چین اور سعودی عرب کے درمیان مضبوط ہوتے تعلقات سے کہیں امریکہ پریشان تو نہیں۔؟

چین کے صدر شی جن پنگ سعودی فرمانروا و خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزکی دعوت پر چہارشنبہ 7؍ ڈسمبر کو چھ سال بعد دوبارہ سعودی عرب کے سہ روزہ سرکاری دورہ پر سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچے۔ وہ پہلے عرب ۔چین سربراہی اجلاس اور چین اور خلیج تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس میں شرکت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ :’’مجھے چینی حکومت اور عوام کی جانب سے سعودی عرب کی دوست حکومت اور عوام کیلئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے‘‘۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز خادم حرمین شریفین اور چینی صدر شی جن پنگ کی ملاقات ریاض کے قصر یمامہ میں ہوئی اس موقع پر ولیعہد و وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان بھی موجود تھے۔ سعودی فرمانروا اور چینی صدر نے جمعرات کو دونوں ملکوں کے درمیان مکمل اسٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے پر دستخط کئے۔ سعودی عرب اور چین نے اپنی خارجہ پالیسی کے حصے کے طور پر اپنے تعلقات کو ترجیحی بنیادوں پر آگے بڑھانے اور ترقی پذیر ممالک کیلئے تعاون اور یکجہتی کا ماڈل قائم کرنے کے عزم کا اظہار کیاہے۔ سعودی ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں ممالک کے سربراہی اجلاس کے بعد جمعہ کو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق ’’دونوں ممالک نے اس بات کا بھی عزم کیا کہ وہ ایک دوسرے کے بنیادی مفادات، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی بھرپور حمایت جاری رکھیں گے‘‘۔ چین نے سعودی عرب کی سلامتی اور استحکام میں ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’ مملکت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی کسی بھی کوشش کی مخالفت کی جائے گی‘۔ صدر شی جن پنگ نے اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران کہاکہ چین اور سعودی عرب کے درمیان دوستی، شراکت داری اور بھائی چارے کا گہرا رشتہ ہے، سفارتی تعلقات کے قیام کے 32سال گرزنے کے بعد دونوں فریقین نے افہام و تفہیم اور حمایت کا تبادلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا آغاز 1990ء میں ہوا تھا۔ اس کے نو سال بعد یعنی1999ء میں چین کے صدر جیانگ زیمن پہلے چینی سربراہ مملکت تھے جنہوں نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔اس دورے کا سب سے اہم مقصد تیل کے اسٹریٹیجک معاہدے پر دستخط کرنا تھا۔2006میں شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز سعودی عرب کے وہ پہلے فرمانروا بنے جنہو ں نے سرکاری طور پر چین کا دورہ کیا اور توانائی کے متعدد معاہدوں پر دستخط کئے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سال باہمی تعلقات کا یہ سلسلہ اس وقت مزید مضبوط ہوا جب دونوں ممالک نے آگے بڑھتے ہوئے معاشی، تجارتی، تکنیکی اور پیشہ وارانہ تربیت کے امور کے حوالے سے معاہدے کئے۔ اسی سال یعنی2006 میں چین کے اس وقت کے صدر ہوجنتاؤ نے مملکت کاک دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے اس بات کی پیشن گوہی کی کہ ’’نئی صدی میں چین اور سعودی عرب کے تعلقات دوستی اور تعاون کا نیا باب رقم کرینگے‘‘۔ ہوجنتاؤ کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر دونوں سربراہان مملکت شاہ عبداﷲ اور ہوجنتاؤ نے متعدد معاہدوں پر دستخط کئے۔چینی صدر ہوجنتاؤ نے دوسری مرتبہ 2009میں بھی سعودی عرب کا دورہ کیا اس وقت بھی شاہ عبداﷲ بن عبدالعزیز سعودی عرب کے فرمانروا تھے ، دونوں رہنماؤں کے درمیان خطے کے معاملات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال ہوا۔