس حقیقت کی علامت ہے تمام تر سیاسی تماشوں کے باوجود پچھلے 75؍ سالوں میں قبائلی لوگوں کی سماجی حیثیت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی اور جب تک یہ نہیں ہوتا دکھاوے کے ناٹک بے معنیٰ ہیں۔ سنیتا پر ظلم و جور کے پہاڑ اسی سیاسی جماعت کے رہنما نے توڑے جس نے ملک میں پہلی قبائلی خاتون کو صدر مملکت بناکر ان پر احسان عظیم کرنے کا ڈھونگ رچایا۔

دروپدی مرمو کے خیال میں ان کا صدر منتخب ہونا قبائلی برادری اور خواتین کےلیے ایک تاریخی لمحہ ہے۔ اس سے ان کے اندر جوش پیدا ہوا ہے کیونکہ انہوں نے چھوٹے گاؤں کی زندگی میں بہت جد و جہد کی ہے۔ یہ تو خیر بی جے پی کی بلاواسطہ تشہیر ہے مگر پارٹی نے بلواسطہ دعویٰ کردیا کہ دروپدی مرمو کو صدر بناکر اس نے ثابت کردیا ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت قبائلیوں، خواتین اور قبائلی علاقوں میں رہنے والے طبقات کی فلاح و بہبود کے لیے فکرمند ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی علامتی حرکت کو فلاح و بہبود کی فکرمندی کا ثبوت تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ما ہرین کے مطابق سابقہ حکومتیں بھی صدر کے دفتر کو اپنی سیاست کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں لیکن موجودہ حکومت تو علامتوں کی سیاست کرنے میں بے مثال مہارت رکھتی ہے۔ ایسے میں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کیا ان لوگوں نے ملک کی عوام کو نرا بیوقوف سمجھ رکھا ہے؟ کیا سارے قبائلی ان کے جھانسے میں اتنی آسانی سے آجائیں گے۔ رام ناتھ کووند اتردیش کی دلت برادری سے تھے اس کے باوجود کیا ان کی وجہ سے زعفرانیوں کو ایک بھی پسماندہ ذات کے فرد نے ووٹ دیا تھا؟ وہ ما تویاوتی کی مجبوری تھی اس لیے انہوں نے ہاتھی کی پیٹھ پر کمل کا نشان چپکا دیا ورنہ تو یوگی جی کا بوریا بستر گول ہوچکا ہوتا۔
دروپدی مرمو کی کامیابی کا چالیسواں بھی نہیں ہوا تھا کہ جھارکھنڈ میں بی جے پی کی قبائلی دوستی کا کریہہ چہرہ 29؍سالہ سنیتا نے بے نقاب کردیا۔ سنیتا پر مظالم کا پہاڑ اگر حزب اختلاف کی جماعت سے متعلق فرد توڑتا تو بی جے پی والے بڑی ہائے توبہ مچاتے جیسا کہ دروپدی مرمو کو رشٹر پتنی کہنے پر مچایا تھا حالانکہ اگر کسی کا پتی ہونا معیوب نہیں ہے تو پتنی ہونے میں کیا مشکل ہے ۔ دروپدی مرمو کے لیے مگر مچھ کے آنسو بہانے والی سمرتی ایرانی کی زبان سے سنیتا کے لیے ہمدردی کے دو لفظ نہیں پھوٹے اور جہاں تک مودی اور شاہ کا سوال ہے وہ تو مرد ہیں ان کو درد نہیں ہوتا ۔ بی جے پی والے سینہ پھلا کر کہتے دیکھا ہم نے تو ایک قبائلی ابلہ ناری کو ملک کا صدر بنادیا اور مخالف جماعت کے لوگوں نےسنیتا کے پیر توڑکر اسے اپاہج بنادیا ۔ اس کے دانت توڑے اور چہرے کو جلایا لیکن یہ سب کرنے والی تو بی جے پی کی رہنما سیما پاترا نکل گئیں ۔

