مہاراشٹر میں مہا وکاس اگھاڑی کی سرکار بی جے پی کی آنکھ
کا کانٹا تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہاں انتخاب سے قبل بی جے پی کا برسرِ
اقتدار ہونا تھا۔ دوبارہ انتخاب کے بعد بھی صوبائی اسمبلی میں سب سے زیادہ
ارکان اسی جماعت کے ہیں۔ شیوسینا جیسی قدیم حلیف کے ساتھ الیکشن میں واضح
اکثریت حاصل کرنے کے بعد یہ بات کسی کے خواب و خیال میں نہیں تھی کہ وہ
اقتدار سے محروم ہوجائے گی ۔ بی جے پی کے خیال میں شیوسینا نے اس کے ساتھ
غداری کی اس لیے اسے سبق سکھانے کی خاطر سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے
این سی پی کے رہنما اجیت پوار کے ساتھ بغیر اکثریت کے حلف برداری کرلی۔
انہیں توقع تھی کہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی میں اقتدار کی خاطر پھوٹ پڑجائے
گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اجیت پوار دوبارہ اپنی پارٹی میں لوٹ گئے اور
دیویندر فڈنویس چاروں خانے چت ہوگئے ۔ یہ بی جے پی کی بہت بڑی ناکامی تھی۔
اجیت پوار کے کلین چٹ لے کر منہ پھیر لینے پر فڈنویس کی جو حالت ہوئی اس پر
شکیل بدایونی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
جو سنا کرتے تھے ہنس ہنس کے کبھی نامۂ شوق
اب مری شکل سے بیزار نظر آتے ہیں
بی جے پی کے لیے یہ تصور بھی محال تھا کہ شیوسینا کبھی این سی پی اور
کانگریس کے ساتھ حکومت سازی کرلے گی لیکن شرد پوار نے ادھو ٹھاکرے کو وزیر
اعلیٰ بناکر وہ چمتکار بھی کردیا۔ مہاوکاس اگھاڑی کی سرکار کے بارے میں
اندیشہ تھا کہ بہت جلد اس میں شامل فریق ایک دوسرے سے لڑ پڑیں گے اور سرکار
گر جائے گی لیکن وہ بھی نہیں ہوا۔ اس کے برعکس کورونا کے نازک دور میں ایک
نہایت ناتجربہ کار وزیر اعلیٰ نے ریاست کے عوام کا دل جیت لیا اور بظاہر
ایسا لگنے لگا کہ اس مستحکم حکومت کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بلدیاتی
اور گرام پنچایت وغیرہ کے الیکشن میں بی جے پی کی مسلسل شکست فاش کے سبب اس
کی بے چینی میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہ خیال پختہ تر ہوگیا کہ آئندہ ریاستی
انتخاب میں مہاراشٹر کے اندر بی جے پی کا سپڑا صاف ہوجائے گا۔ اس کے معنیٰ
قومی سطح پر شیوسینا کے اٹھارہ ارکان پارلیمان کا این ڈی اے نکل جانا تھا ۔
بی جے پی کے اٹھارہ کی تعداد میں بھی زبردست کمی کا امکان پیدا ہوگیا تھا ۔
اس حقیقت نے دیویندر فڈنویس کے ساتھ ساتھ امیت شاہ کو بھی بے چین کردیا
تھا۔ شاہ جی کی حالت زار کا غماز یہ شعر ہے؎
انقلاب آیا نہ جانے یہ چمن میں کیسا
غنچہ و گل مجھے تلوار نظر آتے ہیں
مہاراشٹر میں تلوار کی دھار کو کم کرنے کی خاطرایک سال قبل ریاست کے وزیر
داخلہ انِل دیشمکھ کو گرفتار کیا گیا ۔ دیشمکھ کے خلاف انفورسمنٹ
ڈائریکٹوریٹ نے منی لانڈرنگ کی روک تھام ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا ۔ مرکزی
ایجنسی نے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے رہنما پر ممبئی کے سابق پولیس کمشنر
پرم بیر سنگھ نے دیگر پولیس افسران کی مدد سے شہر میں بار اور ریستوراں کے