واضح رہے کہ سنہ 2014میں سعودی عرب ،چین کو خام تیل کی فراہمی کے سب سے بڑے ذریعے کے طور پر سامنے آیا جبکہ اسی سال دونوں ممالک کی تجارت کا حج 69ارب ایک کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ اس کے تین سال بعد یعنی2017میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے چین کا دورہ کیا جس سے دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے ساتھ تعلقات میں مزید مستحکم ہوئے۔ اس سال 65ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔شی جن پنگ نے سنہ 2016میں سعودی عرب ، ایران اور مصر کا دورہ کیا اور اس موقع پر بھی دونوں ممالک کے درمیان سفارتی معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔ اس کے بعد 2019ء میں ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایشیاء کے دورے کے دوران چین کا دورہ بھی کیا اور چینی صدر شی جن پنگ کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔ چین جس طرح آج بین الاقوامی سطح پر اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے کوشاں نظر آتا ہے اسی طرح سعودی عرب بھی ویژن 2030 کے تحت ترقی کی نئی بلندیوں پر پہنچ کر عالمی سطح پر اپنا لوہا منوانا چاہتا ہے تو چین بیلٹ اینڈ روڈ انیشٹیو رکھتا ہے۔ دونوں ممالک اپنے اپنے طویل مدتی ترقیاتی منصوبوں کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئے مصروف عمل ہیں۔دونوں ممالک کے رہنماؤں نے ان اہداف کے حصول میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ شہزادہ و وزیر اعظم محمد بن سلمان نے چین میں پیٹروکیمیکل کمپلیکس کیلئے 10ارب ڈالر مختص کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

سہ روزہ دورے کے موقع پر شی جن پنگ نے اسٹریٹیجک باہمی اعتماد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’عملی تعاون نتیجہ خیز رہا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان بین الاقوامی اور علاقائی امور میں قریبی رابطے اور ہم آہنگی ہے‘۔چینی صدر نے سعودی عرب پہنچنے کے بعد اس بات کا اعادہ کیا کہ’ وہ طے شدہ مختلف سربراہی اجلاسوں میں شرکت کرنے اور جی سی سی اور عرب رہنماؤں کے ساتھ چین۔عرب تعلقات اور چین ۔خلیج تعلقات کو ایک نئی سطح پر بلند کرنے کیلئے کام کرنے کے منتظر ہیں‘۔واضح رہے کہ ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی عرب اور چینی کمپنیوں نے شی جن پنگ کے دورے کے دوران گرین انرجی ، گرین ہائیڈروجن ، فوٹو وولٹک انرجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، کلاؤڈ سروسز، ٹرانسپورٹیشن، لاجسٹکس، طبی صنعتوں، ہاؤسنگ اور تعمیراتی فیکٹریوں کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے 34معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔چینی صدر شی جن پنگ کا سہ روزہ دورہ سعودی عرب کو بین الاقوامی منظر نامہ پر بہت ہی اہمیت کا حامل سمجھا جارہا ہے ۔ بتایاجاتا ہے کہ خلیجی ممالک کے سربراہی اجلاس میں توانائی سے سیکیوریٹی اور سرمایہ کاری تک تقریباً 29ارب ڈالر کے معاہدوں پر بات ہوئی ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق 20عرب ممالک، عرب لیگ اور چین کے درمیان بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کو مشترکہ طور پر تیار کرنے کا معاہدہ بھی کیاگیا ہے۔ توانائی اور انفرانسٹرکچر کے شعبے میں 200منصوبے مکمل کئے گئے ہیں۔ بتایاجاتا ہیکہ سنہ 2021میں چین اور عرب ممالک کے درمیان 330ارب ڈالر کی مشترکہ تجارت ہوئی ۔ ایک ایسے وقت جبکہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ عالمی سطح پر معیشت کو تباہی کی جانب لے جارہی ہے ، آئے دن تیل کی قیمتوں میں اضافے سے دنیا بحران کا شکار ہوسکتی ہے ایسے وقت میں چین کے صدر شی جن پنگ کا دورہ سعودی عرب ، امریکہ کے لئے تشویش کا باعث بن سکتا ہے۔ چین کے ساتھ عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں استحکام امریکہ کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہوسکتی ہے۔ اب دیکھنا ہیکہ امریکہ ،چین اور عرب ممالک کے درمیان ہونے والے سربراہی اجلاسوں کے بعد کس قسم کے ردّعمل کا اظہار کرتاہے۔ ویسے حالات بدل رہے ہیں سعودی عرب ،امریکہ کے علاوہ دیگر عالمی طاقتوں سے اپنے سفارتی تعلقات کو مضبوط و مستحکم بنانا چاہتا ہے تاکہ مملکتِ سعودی عرب کسی ایک ملک کے دباؤ میں آئے بغیر ترقی کے منازل طے کرتا ہوا آگے بڑھے۰۰۰

