تحریر: میاں افتخار رامے لاہور
ارشد شریف ایک نہایت نفیس اور شفیق انسان تھے ، میں انہیں 2011سے جانتا ہوں۔
جب وہ دنیا نیوز میں اسلام آباد کی بیورو چیف تھے۔ اسائمنٹ ایڈیٹر ہونے کے
ناطے ان سے اچھی دوستی تھی۔ میں نے اپنا صحافتی کرئیر 2010 میں شروع کیا۔
2011 میں دنیا نیوز جوائن کیا۔ اور ایک لمبے عرصے تک وہاں اہم عہے پر ذمہ
داریاں سرانجام دیں۔ کچھ عرصے بعد ارشد شریف کو بیورو چیف اسلام آباد سے
ترقی دے کر ڈائریکٹر نیوز لاہور تعینات کردیا گیا۔ بیورو چیف اسلام آباد کے
ساتھ ساتھ وہ دنیانیوز کے پروگرام ’’کیوں ‘‘کے میزبان بھی تھے۔ لاہور
تعیناتی کے بعد ان کی پروگروام ٹیم کو بھی لاہور شفٹ ہونا پڑا۔ اس وقت ان
کا پروگرام ’’کیوں ‘‘ کی اچھی خاصی ریٹنگ تھی۔ ارشد شریف نے بطور ڈائر یکٹر
نیوز چارج سنبھالا تو تمام اسٹاف سے تعارف بھی کروایا گیا۔ کچھ لوگوں کو وہ
پہلے سے ہی جانتے تھے کیوں خبروں کی کارڈیشن کے سلسلے میں ان سے مسلسل
رابطہ رہتا اور ایک دن میں متعدد بار کنورسیشن ہوتی۔ ان لوگوں میں بھی شامل
تھا۔ وہ تقریبا 8 ماہ دنیانیوز کے ڈائریکٹر نیوز رہے ، اسی دوران ان سے
دوستی مزید گہری ہوگئی بلکے آپ کہہ سکتے ہیں کہ مزید کلوز نس ہوگی۔ ارشد
شریف اعلی تعلیم یافتہ ،محنتی اور محب وطن انسان تھے۔ ان کا ایک الگ ہی
اسٹائل تھا۔ 8 ماہ بعد انہوں نے دنیانیوز کو خیر باد کہہ دیا اور اے آر
وائے جوائن کرلیا۔ جہاں انہوں نے پاکستان ہی نہیں بلکے پوری دنیا میں اپنی
شناخت بنائی۔ مجھے رات 4 بجے سوشل میڈیا سے پتہ چلا کے انہیں قتل کردیا گیا
ہے ، لیکن مجھے یقین نہیں آیا ، میں اپنے ایک صحافی دوست کو فون کرکے پوچھا
کہ سوشل میڈیا پر ایسی خبریں گردش کررہی ہیں۔ اﷲ خیر کرے۔ تھوڑی دیر بعد
مین اسٹریم میڈیا پر خبر نشر ہوئی تو یقین کریں دل مردہ ہوگیا اور یقین
نہیں آرہا تھا کہ ایسا ہوا ہے۔ دل اس بات کو تسلیم ہی نہیں کررہا تھا۔
بوجھل دل کے ساتھ بستر پر لیٹ گیا اور دل اتنا اداس تھا کہ نیند ہی نہیں
آرہی تھی۔ دل میں عجیب وغیریب خیال آرہے تھے کہ اسے کیوں قتل کیا گیا ، کس
نے قتل کروایا ، ایک محب وطن پاکستانی کو قتل کروانے والا کون ہے۔ تب سے دل
خون کے آنسو رو رہا ہے ، ارشد شریف کی آواز دبانے کے لیے اسے کس نے ملک
چھوڑنے پر مجبور کیا؟ کیا حق و سچ بولنے کی اتنی بڑی سزا ہے ؟ ارشد شریف
پاکستانی قوم کی آواز تھا جسے خاموش کردیا گیا لیکن کیوں ؟ ذاتی رائے ہر
انسان کی ہوتی ہے۔ آزادی رائے کا حق ہر شخص کو ہے۔ اختلاف رائے سب کی ہوتی
