بہت ہوا ناری پر اتیاچار ، بس کر یار مودی سرکار

سواتی مالیوال 2015 سے دہلی میں حقوق ِ نسواں کمیشن کی سربراہ ہیں ۔ ان کی مدت کار میں لگاتار تین مرتبہ توسیع کی گئی ہے۔ کئی مرتبہ وہ وزیر اعظم کو خط لکھ چکی ہیں۔ انہوں نے بابا رام رحیم کے پیرول کی مخالفت کی تھی ۔ اس پر انہیں دھمکایا بھی گیا۔دہلی میں سفاکی کا شکار ہونے والی انجلی کے معاملے میں سواتی نے سی بی آئی تفتیش کا مطالبہ کیا تھا ۔ اس معاملے سب سے پہلے احتجاج کرنے والوں میں دہلی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن سواتی مالیوال شامل تھیں ۔انہوں نے دہلی کے پولیس کمشنر سنجے اروڑہ کے نام خط میں شفاف اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا ۔وہ انجلی کے ساتھ زیادتی کی جانچ کا مطالبہ کررہی تھیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے دوسری خواتین کے حقوق کی خاطر لڑنے والی دہلی میں کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن کے عہدے پر فائز سواتی مالیوال کے ساتھ بھی 19؍ جنوری کی صبح تقریباً 3.11 بجے انجلی جیسا ایک سانحہ ہوگیا۔ سواتی مالیوال کو ایک کار نے 10 سے 15 میٹر گھسیٹا۔ اس سنسنی خیز واردات سے مودی سرکار کے تحت راجدھانی دہلی میں خواتین کے عدم تحفظ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

سواتی مالیوال کے ساتھ یہ سانحہ دہلی کے باہری علاقہ میں نہیں بلکہ قلب شہر کے اندرواقع معروف اسپتال ایمس کے گیٹ نمبر 2 پر پیش آیا۔ دہلی پولس کے مطابق گیٹ کے سامنے کار کے ڈرائیور ہریش چندر نے سواتی مالیوال سے گاڑی میں بیٹھنے کے لیے کہا تو انہوں نے اسے پھٹکار لگائی۔ اس کے بعد کار ڈرائیور نے گاڑی کا شیشہ اوپر چڑھا لیا۔ اس سے مالیوال کا ہاتھ شیشہ میں پھنس گیا۔ اس کے بعد ڈرائیور نے انہیں 10 سے 15 میٹر تک گھسیٹا۔ اس بار پولس نے مالیوال پرنشے میں ہونے کا الزام لگانے کے بجائے ایمانداری سے کہہ دیا کہ 47 سالہ ہریش چندر نشے میں تھا اور اسے گرفتار کر کے ایف آئی آر درج کر لی ۔ ملزم کا طبی معائنہ کرا لیا گیا ہے۔سواتی نے اعتراف کیا کہ ان کے ساتھ بھی انجلی جیسا معاملہ ہوجاتا مگر خدا نے بچا لیا۔

سواتی کے مطابق ان کے ساتھ یہ المناک واردات اس وقت پیش آئی جبکہ وہ خواتین کے تحفظ سے متعلق صورتحال اور حقائق کاجائزہ لینے کی خاطر فٹ پاتھ پر اپنی ٹیم کے ساتھ کھڑی تھیں۔ اس وقت نشے میں دھُت ایک ڈرائیور پاس آکر گاڑی میں بیٹھنے کے لیےضد کرنےلگا۔سواتی کے منع کرنے پر چلا تو گیا مگر دس منٹ بعد پھر سے کاڑی موڑ کر لوٹ آیااور ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ اس کے بعد وہ چھیڑ چھاڑ اور گندے اشاروں پر اتر آیا۔ سواتی نے جب اس کو پکڑنے کے لیےہاتھ بڑھایا تو اس نے شیشہ چڑھالیا ۔ اس طرح ان کا ہاتھ پھنس گیا تو ملزم رکا نہیں اور تقریباً 15 میٹر انہیں گھسٹنا پڑا۔ یہ منظر دیکھ کر ان کی ٹیم کے ایک رکن نے چلانا شروع کردیا۔ اس کی آواز سن کر ہریش چندر نے سواتی کو چھوڑ دیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر مودی راج میں خواتین کے کمیشن کی صوبائی صدر کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا ہے تو عام عورتیں کتنی غیر محفوظ ہوں گی؟ ایسے ملک کی خواتین کا نیا نعرہ ہے’بہت ہوا ناری پر اتیاچار ، بس کر یار مودی سرکار‘۔