مالکان سے پیسے بٹورنے کا الزام لگایا تھا۔انل دیشمکھ کے وکلا وکرم چودھری
اور انیکیت نکم نے ان کی عمر(72 سال )، صحت اور ان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ
نہیں ہونے کی بنیاد پر ضمانت طلب کی۔ 21 مارچ سے زیر التوا معاملہ پر
جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی سپریم کورٹ بنچ نے کہا تھا کہ ضمانت
کی درخواست کو آٹھ ماہ تک زیر التوا رکھنا آئین کی دفعہ 21 کے تحت زندگی
کے حق سے مطابقت نہیں رکھتا اس لیے مذکورہ عرضی کو جلد از جلد یعنی ایک
ہفتے میں نمٹا دیا جائے۔
عدالت عظمیٰ کی واضح ہدایت کے باوجود انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے نمائندے
ایڈیشنل سالیسٹر جنرل انل سنگھ نے ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے عدالت عالیہ
میں اصرار کیا کہ این سی پی کے رہنما کو کوئی ایسی بیماری نہیں ہے جس کا
جیل کے اسپتال میں علاج نہ ہو سکے۔ بامبے ہائی کورٹ نے اس دلیل کو مسترد
کرتے ہوئے ستمبر کے اواخر میں مہاراشٹر کے سابق وزیر داخلہ انل دیشمکھ کو
منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں گیارہ ماہ بعد ضمانت دے دی۔ مرکزی حکومت کو
جب اندازہ ہوگیا کہ اگلی سماعت میں انِل دیشمکھ کو ضمانت مل جائے گی تو
نہایت شاطرانہ انداز میں 28؍ ستمبر کو مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) نے
دیشمکھ کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری حاصل کر لی ۔ اس طرح ای ڈی سے نجات
ملی تو سی بی آئی میں پھنسا دیئے گئے یعنی آسمان سے گرے تو کھجور میں
اٹکے۔ ای ڈی اور سی بی آئی کے اس کھیل پر شکیل بدایونی کا یہ شعر صادق
آتا ہے؎
دشمن خوئے وفا رسم محبت کے حریف
وہی کیا اور بھی دو چار نظر آتے ہیں
مرکزی حکومت نے اس طرح ایک سازش کرکے ہائی کورٹ کی ضمانت کو بے اثر کردیا۔
سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کی جانب سے دائر کردہ بدعنوانی کے نئےکیس
نےانہیں ممبئی کی آرتھر روڈ جیل میں روک دیا۔ انِل دیشمکھ کے بعد این سی پی
کے دوسرے بڑے رہنما اور ترجمان نواب ملک کو(کہ جنہوں نے دیویندر فڈنویس کو
کہیں کا نہیں رکھا تھا ) اسی طرح پھنسایا گیا اور وہ بھی ہنوز جیل کی
سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ سنجے راؤت کے تناظر میں یہ تفصیل بیان کرنے کا
مقصدیہ بتانا ہے کہ حکومت اپنے مخالفین کو جیل میں رکھ کر دباو بنانے کی
خاطر کیسے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے۔کیا اس تناظر میں ان دونوں کے بعد
گرفتار ہونے والے سنجے راؤت کا ضمانت پر رہا ہوجانا تعجب خیز نہیں ہے؟
ایسے میں رہائی کے بعد ان کا بہکی بہکی باتیں کرناخلافِ توقع نہیں ہے۔ اس
صورتحال پر بے ساختہ یہ شعر یاد آجاتا ہے؎
بدلے بدلے مرے غم خوار نظر آتے ہیں
مرحلے عشق کے دشوار نظر آتے ہیں
سوال یہ ہے کہ انِل دیشمکھ اور نواب ملک کے بعد بالآخر سنجے راوت کی
گرفتاری کیوں عمل میں آئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ امسال وسط میں مہاراشٹر کے
اندر ایک بہت بڑا سیاسی زلزلہ آگیا ۔ این سی پی کو توڑنے کی ساری کوششوں
