حال کے دنوں میں ملک میں نچلی عدالتوں سے لیکر سپریم کورٹ
تک نے کئی مقدموں کی سماعت کے دوران بلا خوف وخطر تلخ ترین تبصرے کیے ہیں ،جن
میں گستاخ رسول نوپور شرما پر سخت ترین تبصرہ بھی شامل ہے ،اس کے بعدگوہاٹی
ہائی کورٹ کاملزمین کے خلاف بلڈوزر کے استعمال پر کھری کھری اور سپریم کورٹ
کے ذریعہ الیکشن کمیشن کی تقرری پر پھٹکار توسناتے ہوئے تبصرہ کیا ہے ،لیکن
کوئی تحریری فیصلہ نہیں دیا ہے۔جوکہ ایک افسوس ناک امر ہے۔
پہلے گوہاٹی میں ہائی کورٹ نے پولیس اور انتظامیہ کی بلڈوزر کی کارروائی پر
سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس کسی ملزم کا گھر نہیں گرا سکتی۔ پولیس
کی کارروائی کے بارے میں چیف جسٹس آر ایم چھایا کی سربراہی میں بنچ نے
کہاکہ یہ بتایا جائے کہ" فوجداری قوانین میں یہ کہاں لکھا ہے کہ کسی جرم کی
تفتیش کے دوران پولیس بغیر کسی حکم کے کسی شخص کے گھر کو بلڈوز کر سکتی ہے۔
"عدالت ناگاؤں ضلع میں 5 لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر چلانے کے معاملے کی
سماعت کر رہی تھی۔ ان 5 لوگوں پر بٹدروا تھانے میں آتش زنی کا الزام
تھا۔عدالت نے پولیس سپرنٹنڈنٹ کے وکیل سے کہا کہ" آپ کسی شخص کے خلاف کسی
بھی جرم کا مقدمہ چلا سکتے ہیں ،لیکن سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو کسی کے گھر کو
بلڈوز کرنے کا اختیار کس نے دیا؟"
دراصل اتررپردیش کے ساتھ ساتھ دیگر ریاستوں میں بھی بلڈوزر کی کارروائی کو
لے کر کافی شور مچا ہوا ہے۔ اتر پردیش میں جب پولس نے کئی مقامات پر بلڈوزر
کا استعمال کیا تو اس پر کئی سوال اٹھنے لگے۔اب قانون میں کیا کیا راہ گزر
ہے۔اس لیے عدالت نے پولیس سپرنٹنڈنٹ کے وکیل پرسخت برہمی کا اظہار کیا۔
عدالت اورانتظامیہ کی سرزنش بھی کی اور کہاکہ بلڈوزر چلانے کے لیے آپ کے
پاس اجازت ہونی چاہیے۔ آپ کسی ضلع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ہو سکتے ہیں، یہاں
تک کہ آئی جی اور ڈی آئی جی بھی ہو سکتے ہیں یا آپ کوئی بھی بڑے افسر ہو
سکتے ہیں، ہر کسی کو قانون کے دائرے سے گزرنا پڑتا ہے۔ صرف پولیس کا سربراہ
ہونے کی وجہ سے وہ کسی کے گھر میں گھس نہیں سکتے۔بلکہ چیف جسٹس نے تو یہ تک
کہا کہ اپنے عدالتی کیریئر کے دوران انہوں نے کبھی کوئی پولیس افسر نہیں
دیکھا جس نے سرچ وارنٹ کے طور پر بلڈوزر استعمال کیا۔ جج نے بڑے ہلکے پھلکے
لہجے میں کہا کہ انہوں نے روہت شیٹی کی کسی بھی ہندی فلم میں ایسا نہیں
دیکھا۔اگر ایسا کرنے دیا گیا تو اس ملک میں کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔ قانون
پر عمل کیا جائے۔ انہوں نے سوال کیا کہ بلڈوزر کی کارروائی کی اجازت کس
قانون کے تحت دی گئی۔ عدالت کی اجازت کے بغیر آپ کسی کے گھر کی تلاشی بھی
نہیں لے سکتے۔
ملک میں کچھ عرصہ سے ایسے حالات پیدا کیے گئے ہیں خاص طورپر آسام، یوپی ،ایم
اور کرناٹک میں ایک حد تک اورملک کی کئی ریاستوں میں ملزمین کے گھروں پر
بلڈوزر چلائے جانے کی کارروائی کی گئی۔پہلے سپریم کورٹ بھی ہلکاسا تبصرہ کر
چکا ہے ،لیکن گوہاٹی ہائی کورٹ کاتبصرہ اہمیت کا حامل ہے۔آپ دیکھیں گے کہ