اس معاملے میں اگر غیر جانبدارانہ تفتیش کی جائے تو ہریش چندر بھی منوج متل کی طرح بی جے پی کا رہنما نہ سہی تو ووٹر ضرور ہوگا۔ یہ لوگ اتنے جری اس لیے ہوگئے ہیں کیونکہ انہیں سرکاری آشیرواد حاصل ہے۔ بی جے پی اپنے لوگوں کو کیسے بچاتی ہے اس کی تازہ مثال پچھلے دنوں دہلی میں سامنے آئی۔ وہاں پر ہائی کورٹ نے اتر پردیش کے سابق بی جے پی ایم ایل اے کلدیپ سنگھ سینگر کو عبوری ضمانت دے دی ۔ سینگر کو 2017 میں اناؤ میں ایک نابالغ لڑکی کی عصمت دری کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ 16 جنوری کو ہائی کورٹ نے سینگر کو اس کی بیٹی کی شادی کے پیش نظر 27 جنوری سے 10 فروری تک دو ہفتوں کے لیے عبوری ضمانت دی ۔ سینگر کا تعلق اگر بی جے پی سے نہیں ہوتا تو اسے اس قدر آسانی سے یہ سہولت ہر گز نہیں ملتی لیکن چونکہ عدالت و منصف سب حزب اقتدار کے وفادار بن گئے ہیں یہ چمتکار ہوگیا ۔

دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کی متاثرہ لڑکی نے مخالفت کی ہے۔ اس نے صدرمملکت دروپدی مرمو، وزیر اعظم نریندر مودی، مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کو خطوط بھیج کر خدشہ ظاہر کیا ہے کہ(سینگر کی عارضی رہائی سے) اس کی اور اس کے خاندان کے افراد کی جان کو خطرہ ہے۔ اس خط میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سینگر کے خاندان والوں کی طرف سے رچی گئی سازش کے سبب اس کے چچا کو اپنی بہن کی شادی میں شرکت کے لیے عبوری ضمانت نہیں مل سکی تھی۔ جس دن ضمانت ہوئی اس روز ہائی کورٹ نے متاثرہ کے والد کی حراستی موت کے سلسلے میں سینگر کی ضمانت کی درخواست پر سماعت بھی ملتوی کر دی۔ سینگر کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے جسٹس دنیش کمار شرما کی بنچ سے درخواست کی کہ ضمانت کی درخواست کو جسٹس مکتا گپتا جیسی شرائط عائد کرنے کی اجازت دی جائے۔ عصمت دری معاملے میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس گپتا نے کہا تھا کہ سینگر کی بیٹی کی شادی کی رسمیں اتنے دنوں سے طے ہیں اور کچھ دنوں میں سب کچھ کیسے ہو سکتا ہے؟

سینگر کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے عدالت میں عرض کیا کہ تاریخیں والد اور پنڈت نے طے کی تھیں۔سینگر کی طرف سے پیش ہونے والے دو سینئر وکلاء، این ہری ہرن اور پی کے دوبے نے عدالت کو مطلع کیا کہ چونکہ سینگر خاندان میں واحد مرد رکن ہے، اس لیے اسے گورکھپور اور لکھنؤ میں ہونے والی شادی کی تمام تیاریاں کرنی ہیں۔ اس معاملے میں ہائی کورٹ نے 22 دسمبر 2022 کو نوٹس جاری کرکے سی بی آئی کو ہدایت دی تھی کہ وہ سینگر کی ضمانت کی درخواست کے حقائق کی تصدیق کرے اور اسٹیٹس رپورٹ کو ریکارڈ پر رکھے۔اس پر سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے وکیل نے ایجنسی کی اسٹیٹس رپورٹ داخل کی جس میں شادی کی رسومات کے لیے دو ہال بک کیے جانے کی تصدیق کی گئی۔عصمت دری کیس میں ٹرائل کورٹ کے خلاف سینگر کی اپیل ہائی کورٹ کے سامنے زیر التوا ہے۔
پہلے تو بی جے پی نے کلدیپ سنگھ سینگر کو بچانے کی بھرپور کوشش کی مگر جب سپریم کورٹ نے یکم اگست کو اس کیس سے متعلق پانچوں مقدمات کو اناؤ سے دہلی منتقل کرنے کی ہدایت کی اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے 45 دن کے اندر اسے مکمل کرنے کی ہدایت دی تو بی جے پی کے ہاتھ پاوں پھول گئے۔ اس کے بعد مقدمے کی سماعت 5 اگست 2019 کو شروع ہوئی۔ اس کے بعد ٹرائل کورٹ نے سینگر کو آئی پی سی سیکشن 376(2) سمیت مختلف دفعات کے تحت مجرم قرار دیا تھا اور اس پر 25 لاکھ روپے کا مثالی جرمانہ بھی عائد کردیا۔ عصمت دری کےاس معاملے میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو سینگر نے چیلنج کردیا اور وہ معاملہ ہائی کورٹ کے سامنے زیر التوا ہے۔ اس اپیل میں 16 دسمبر 2019 کے ٹرائل کورٹ کے حکم کو ایک طرف رکھنے اور 20 دسمبر 2019 کے حکم کو ایک طرف رکھنے جیسی راحتیں طلب کی گئی ہیں۔اس کے تین سال بعد سینگر نے 19 دسمبر 2022کو اپنی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لیے عدالت سے دو ماہ کی عبوری ضمانت مانگی تھی، جو 8 فروری 2023 کو ہونے والی ہے، اور تقریبات 18 جنوری سے شروع ہوں گی۔

