ملکی سیاست اس وقت ایک عجیب اضطرابی کیفیت کا شکار ہے۔ہر
طرف مایوسی ہے۔معاشی بدحالی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔صنعتیں
بند ہورہی ہے۔معیشت کا پہیہ جام ہے ،
دوسری جانب سیاست دان آپس میں دست و گریباں ہے ،
کہیں بھی کوئی خوش خبری ،اچھی خبر نہیں ہے ۔
آٹا 150روپے سے اوپر چلا گیا ،چاول،چینی،پتی،دال میں روز بروز اضافہ ہورہا
ہے ۔بڑھتی ہوئی مہنگائی نے جینے کی آس چھین لی ہے ۔
گزشتہ روز میر پور خاص میں غریب آدمی آٹا کے حصول میں اپنی زندگی کی بازی
ہار گیا۔
ناامیدی کے ان حالات میں جہاں اضطراب اور بے چینی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے
،وہاں کہیں نا کہیں کچھ اچھا ہونے کے لیے کوششیں بھی جاری ہے ۔
ہر دور میں تاریخ کا یہ سبق ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے ،مایوسی ناامیدی
میں تبدیل ہوجاے ،شب تاریک طویل ہوجاے تو اس کا بعد سپیدہ سحر طلوع ہوتا ہے
۔امیدیں جاگتی ہے ،دیا جلایا جاتا ہے ،روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہے ،
اناؤں کو قربان کیا جاتا ہے ،ذاتی مفادات بالائے طاق رکھ کر اجتماعیت کی
آواز لگائی جاتی ہے ،
اسی طرح آج بھی کچھ لوگ اپنے کردار کی پختگی کے بھروسے پر اپنا سب کچھ کل
پر قربان ہورہےہیں ،
ذاتی انا،غرور،وجاہت،تجربہ،وقار،اسٹیٹس،پارٹی،مستقبل،
شخصیت،کو داؤ پر لگا کر ملک و قوم کی خیر خواہی کے لیے قربان ہونے کو تیار
ہے ۔
جی ہاں!!!!!
ملکی سیاست کی گفتگو ،ٹیبل ٹالک ،میڈیا میں ہر طرف اس وقت بنیادی موضوع بحث
کراچی میں ہونی والی سیاسی صورتحال ہے ،
ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے آپس کے رابطے کو ہر طرف نوٹس کیا جارہاہے ۔
جی بالکل
یہ ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے جو ملکی سیاست کا نقشہ بدل دے گا ،
کراچی کو معاشی حب کہا جاتا ہے ،اس کی ترقی کے بغیر معیشت کی بحالی ناممکن
ہے ،اس شہر میں رہنے والے بنیادی حقوق کے لیے پریشان ہیں ،انفراسٹرکچر تباہ
ہوچکا ،بجلی،پانی،گیس کے مسائل ہے۔
جو شہر پورے ملک کو پال رہا ہے وہ شہر محرومیوں کا شکار ہے ۔
اس شہر کو ٹھیک کرنے کے لیے اس وقت اگر کوئی باکردار شخص ہے تو اس کا نام
سید مصطفی کمال ہے،
مصطفی کمال کا ماضی گواہ ہے ،شہر کو ٹھیک کرنے کے لیے اچھے کردار کی ضرورت
ہے ۔
لسانیات اور عصبیت کے نعروں کو بھلا کر اس شخص نے شہر کی ساری اکائیوں کو
آپس میں جوڑ دیا ہے ۔
یہ شخص جہاں کھڑا ہوگا مستقبل کی نوید وہی سے لکھی جاے گی۔
اس لیے یقیناً یہ ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے ۔مستقبل کے لیے ۔ |