علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی ،مفکر،مفسرِ قرآن سر سید
احمد خان کا آج یوم پیدائش ہے ،یہ وہی سر سیداحمد خان ہیں،جنہوں نے بھارت
میں تعلیم کو الگ رنگ دیتے ہوئے مسلمانوں میں تعلیم کو عام کرنے کیلئے علی
گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔سرسیداحمدخان نے اپنی حیات میں جو خدمات
انجام دی ہیں اُسی کا پھل یہ ہے کہ آج بھی علی گڑی مسلم یونیورسٹی کے
ذریعے سے مسلمانوں کی نسل تعلیم سے فیضایاب ہورہی ہے۔یقیناً سرسیداحمد خان
نے جو سوچاتھاکہ تعلیم کو معاشرتی اصلاح کیلئے ہتھیارکے طو رپر استعمال
کیاجائے،یہ فکران کی 100 سال پہلے کی تھی۔1857 کے بعدجب بھارت میں مسلمان
تعلیمی پسماندگی کا شکارہورہے تھے اور جہالت کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے
تھےاُس وقت انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تھی۔حالانکہ
آغازمیں یہ یونیورسٹی نہیں تھی بکہ اسکول وکالج کی شکل میں آغاز ہوئی
تھی۔سرسیداحمد خان کی کوششوں سے یہی اسکول آگے چل کر یونیورسٹی میں تبدیل
ہوئی جو آج بھی دُنیا کی مشہور ترین یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔یہ بات
توہوئی قریب125 سال پہلے کی،لیکن آج پھر ایک مرتبہ بھارت کے ہر علاقے میں
سرسیداحمد جیسے مفکرین اور دوراندیشوں کی ضرورت ہے،ایسانہیں ہے کہ اس وقت
بھارت میں تعلیمی اداروں کی کمی ہے۔پہلے کےمقابلے میں آج کئی تعلیمی ادارے
موجودہیں،لیکن بیشتر تعلیمی ادارے تعلیم وتربیت کے مراکز کے بجائے تجارت کے
مرکز بنےہوئے ہیں،جس سے فائدہ کم نقصان زیادہ ہورہاہے۔خصوصاً مسلمانوں کی
تعلیم کے تعلق سے دیکھاجائے تو مسلمانوں کے یہاں معیاری تعلیمی مراکز کی
کمی بہت زیادہ ہے،آج مسلمان تعلیمی مراکز کے بجائے اُن تمام شعبوں میں
سرمایہ کاری کررہے ہیں،جس سے اُمت مسلمہ کو اجتماعی فائدہ نہیں ہورہاہے۔
مثلاً مسلمانوں کے پاس اپنے تجارتی مراکز ہیں،اپنے شادی محل ہیں،جلسہ گاہ
ہیں،جہاں پر مسلمان لاکھوں روپئے دیکر ایک دن کی تقریب کی مثال قائم کرنا
چاہتے ہیں۔حالانکہ شادی محل کا نسپٹ اسلام میں نہیں ہیں اور نہ ہی شادی
محلوں سے مسلمانوں کی کبھی فلاح وبہبودی ممکن ہے،مگر یہاں مسلمانوں کی فلاح
وبہبودی کے تعلق سے سوچنے والے کم اپنے فائدے کو دیکھنے والے بہت زیادہ
ہیں۔بعض مفکرین تو یہ کہتے ہیں کہ موجودہ وقت میں شادی محل فتنوں کے
مرکزہیں،جہاں پر نہ صرف بڑے پیمانے پر خرچوں کے ساتھ شادیاں ہوتی ہیں اور
اصراف ہوتاہے،بلکہ یہاں پر شریعت کے احکامات کی تمام دھجیاں اُڑائی جاتی
ہیں۔غرض شادی محل ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے یہاں اور بھی کئی ایسی سرگرمیاں
ہیں جو محض کچھ لمحوں کیلئے خوشیاں دیتی ہیں،لیکن وہ مستقل راحت کیلئے کوئی
ذریعہ نہیں بن پارہے۔مسلمانوں کو مستقل مزاجی سے سوچنے کی ضرورت ہے، ایسے
کاموں کو انجام دینے کی سمت میں کام کرناچاہیے،جس سے نسل درنسل فائدہ ہو جس
سے نسلوں میں روشن مستقبل کی راہیں،ہموارہوں۔مسلمان صرف تعلیمی پسماندگی کا
شکار نہیں ہورہے ہیں بلکہ بے روزگاری اور غربت کا بھی
شکارہورہےہیں۔مسلمانوں کے یہاں جو وسائل موجودہیں اُن وسائل کا استعمال
کرتے ہوئے اگر کارخانوں (فیکٹریس)صنعت کاری(انڈسٹریس)،کاآغاز کیاجاتاہے تو
اس سے ہزاروں لوگوں کیلئے روزگار کے ذریعے بنائے جاسکتے ہیں۔اب اپنے اطراف
واکناف نظریں دوڑائیں کہ کتنے کارخانے یا صنعتیں مسلمانوں کی ہیں؟آپ کو
مشکل سے ایک دو صنعتیں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی دکھائی دینگی ،مگر اس سے
مسائل کاحل نہیں نکلے گا۔اگر ٹاٹا،امبانی،ادانی جیسے لوگ صرف اپنے اہل
وایال کے بارے میں سوچتے تو وہ آج اس قدر لاکھوں لوگوں کو زورگار دینے میں
کامیاب نہ ہوتے بلکہ محدود زندگی گذارتے!۔ مسلمانوں کو محض مستقبل مزاجی کے
ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے،کامیابی خودبخود ملنے لگے گی۔سرسیداحمد خان کا
منشاء یہی تھاکہ وہ مسلمانوں جہالت سے نکال کر ترقی یافتہ قوم بنائیں،لیکن
ان کے اس خواب کو ان کے بعد کی نسلوں نے پوراکرنے میں دلچسپی نہیں دکھائی
جس کا خمیازہ آ ج پورے مسلمان اٹھا رہے ہیں۔ |