ہے۔ اس نے ایسا کیا کردیا تھا کہ وہ موت کا مستحق ٹھہرا۔ ذہین میں اور بہت
سے سوالوں نے جنم لیا کہ جب چوری کی گاڑی کا معاملہ تھا تو ایسے میں گاڑی
کو روکنے کیلئے صرف ٹائروں پر فائرنگ کی جانی چاہیے تھی کار سواروں پر کیوں
کی گئی ؟ گاڑی روکنے کیلئے بھی ڈرائیور کے بجائے ساتھی کو کیوں نشانہ بنایا
گیا ؟ پولیس کا دعوی ہے کہ ناکہ توڑا گیا جبکہ کار چلانے والے ساتھی نے
بیان دیا کہ صرف کچھ پتھر پڑے تھے، اہلکار موجود نہیں تھے اس لئے گاڑی نہیں
روکی۔اگر بیرئیر تھا اور پولیس اہلکار موجود تھے تو کیا ذہن یہ بات تسلیم
کرتا ہے کہ ارشد شریف ناکہ توڑنے کی حماقت کرے گا ؟کینیا کے اخبار کے مطابق
ارشد شریف کے ساتھی نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ اور ارشد شریف ڈویلپرز تھے
اور اسی سلسلے میں اس علاقے میں آئے تھے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ارشد
شریف برطانیہ جیسے محفوظ علاقے کو چھوڑ کر کینیا میں کیوں آیا ؟ جبکہ وہ
اچھی طرح جانتے تھے کہ کینیا کا حال پاکستان سے بھی زیادہ برا ہے۔ . ارشد
شریف یو اے ای سے برطانیہ چلے گئے تھے اور ویزا ختم پونے پر انہیں واپس یو
اے ای آنا پڑا۔ کیوں یو اے ای سے ویزا جلدی ایکسٹنڈ ہو جاتا ہے۔ مگر افسوس
یو اے ای کی گورنمنٹ نے ارشد شریف کو بلوایا کر کہا کہ ہمیں پاکستان کی طرف
سے کہا گیا ہے کہ آپ پاکستان کو مطلوب ہیں ، ونٹڈ ہیں۔ اس لیے آپ کو
پاکستان ڈی پورٹ کیا جائیگا لحاظہ آپ چوبیس گھنٹے میں یو اے ای چھوڑ دیں۔
ورنا آپ کو ڈی پورٹ کیا جائے گا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ چوبیس گھنٹے میں کسی
اور ملک کا ویزا ملنا مشکل تھا اس لیے وہ کینیا چلے گئے۔ کیونکے کینیا کا
ویزا فری ہے۔سٹوری پر غور کریں سمجھ ہی نہیں آرہی ، کینیا میں جو ہوا اس پر
بڑے بڑے سوالیہ نشان ہیں ، مجھے یقین ہے کہ ارشد شریف کے فون نہیں ملیں گے
، فون میں سب کچھ ہے کہ وہ کس سے کیا بات کرتا تھا کس سے رابطے میں رہتا
تھا ۔ مگر مجھے علم ہے کہ اس کے فون نہیں ملیں گے۔ کہتے ہیں کہ اچانک گولی
چلی اور یہ اتفاق ہو گیا ، یہ اتفاق نہیں ہے کہ اسے دبئی سے دباؤ کے تحت
نکالا گیا اور اس کے پاس ویزا نہیں ہے تو قطر ، سری لنکا اور کینیا بچ جاتا
ہے جہاں وہ جا سکے اور آپ جانتے ہو وہ کہاں جا سکتاتھا۔بوجل دل اور آخری
اہم بات کے ساتھ اختتام کرتا ہوں کہ ہم جانتے ہیں کہ پیڈ کلنگ میں سب سے
زیادہ بدنام کینیا کی پولیس ہے۔
|