ہائی کورٹ نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ کسی بھی فوجداری قانون کے تحت
گھروں پر بلڈوزر چلانے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ خواہ کوئی تحقیقاتی ایجنسی
کسی بھی انتہائی سنگین معاملے کی تحقیقات کر رہی ہو۔یہ بتادیں کہ گوہاٹی
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس آر ایم چھایا نے یہ ریمارکس آسام کے نگاﺅں ضلع میں
آتشزنی کے ایک معاملے میں ایک ملزم کے گھر کو مسمار کیے جانے کے معاملے کی
سماعت کے دوران دیئے ہیں۔ ہائی کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا ہے۔
دراصل ایک مقامی مچھلی تاجر شفیق الاسلام (39) کی حراست میں موت کے بعد 21
مئی کو ایک ہجوم نے بٹادروا پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی تھی۔ اسلام کو پولیس
نے آتشزدگی کے قبل از شام حراست میں لیا تھا۔ آتشزدگی کے ایک دن بعد ضلع
انتظامیہ نے اسلام کے گھر سمیت کم از کم 6 مکانات کو بلڈوز چلا کر گرا دیا
تھا۔ یہ کارروائی اسلحہ اور منشیات کی تلاشی کے دوران کی گئی تھی۔جسٹس
چھایا نے کہا کہ اگر کسی انتہائی سنگین معاملے کی تحقیقات ہو رہی ہو تب بھی
مکان کو مسمار کرنا کسی بھی فوجداری قانون کے دائرے میں نہیں آتا۔ بلڈوزر
سے مکانات کو مسمار کرنے پر سخت اعتراض کرتے ہوئے جسٹس چھایا نے کہا کہ
’کسی گھر کی تلاشی لینے کے لیے اجازت لینی پڑتی ہے۔ کل کو تو آپ کسی چیز کے
لیے اس عدالت کے کمرے کو کھود دیں گے، جانچ کے نام پر اگر کسی کا بھی گھر
گرانے کی اجازت دی گئی تو کوئی بھی محفوظ نہیں بچے گا۔ آخر کار ملک میں ایک
جمہوری نظام ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کی طرف سے داخل کردہ حلف نامہ کے
مطابق، مکان مسمار کیے جانے کے دوران ایک 0.9 ایم ایم کی پستول برآمد ہوئی۔
یہ بھی شبہ ہے کہ یہ پستول وہاں پر رکھ گئی ہو۔ انہوں نے کہا کہ گھروں پر
بلڈوزر چلانے کے مناظر فلموں میں ہوتے ہیں، لیکن ان میں بھی کارروائی سے
پہلے سرچ وارنٹ دکھایا جاتا ہے۔ جسٹس چھایا نے گھروں پر بلڈوزر چلانے کے
واقعہ کو ’گینگ وار‘ جیسا قرار دیا اور آسام کے محکمہ داخلہ کو جانچ کے
بہتر طریقے تلاش کرنے کی ہدایت دی۔اس اہم ریمارکس میں جسٹس چھایا نے سوال
کیا کہ ’قانون و انتظام‘ کے الفاظ کا ایک ساتھ استعمال کیوں کیا جاتا ہے؟
بلڈوزر چلانا قانون و انتظام کو کنٹرول کرنے کا طریقہ نہیں ہے۔ معاملے کی
مزید سماعت آئندہ ماہ ممکن ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کی تقرری پر سخت ترین تبصرہ
کیا ہے،جس کاپہلے ذکرکیا جاچکا ہے۔بتایاجاتا یے کہ مرکزی حکومت نے ایک
سنئیر کمشنر کو رضاکارانہ سبکدوشی کے بعد راتوں رات اسے منظوری دی اور نئے
الیکشن کمشنر کافوری طورپر تقرر کردیاگیااور یہ سب آنافانا ہواہے۔یہ عدلیہ
کی ستم ظرفی ہے کہ وہ تلخ تبصرہ ضرور کرتے ہیں ،لیکن فیصلہ سے احترازکرتے
ہیں اور نہ ہی اسے تحریری شکل دی جاتی ہے۔جوکہ ستم ظرفی ہے۔آئندہ امید کی
جاتی ہے کہ عدالتیں اس طرح کے ت صرے کو اپنے فیصلہ میں شامل کریں گی تاکہ
نوپور اورآسام کے ایس پی پر شکنجہ کاا جائے۔ |