بی جے پی میں آج کل معطلی کی وباء پھیلی ہوئی ہے۔ نوپور شرما کے بعد بنسل کو معطل کرکے پارٹی سے نکالا گیا۔ اس کے بعد حیدر آباد کے ٹی راجہ کی شامت آئی اوراب سیما پاترا کو نکال باہر کیا گیا۔ بی جے پی والے اپنے کسی فردکو پارٹی سے نکال کر سمجھ لیتے ہیں کہ کفارہ ادا ہوگیا ساتھ ہی کبھی کبھار گرفتاری کا ناٹک کرکے خود کو پارسا ثابت کرنے کی سعی کرتے ہیں لیکن ان سنسکاری منو وادیوں کے چہرے پر لگے داغ ایسی ڈارمہ بازی سے چھپنے کے بجائے اور بھی زیادہ پھیل جاتے ہیں۔ سیماپاترا کے گھر میں کام کرنے والی ملازمہ پر آئی اے ایس افسر کی بیوی اور بی جے پی رہنما سیما پاترا نے اس قدر مظالم کیے کہ دو ہفتہ بعد بھی اس کے لیے اسپتال کے بستر سے اٹھنا مشکل تھا۔ اس نے اپنے وارڈ میں بھاسکر کے نامہ نگار کو بتایا کہ میڈم( سیما) چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بھی اس قدر غصہ ہوتیں کہ جو ہاتھ میں آتا اسی ماردیتی تھیں۔ یہ سلسلہ ایک سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہا۔ وہ بیچاری گملا ضلع سے سیما کے گھر جھاڑو پونچا لگانے کی خاطر آئی تھی ۔ تین سال پہلے تک ان کی بیٹی کے گھر دہلی میں خدمات انجام دیں اور جب وہاں سے لوٹ کر رانچی آئیں تو سیما کابرتاو بدل گیا اور وہ اس کے عتاب کا شکار ہونے لگی۔

سنیتا نے اپنی داستانِ الم سناتے ہوئے کہا اگر وہ کچھ دن کے لیے وہ اپنے کسی رشتے دار کے یہاں جانے کی اجازت طلب کرتی ہے تو روک دیا جاتا ہے اور دھمکی دی جاتی ہے کہ مار کر پھینک دیں گے منہ بند رکھو۔ سنیتا جب تنخواہ کے بارے میں پوچھتی تو جواب ملتا ہے بنک میں جمع کرادی ہےحالانکہ اس نے تو اب تک نہ پاس بک دیکھی ہے اور نہ اس کا اپنا آدھار کارڈ اس کے پاس ہے۔ دروپدی مرمو کے راج میں ایک قبائلی خاتون کا یہ حال ہے ۔ کیا دیگر قبائلی لوگ مرمو کی مسکراتی تصویر دیکھ کر سنیا کا درد بھرا چہرابھول جائیں گے؟ دروپدی مرمو کی طرح سنیتا بھی قبائلی خاتون تھی جو بچپن میں یتیم ہوگئی۔ 8 ویں تک پڑھنے کے بعد سا22 سال کی عمر میں 2012 کے اندر سیما پاتر کے یہاں ملازمت کے لیے آئی یعنی پچھلے دس سالوں سے وہ ان ظالموں کے رابطے میں ہیں اس کے باوجود ان کی درندگی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ اتنا طویل عرصہ کوئی خونخوار درندہ بھی اپنے دشمن کے ساتھ گزارے تو اس کے دل میں انسیت پیدا ہوجائے۔

