ملک میں ایک عشرے سے جو کچھ ہو رہا ہے ،اس سے ہم تمام
اچھی طرح سے واقف ہیں اور گزشتہ سال کے آواخر اور امسال کے آغاز میں
کوویڈ19 کی پابندیاں ختم ہونے کے بعد ایک طوفان سا برپا ہے، شمال ریاست اتر
پردیش سے لیکر جنوبی ہند میں کرناٹک اور تلنگانہ جیسی ریاستوں میں بھی
سنگین حالات پیدا کردیئے گئے۔ اقلیتی فرقے کو در پیش مسائل کو نظر انداز
کرتے ہوئے اُن سے وابستہ مختلف مسائل کودانستہ طور پر چھیڑنے کی کوشش کی
گئی اور وزیراعظم نریندر مودی کی چپی سے غلط فہمیوں نے سر اٹھایا ہے،لیکن
باوثوق ذرائع کے مطابق دوسری بڑی اکثریت کے تعلیمی ،سماجی اور سیاسی
پسماندگی سے حکمراں طبقہ میں فکرمندی پائی جاتی ہے،خصوصی طور پر ابتدائی
سال میں بی جے پی کی ایک ترجمان نپورشرماکی شان رسالت میں گستاخی کے
بعدمسلم اور خلیج کے عرب ممالک وزیر اعظم مودی نے زیادہ توجہ دینے کی کوشش
شروع کی ۔
حا ل میں ایک سیاسی مسلم قدآور شخصیت سے وزیراعظم نے ملاقات کی ،جوکہ اتر
پردیش سے متعدد مرتبہ لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے ہیں ،اس ملاقات میں انہوں
نے تفصیل سے ملک کے اور خصوصاً ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل پر تبادلہ خیال
کیا ،اس موقع پر مودی جاننا چاہتے تھے کہ مسلمانوں سے کس طرح قربت حاصل کی
جائے ،اُن کے مسائل پر گفتگو کی جائے تاکہ مسلمانوں کی تعلیمی اور سماجی
ترقی پر مزید توجہ دی جاسکے۔اس ملاقات کے دوران سابق ایم پی نے مشورہ دیا
کہ ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف نیوز چینلوں اور عام طور پر چھٹ بھائیہ
لیڈروں کی بیان بازی بند کرکے اُن کی لگام کس دی جاۓ تو مسلمانوں اور بی جے
پی کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو پاٹا جاسکتا ہے۔مودی نے اس مشورے پر
خاموشی اختیار کرلی،اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کو اقلیتی
فرقے کے معاملات اور مسائل کو حل کرنے میں خاصی دلچسپی ہے،لیکن مسلمانوں کو
اُن تک پہنچنے اور پہنچانے والے نظر نہیں آتے ہیں۔یہی سب کچھ اُن کے قریبی
اور مولانا آزاد اُردو یونیورسٹی کے سابق چانسلر ظفر سریش والا ہی کہتے ہیں
اور انہوں نے ایک جلسے میں شرکت کے دوران تفصیل پیش کی اور دعویٰ کیا کہ آج
بھی بہتر انداز میں ملک کی اعلیٰ قیادت سے رجوع کیا جاسکے۔ایک ذرا سی کوشش
کو معاملے کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔پہلی کوشش پانچ شخصیات نے راشٹریہ سیوم
سیوک سنگھ ،آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کی۔پھر وہ مولانا
الیاسی کی مسجد اور ایک مدرسے کے دورے پر بھی پہنچے۔حالانکہ یہ عجیب اتفاق
ہے کہ آسام اور اتر پردیش میں مدرسوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے،اور کرناٹک
میں سازش رچی جارہی ہے۔
ویسے آر ایس ایس کے سربراہ بھاگوت کہتے رہے ہیں کہ مسلمان ہندوستان کے
مساوی شہری ہیں ،لیکن ہمیشہ یہ بات بھی جوڑ دیتے ہیں کہ اُن کی نسل یعنی ڈی
این اے ہندو ہے ،مطلب آباؤاجداد ہندو تھے۔حال میں پانچ ممتاز مسلمانوں کے
درمیان غیر متوقع ملاقات ہوئی تھی ،بظاہر یہ تسلیم کرنا چاہیئے کہ مزکورہ
افراد میں ایماندارانہ طور پر وہ پوری کمیونٹی کی نمائندگی نہیں کرتے
ہیں،بہت سے لوگوں نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے،دراصل یہ سلسلہ گزشتہ سال
سے شروع کیا گیا تھا اور فی الوقت اس میں۔ تیزی آئی ہے۔اہم سوال یہ ہے کہ
تمام متنازعہ مسائل کو صرف ایک میٹنگ میں حل نہیں کیا جا سکتا، البتہ یہ
کہا جاسکتا ہے کہ ایک پہل ہے جس کے ذریعے برف کو پگھلانے کی کوشش کی گئی ہے
۔جب تک سازگار حالات پیدا نہیں کئے جاتے ہیں اس کے بغیر کوئی بامعنی بات
چیت ممکن نہیں ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ آر ایس ایس سربراہ برسراقتدار پارٹی کے قریب ہی نہیں بلکہ اس
کا حصہ ہے۔ درحقیقت جس شخص کے پاس طاقت ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بات چیت
کو شروع کرے، اسے برقرار رکھے اور آگے لے جائے۔
یہ درست بھی ہے کہ بھاگوت نے ہجومی تشدد کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی اور
کہا تھا کہ ’’یہ لنچنگ ہندوتوا کے خلاف ہیں اور جو لوگ اس میں ملوث ہیں۔وہ
ہندو نہیں ہیں جبکہ انہوں نے ہر ایک مسجد میں شیو لنگ تلاش کرنے کی کوشش کی
ہے۔یہ درست ہے کہ حالات اتنے ابتر ہوچکے ہیں کہ سنگھ پریوار کو میدان میں
اترنا پڑا ہے۔اس بات کا علم نہیں ہوسکا ہے کہ مودی صاحب نے "ہری جھنڈی "
دکھائی ہے یانہیں۔لیکن اتنا صاف ہے کہ اکثریتی فرقے کی ووٹ بینک کی سیاست
ضرور کارفرما ہے۔
|