کی ناکامی کے بعد بی جے پی نےشیوسینا پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کیا ۔ ایوانِ
اسمبلی میں ادھو ٹھاکرے کے بعد دوسرے سب سے بڑے رہنما ایکناتھ شندے اپنی
پارٹی کے پندرہ اور دیگر جماعتوں کے دس ارکان کے ساتھ ممبئی سے سورت ، سورت
سے گوہاٹی ، گوہاٹی سے گوا اور وہاں سے ممبئی میں داخل ہوگئے۔ اس سفر کے
دوران ان کے ہمراہ شیوسنکوں کی تعداد پندرہ سے بڑھ کر چالیس اور جملہ ارکان
اسمبلی پچاس ہوگئے۔ اس وقت سبھی کوتوقع تھی کہ دیویندر فڈنویس وزیر اعلیٰ
اور ایکناتھ شندے ان کے نائب ہوں گے کیونکہ کہاں ایک سو پانچ اور کہاں
چالیس لیکن مشیت نے ایسا گل کھلایا کہ راجہ بھوج ہاتھ ملتا رہ گیا اور
گنگوا تیلی کے سر پر وزارت اعلیٰ کا تاج سجا دیا گیا۔ یہ فڈنویس کی اوربھی
بڑی ناکامی تھی لیکن پارلیمانی انتخاب میں فائدہ اٹھانے کی خاطر ایک کڑوی
گولی کو نگل لیا گیا۔
سنجے راؤت نے رہائی کے بعد اس بات کا اعادہ کیا کہ وزیر اعلیٰ ایکناتھ
شندے اور فڈنویس کی حکومت ’غیر آئینی‘ ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے نئی حکومت
کے کچھ فیصلوں کی حمایت بھی کردی۔ راؤت نے سیاست کے معیار پرتشویش کااظہار
والے فڈنویس کے بیان کا خیر مقدم کرکے سب کو چونکا دیا ۔ ویسے توازن قائم
رکھنے کی خاطر انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ان کی صحت اجازت دے تو وہ راہل
گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ میں شامل ہوں گے۔جیل کے باہر کی گفتگو کے
اگلے دن ادھو ٹھاکرےنے اپنے گھر پر ایک پریس کانفرنس میں سنجے کی بی جے پی
سے مصالحت کا انکار کرتے ہوئے کہا اگر ایسا کرنا ہوتا تو وہ سو سے زیادہ دن
جیل میں نہیں رہتے ۔ سابق وزیر اعلیٰ اُدھو ٹھاکرے نے مرکزی تحقیقاتی
ایجنسیوں کو ”مرکز کا پالتو“ کہہ کر ان کو قائم رکھنے کی ضرور پر سوالیہ
نشان لگا دیا ۔ سنجے راوت کو ضمانت کو منظو ری دینے والے عدالت کے فیصلے کو
انہوں نے رہنما فیصلہ قرار دیا ۔
ممبئی کے باندرہ علاقہ میں اپنی رہائش گاہ ماتوشری پر نامہ نگاروں سے بات
چیت کرتے ہوئے ادھو ٹھاکرے نے اس اندیشے کا اظہار بھی کیا کہ راؤت کو پھر
کسی جھوٹے کیس میں پھنسایا جاسکتا ہے۔ ٹھاکرے نے کہا کہ راؤت ان کے رکن
خاندان کی مانند ہیں ۔ اس کے بعد سنجے راوت نے جواب میں کہا کہ انہیں پورا
یقین تھا کہ ٹھاکرے خاندان اور پارٹی ان کی غیرموجودگی میں اہل خانہ کی پشت
پناہی کریں گے ۔وہ پارٹی کی خاطر مزید 10مرتبہ جیل جانے کے لئے تیار ہیں۔
راوت نے اعلان کیا کہ شیوسینا صرف ایک ہی ہے جس کی قیادت اُدھو ٹھاکرے کرتے
ہیں۔ صحافیوں کے ذریعہ پوچھے جانے والے تیکھے سوالات نے سنجے راؤت کو اپنی
صفائی پر مجبور کردیا ۔ اس کے باوجود انہوں نے مرکز پر تنقید سے احتراز
کرکے اپنے خوفزدہ ہونے کا اشارہ دیا۔ اس لیے کہنا پڑے گاکہ ٹائیگر لوٹ کر
تو آگیا مگر سہما ہوا ہے۔ آگےچل کر سنجے راؤت سرکس کے پنجرے میں قید
ہوجائیں گےیا آزادرہیں گے یہ تو وقت بتائے گا لیکن ادھو ٹھاکرے کے عزمِ
مصمم کو دیکھ کر یہ امید بندھتی ہے کہ وہ شکیل بدایونی کے اس شعر کے
علمبردار ہوں گے؎
ہم نہ بدلے تھے نہ بدلے ہیں نہ بدلیں گے شکیلؔ
ایک ہی رنگ میں ہر بار نظر آتے ہیں
|