سیما کو جب غصہ آتا تو وہ سنیتا کی کمر پر لات ماردیتی ۔ اس سے پیدل چلا نہ جاتا تو رینگ کر چلتی اور الماری یا دیوار کو پکڑ کر کھڑی ہوتی۔ اس کو بیلن ، توا، کڑھائی اور فرائنگ پین پھینک کر مارا جاتا اور چٹکے دئیے جاتے۔ سیما کو اس بات پر حیرت تھی کہ اس کو اتنا زیادہ مارنے کے باوجود اس کی مالکن تھکتی کیوں نہیں؟ حالانکہ وہ نہیں جانتی تھی کہ شیطان اور اس کی نسل کے لوگ کبھی نہیں تھکتے۔ سنیتا کو کئی دنوں تک ایک کمرے میں بند کردیا جاتا تھا۔ اس دوران ایک مرتبہ اس نے مجبوراً پوچھے والی بالٹی میں پیشاب کردی۔ مالکن کو معلوم ہوا تو اس نے مار کر گرا دیا اور منہ پر پیشاب بہایا اور ایسا دو مرتبہ ہوا۔ کیا ایسا وحشیانہ سلوک جنگل کا درندہ بھی کرسکتا ہے؟ سیما کے بیٹے آیوشمان نے اپنی ماں کی شکایت دوست وویک سے کی۔ اس نے پولیس میں ایف آئی آر درج کرائی۔ اس طرح پولیس سیما کو جیل میں اور سنیتا کو اسپتال لے گئی۔سنیتا نے کئی دنوں کےبعد سورج کو دیکھا تو اسے ایسا لگا جیسے جیل سے باہر آگئی ہے۔ سنیتا کو تو خیر رہائی نصیب ہوگئی مگر کون جانے اس جیسی کتنی قبائلی خواتین قیدو بند کا شکارہیں مگر جب تک سیما پاترا جیسے لوگ موجود رہیں گے محترمہ دروپدی کے صدر مملکت بن جانے سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
 
کوئی ناخواندہ غریب اگر ایسی حرکت کرے تو اس کی ذات ، سماج ، مذہب اور غربت کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے لیکن سیما پاترا نے ایسے تمام لوگوں کو غلط ثابت کردیا۔ وہ ایک پڑھی لکھی سنسکاری خاتون ہیں۔ اس کے شوہر مہیشور پاترا اسٹیٹ ڈیزاسٹر مینیجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے سکریٹری رہے ہیں لیکن اپنی بیوی کو اس ڈساسٹر(تباہ کاری) سے نہیں روک سکے بلکہ روکنا ضروری نہیں سمجھا۔ سیما پاترا نے1991 میں پلامو سے آر جے ڈی کے ٹکٹ پر پارلیمانی انتخاب لڑا تھا ۔ اس سے قبل وہ دو سال تک کانگریس میں رہیں اور صوبائی اکائی کے سکریٹری کا عہدہ سنبھالا۔ آگے چل کر جھارکھنڈ میں بی جے پی کو اقتدار ملا تو اس میں شامل ہوگئیں۔ وہاں پر انہیں شعبۂ خواتین کے قومی انتظامیہ کا رکن بنایا گیا۔ مودی جی کے چہیتے پروجکٹ ’بیٹی بچاو ، بیٹی پڑھاو مہم کی وہ ریاستی ناظمہ رہی ہیں۔ آزادی کے 75 سال کی تکمیل پر ہر گھر ترنگا مہم میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس کی کئی تصاویر بڑے فخر کے ساتھ اپنے سوشیل میڈیا اکاونٹ پر پوسٹ کی مگر چراغ تلے اندھیر ا گہرا ہوتا چلا گیا ۔ ان واقعات کو پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اس ملک کے غریب لوگوں کو ساڑھے سات سو سال بعدبھی شاید ہی آزادی نصیب ہو ،ہاں اس دوران مہمات ہوتی رہیں گی اور جشن منائے جاتے رہیں گے۔ سنیتا پرصدر مملکت نے ایک معمولی ہمدردی کا پیغام دینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ ان دونوں کی مجبوریوں پر علامہ اقبال کا مشہور شعر ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
دیو استبداد’ مرمو‘کی قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے’ سنیتا ‘کو کوئی نیلم پری

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449780 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.