2 نومبر دن چار بجے، کچھ انٹیلکچول احباب کے ساتھ ایک
مختصر نشست تھی.ان میں ایک صاحب کی وائف کسی پرائیویٹ ہسپتال میں ایڈمٹ
تھی. میں نے عرض کیا. آپ سرکاری ہسپتال کیوں نہیں لے جاتے ہیں. پرائیویٹ
ہسپتالوں میں لے جانے کی کیا ضرورت ہے. اتنے میں دوسرے صاحب نے کہا. سر سٹی
ہسپتال میں کیسے لے جائیں. وہاں برا حال ہے. میں نے کہا، میں کب کہہ رہا
ہوں سٹی ہسپتال لے جاو. میں تو اوپر پی ایچ کیو ہسپتال کا کہہ رہا ہوں.
وہاں بہتر سہولیات ہیں. وہاں کا عملہ کافی اچھا ہے بنسبت سٹی ہسپتال کے
عملے کا.اس بات پر تمام شرکاء متفق تھے. اتنے میں اک شخص روم میں داخل ہوا.
علیک سلیک کے بعد معلوم ہوا کہ سٹی ہسپتال کا ڈاکٹر ہیں. میں نے عرض کیا کہ
ابھی ہم یہی بات کررہے تھے کہ سٹی ہسپتال گلگت کا عملہ انتہائی بدتمیز ہے.
کچھ لوگوں نے پورے ہسپتال کو یرغمال بنا رکھا ہے. ڈاکٹر صاحب نے "صفا صفا"
کہہ دیا کہ آپ لوگوں کہ بات درست ہے. وہاں سفارشی بھرتیوں کی بھرمار ہے. اب
تک ان کو کوئی ٹریننگ ہی نہیں دی گئی ہے کہ مریض کو کیسے ڈیل کرنا ہے، مریض
کے اٹینڈینس کیساتھ کیا سلوک کرنا ہے. وہاں تو چھوٹا عملہ سینئر ڈاکٹروں تک
کیساتھ بدتمیزی کرتا ہے.انہیں ٹریننگ اور اخلاقی تربیت دینے کی اشد ضرورت
ہے. بہر حال احباب نے اپنے اپنے تجربات شئیر کیے. اور بہت افسوس کا اظہار
کیا. آج سٹی ہسپتال سے ڈاکٹروں کی لڑائی کی خبریں آنے لگی. اس حوالے سے میں
پہلے بھی کئی دفعہ لکھ چکا ہوں. سٹی ہسپتال گلگت میں چیک اینڈ بیلنس کی اشد
ضرورت ہے. اور تقسیم کار کی بھی. ہر آدمی کو اپنے حدود میں رہ کر کام کرنا
ہی بہتر ہوگا.کوئی بھی ہسپتال کسی خاص علاقے یا لوگوں کی جاگیر نہیں ہوتا.
یہ دور دراز سے آنے والے غریب لوگ ہوں یا شہروں میں بسنے والے لوگ. ان سب
کا مشترکہ ہوتا ہے. سٹی ہسپتال گلگت سمیت جملہ ہسپتالوں کے ذمہ داروں کو
اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا.پریشانی کے مار لوگ جب ہسپتال عملے کا بدتمیزوں
کا سامنا کرتے ہیں تو اور پریشان ہوتے ہیں.
احباب کیا کہتے ہیں؟
|