اس معاملے میں جب ہائی کورٹ نے عبوری ضمانت دی تو اس کی مخالفت کرتے ہوئے متاثرہ کے وکیل نے عدالت سے درخواست کی کاپی مانگ لی۔ اس کے بعد عدالت نے سینگر کے وکیل سے متاثرہ کو درخواست کی کاپی دینے کی ہدایت کی اور معاملے کی سماعت 19 جنوری تک ملتوی کر دیا مگر اس نئی تاریخ کو ضمانت کو رد کرنے کے بجائے توثیق کردی۔ اِدھر کلدیپ سینگر کو عارضی ضمانت ملی اُدھر سپریم کورٹ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر اور سابق مرکزی وزیر سید شاہنواز حسین کے خلاف مبینہ عصمت دری اور دھمکیوں کے معاملے میں ایف آئی آر درج کرنے کے عدالتی حکم کو چیلنج کرنے والی عرضی کو مسترد کر دیا ۔عدالت عظمیٰ نے دہلی ہائی کورٹ کے ذریعہ نچلی عدالت کے ایف آئی آر درج کرنے کے حکم کو برقرار رکھنے والے ایک فیصلے کوچیلنج کرنے والی عرضی یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی کہ درخواست گزار کو مجرم نہیں ٹھہرایا گیا تھا اور اس کے پاس قانون کے تحت دیگر قانونی اقدامات موجود تھے۔اس سے قبل ہائی کورٹ نے دہلی کی ایک خصوصی عدالت کے حکم کو مناسب ٹھہراکرمیٹروپولیٹن مجسٹریٹ کے ایف آئی آر درج کرنے کے حکم کو برقرار رکھا تھا۔

2018 میں دہلی کی ایک خاتون کی شکایت پر سابق مرکزی وزیرشاہنواز حسین کے خلاف جنسی ہراسانی اور دھمکی دینے کے الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کا حکم میٹروپولیٹن مجسٹریٹ نے دیا تھا۔کلدیپ سینگر کی طرح شاہنواز حسین بی جے پی کے اہم لیڈر ہیں۔ وہ بہار سے ایم ایل سی ہیں اور بہار کی سابقہ جے ڈی یو-بی جے پی کی مخلوط حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ تین مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے اور اٹل بہاری حکومت میں مرکزی وزیر رہ چکے ہیں۔ عصمت دری کے معاملے بی جے پی کا ریکارڈ سب سے خراب ہے۔آج سے پانچ سال پہلے اس کے 45؍ایسے ارکان پارلیمان یا اسمبلی ایسے تھے جن پر آبروریزی کا الزام لگا اس لیے اسے بلاتکاری( زانی) جنتا پارٹی کے خطاب سے بھی نوازہ گیا۔ اب تو یہ لوگ اور بھی دلیر ہوگئے ہیں۔ ایک طرف اس کے رہنما اس میں ملوث ہوتے ہیں دوسری جانب کھٹوعہ سے لے کر گودھرا تک ہر جگہ یہ پارٹی ان ظالموں کو بچانے کی کوشش کرتی ہے اور کامیاب بھی ہوجاتی ہے ۔ ان فسطائی قوتوں کے اقتدار میں ہوتے خواتین کو انصاف ملنا مشکل ہے کیونکہ بقول ڈاکٹر عاصم واسطی ؎
عدل عدالت اس بستی میں کیسے قائم ہو عاصم
جس میں ملزم مجرم خود قانون بنانے والےہیں

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449031 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.