ایران کی سنگین صورتحال پر خامنہ ای کی بہن برہم
شریعت مطہرہ صلی اﷲ علیہ و سلم نے مردو خواتین کے حقوق متعین کردیئے ہیں اور خواتین کی عصمت کی حفاظت کیلئے انہیں پردہ کا حکم نافذ کیا ہے اورعالمی سطح پر دیکھا گیا ہے کہ پردہ دار خواتین عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ مسلم خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنی مذہبی شناخت کو کسی حال دشمنانِ اسلام کی سازشوں کا حصہ بننے نہ دیں۔پردہ مسلم خواتین و لڑکیوں کیلئے ایک بہت بڑے ہتھیار کی حیثیت رکھتا ہے۔ کاش امتِ مسلمہ کی تمام خواتین و لڑکیاں اس سے سمجھتے ہوئے عملی مظاہرہ کرتیں۰۰۰ ایران میں حجاب کے معاملہ پرپُرتشدد احتجاج اور اسکے خلاف حکومت کی جانب سے سخت کارروائیوں کے بیچ ایران کے سپریم لیڈر آیت اﷲ خامنہ ای کی بہن بدری حسینی خامنہ ای نے مظاہرین کے خلاف حکومتی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہیکہ ’’میرے بھائی نے اپنے لوگوں کو مصیبتوں اور ظلم کے سوا کچھ نہیں دیا اور مجھے امید ہے کہ جلد ہی ظلم کی حکومت کو اکھاڑ پھینکا جائے گا۔‘‘واضح رہیکہ عرب عرب نیوز کے مطابق خامنہ ای کے خاندان کے بیشتر افراد 1979 میں مذہبی حکومت کے وجود میں آنے کے خلاف رہے اور اس کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ 1979 انقلاب کے بعد شاہ محمد رضا پہلوی کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تھا۔بدری حسینی خامنہ ای اور ان کے شوہر علی تہرانی پہلے بھی جب وہ 80کی دہائی میں عراق میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے ایرانی حکومت کے کردار پر تنقید کرتے رہے ہیں۔امریکی جریدے دی ٹائمز کے مطابق جب وہ 1995 میں ایران واپس ہوئے تو ان کے شوہر کو 10 سال تک قید رکھا گیا تھا۔ جن کا انتقال رواں سال اکتوبر میں ہوا۔رپورٹس کے مطابق بدری حسینی عوامی سطح پر ایرانی حکومت کی مذمت کرنے سے گریز کررہی تھی کیونکہ وہ ایران میں مقیم ہیں۔ لیکن ایران میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد جس قسم کے حالات سامنے آرہے ہیں سینکڑوں ایرانی بشمول خواتین و بچے ہلاک ہورہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے انکے صبر کا دامن چھوٹ چکا ہے اور وہ ایران کی حکومت کے خلاف کھل کر بولنا شروع کر دیا ہے اور ان اقدامات کی شدید الفاظ میں مذمت کر رہی ہیں جو حکومت کی جانب سے مظاہرین کو خاموش کرنے کے لئے اختیار کیے گئے۔بدری حسینی کے فرزند محمد مراد خانی جو ان دنوں فرانس میں مقیم انہو ں نے اپنی والدہ کی جانب سے خط ٹوئٹر پر پوسٹ کیا ہے ۔جس میں بدری حسینی نے اپنے بھائی خامنہ ای کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’میرے خیال میں اب یہ درست ہے کہ میں اپنے بھائی کے اقدامات کے خلاف ہوں اور ان ماؤں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کروں جو حکومت کے مظالم کی وجہ سے سوگ میں ہیں۔‘خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ ’میں معذرت خواہ ہوں کہ اگرچہ مجھے مظاہروں میں شریک ہونا چاہیے مگر بیماری کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتی، مگر دلی اور روحانی طور پر میں ایران کے عوام کے ساتھ ہوں۔‘خط کے مطابق ’مجرمانہ نظام کے خلاف ہماری جدوجہد انقلاب کے چند ماہ بعد ہی شروع ہو گئی تھی۔‘انہوں نے نظام کے ’جرائم‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’ان میں اختلاف کرنے والی آواز کو خاموش کرنا، سرزمین کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو قید خانوں میں ڈالنا، سخت سزائیں دینا اور بڑے پیمانے پر پھانسیاں شامل ہیں اور یہ سلسلہ حکومت کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ بدری حسینی خامنہ ای کی بیٹی فریدہ مراد خامنہ کو گذشتہ ماہ اس وقت تیسری بار گرفتار کیا گیا تھا جب وہ بیرونی ممالک کی حکومتوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ تہران کی حمایت بند کر دیں۔فریدہ مراد خامنہ نے 25؍ نومبر کو یوٹیوب پر ایک ویڈیو میں اپنے ماموں کی حکومت کو ’بچوں کی قاتل‘ قرار دیا تھا۔بیٹی کی گرفتاری پر بدری حسینی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ’جب انہوں نے میری بیٹی پرتشدد کرتے ہوئے گرفتار کیا تو اس سے عیاں ہوجاتا ہے کہ دوسرے لڑکے لڑکیوں کو کس قسم کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہو گا۔‘بدری حسینی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’میرے بھائی ایران کے عوام کے آواز نہیں سن رہے بلکہ کرائے کے فوجیوں اور پیسے بٹورنے والوں پر توجہ دے رہے ہیں۔‘انہوں نے پاسداران انقلاب کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ اپنے ہتھیار نیچے کر لیں اور عوام کے ساتھ کھڑے ہو جائیں، قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے۔‘یہاں یہ بات بھی واضح رہیکہ ایران میں مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو دیکھتے ہوئے ایرانی حکومت نے اخلاقی پولیس کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔بدری حسینی خامنہ ای کو چاہیے تھا کہ وہ حکومت اور انکے بھائی نرم رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتیں اور اُن ایرانی خواتین و لڑکیوں کو بھی مذہبی شناخت اور اسلامی تشخص کی پاسداری کیلئے مکمل حجاب کی دعوت دیتیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران کے اٹارنی جنرل محمد جعفر منتظری نے کہا ہیکہ ’اخلاقی پولیس کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں اور اسے ختم کیا جارہا ہے‘۔ ایران میں اخلاقی پولیس کا قیام سابق صدر محمود احمدی نژاد کے دور حکومت میں ہوا جس کا مقصد ’خواتین میں حجاب کے استعمال کو یقینی بنانا تھا۔‘ پولیس نے 2006 میں شہروں میں گشت کرنا شروع کیا۔ بتایاجاتا ہیکہ سابق ایرانی صدر حسن روحانی کے دور میں حجاب کے حوالے سے اتنی سختی نہیں تھیجس کی وجہ سے بہت سی خواتین تنگ جینز اور ڈھیلے ڈھالے اور رنگ برنگے حجابوں میں نظر آئیں۔ لیکن رواں برس جولائی میں ایرانی صدر ابراہیم ریئسی نے اس قانون کو سختی سے لاگو کرنے کا حکم دیا۔ایرانی حکومت شرعی قوانین کے تحت خواتین کو مکمل حجاب کرنے کیلئے سخت رویہ اس لئے بھی اپنائی ہوئی دکھائی دیتی ہے کیونکہ ایران میں بعض خواتین بے راہ روی کا شکار ہورہی تھیں۔ اسلام نے خواتین کو پردہ کے ذریعہ عزت و احترام کا مقام عطاکیاہے اور اسی پر عمل آوری کیلئے ایرانی حکومت نے اخلاقی پولیس کا قیام عمل میں لایا تھا۔ اخلاقی پولیس کو چاہیے کہ وہ بعض موقعوں پر مصلحت پسندی اور خوش اسلوبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی خواتین و لڑکیوں کو پابندِ حجاب کرنے کیلئے بہتر انداز و رویہ اپنائے جو حجاب کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں اور بے حجابی پر اتر آئیں ہیں۔ ایرانی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ حالات کی سنگینی کو مدّنظر رکھتے ہوئے خواتین اور لڑکیوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کروانے کوشش کریں، لڑکیوں کو حجاب سے متعلق بچپن ہی سے تربیت کریں اور اس ماحول میں ڈھالنے کی کوشش پیار و محبت اور صبر و استقلال کے ذریعہ کریں تاکہ ملک میں اسلام دشمن طاقتوں کو سرابھارنے کا موقع نہ ملے اور حجاب کا مذاق نہ بنائے۔اب دیکھنا ہے کہ ایران کی حکومت سپریم لیڈر آیت اﷲ خامنہ ای کی بہن کے خلاف کس قسم کی کارروائی کرتی ہے۔
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209913 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.