کھیڑا سے بکھیڑا مہنگا پڑ گیا

آج کل کانگریس کو اڈانی نام کا باجا ملا ہوا ہے جس کو وہ ہر روز بجاتے ہیں ۔ گوتم اڈانی ایک ایسا نام ہے جس کو سنتے ہی بی جے پی والوں کو مرچی لگ جاتی ہے اور وہ جھلاّ کر اول فول بکنے لگتے ہیں۔ ایوانِ پارلیمان میں راہل گاندھی اور ملک ارجن کھڑگے کی تقاریر سے اڈانی کا نام نکال دیا جاتا ہے۔اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ گوتم اڈانی بی جے پی کی ایک دکھتی رگ بن گئی ہے جس کو چھیڑ چھیڑ کر کانگریس معیشت کے بازار میں سیاست کی دوکان چمکاتی رہتی ہے۔ اسی تجارت کے تحت پون کھیڑا حال میں ایک پریس کانفرنس کررہے تھے ۔ اس دوران انہوں نے کہا تھا کہ اگر اٹل بہاری واجپئی جے پی سی بنا سکتے ہیں تو نریندر گوتم داس مودی کو کیا پریشانی ہے ؟ پچھلے نو سالوں میں یہ تو ضرور ہوا کہ لوگ باگ وزیر اعظم نریندر مودی کا پورا نام نریندر دامودر داس مودی جان گئے۔ اس لیے دامودر کے بجائے گوتم کا استعمال شرر انگیز تھا ۔

آگے بڑھنے سے قبل اس بیان کا پوسٹ مارٹم ضروری ہے۔ اپنا یہ متنازع جملہ کہہ کر اگر کھیڑا آگے بڑھ گئے ہوتے تو تب تو یہ بات کہی جاسکتی تھی کہ ان کے اعصاب پر فی الحال گوتم اڈانی چھائے ہوئے ہیں اس لیے یہ گڑ بڑ ہوگئی۔ یہ کہنے کے بعد کھیڑا نے آس پاس موجود لوگوں سے پوچھا کہ کیا انہوں نے وزیراعظم کا درمیانی نام صحیح لیا ہے؟ اور پھر سے اپنا جملہ دوہراتے ہوئےبولے: نریندر گوتم داس مودی کو کیا پریشانی ہے؟ اس کے بعد تیسری بار کھیڑا نے سوال کیا : کیا یہ گوتم داس ہے یا دامودر داس ہے؟ اس دوران ہنستے ہوئے وہ طنز کرتے ہیں کہ بھلے ہی نام دامودر داس ہو لیکن ان کے کام گوتم داس کے برابر ہے ۔ ہندی زبان میں داس کے معنیٰ غلام کے ہوتے ہیں ۔ عدالتِ عظمیٰ کا اس کو محض زبان کی پھسلن مان لینا درست نہیں ہے۔ اس دورِ جبرو استبداد میں علی الاعلان وزیر اعظم نریندر مودی کو گوتم اڈانی کا خدمت گار کہنا معمولی بات نہیں ہے۔ اس لیے جہاں یہ ایک لطیف طنز ہے وہیں جرأتمندی کا اظہار بھی ہے۔ اس طرح ملک کے عوام کا یہ پتہ چلا کہ لوگوں کے دل سے ڈر نکالنے کا دعویٰ کرنے والے خود نڈر ہیں۔

ایک سوال یہ ہے کہ مندرجہ بالا شواہد کے باوجود عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس پی ایس نرسمہا پر مشتمل بنچ نے گرفتاری کے فوراً بعد اس معاملے کی سماعت کو منظوری کیوں دی؟ پون کھیڑا کے وکیل ابھیشیک منو سنگھوی کی صفائی کہ پون کھیڑا کا بیان زبان کا پھسلنا تھا اور انہوں نے فوری طور پر معذرت بھی کر لی کو قبول کیوں کیا؟عدالت عظمیٰ نے یہ حکم کیوں صادر کر دیا کہ کھیڑا کو اگلے منگل (28 فروری) کی سماعت تک دہلی کے عدالتی مجسٹریٹ کے سامنے پیشی پر عبوری ضمانت دے کر رہا کیا جائےحالانکہ پون کھیڑا کے وکیل ابھیشیک منو سنگھوی کی جانب سے جمع شدہ حلف نامے میں غیر مشروط معافی مانگنے کا عہد کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ اس طرح کا نرم رویہ اگر کسی بی جے پی رہنما کے ساتھ اختیار کیا جاتا تو اسے سرکاری دباو سے منسوب کیا جاتا مگر یہ تو اس کےبر خلاف ہوگیا۔ عدلیہ نےجس بے خوفی کا مظاہرہ کیا وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ جس ڈر کے خاتمہ کی خاطر بھارت جوڑو یاترا نکالی گئی تھی اس کے اثرات کسی نہ کسی حد تک مرتب ہوئے ہیں۔

سپریم کورٹ نے پون کھیڑا پر ایک ساتھ کئی مہربانیاں کردیں مثلاًایک تو گرفتاری پر روک لگادی ۔ اسی کے ساتھ مختلف شہروں میں مقدمات درج کروا کر اِدھر اُدھر دوڑانے کی زحمت سے بچانے کے لیے ان کے خلاف تمام ایف آئی آرز کو یکجا کرنے کی نوٹس آسام پولیس اور یوپی پولیس کو تھما دی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ایسا کرکے چیف جسٹس چندرچڈ نے اپنے دامن پر لگے ایک پرانے داغ کو دھو دیا ۔ یہ سوا دوسال پرانی بات ہے جب ممبئی کی پولیس نے 2018 کے خود کشی کے ایک معاملے میں ارنب گوسوامی کو چار نومبر2020 کو گرفتار کرلیا تھا۔ ان پر ایک انٹیریئر ڈیزائنر اور اس کی والدہ کو خود کشی پر اکسانے کا الزام لگا تھا۔ اس وقت جسٹس چندر چڈ اور اندرا بنرجی کے بینچ نے ارنب گوسوامی کی درخواست ضمانت پر سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ عدالت اس معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی تو ہم شخصی آزادی کے انکار سے تباہی کے راستے پر نکل جائیں گے۔عدالت نے ممبئی ہائی کورٹ میں گوسوامی کو ضمانت نہ دےکر نچلی عدالت میں بھیجنے کی ہدایت پر اپنی ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدلیہ شخصی آزادی کے معاملے میں کچھ زیادہ نہیں کر رہی ہے۔ اس بار اگر چیف جسٹس ٹال مٹول کرتے تو لوگ انہیں یہ فیصلہ یاد دلاکر عار دلاتے ۔

کھیڑا کے معاملے اسی رویہ کو دوہرا کر چیف جسٹس نے اپنی غیر جانبداری کو ثابت کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ ارنب کے معاملے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور سینئر وکیل دشینت دوے نے بغیر باری کے سماعت کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت اپنی مرضی سے شنوائی کر رہی ہے۔ان کا اعتراض تھا کہ ہزاروں افراد طویل مدت سے جیلوں میں بند ہیں۔ مگر ان کے معاملات سماعت کے لیے لسٹ میں شامل نہیں کیے جاتے۔اس احتجاج سے علی الرغم متعدد روزناموں نے ارنب گوسوامی کی رہائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے دیگر گرفتار شدہ صحافیوں کی شخصی آزادی کے احترام کی یاددہانی کی تھی ۔ان میں صدیق کپن کے علاوہ کشور چندر وانگ کھیم، پرشانت کنوجیہ، راجب شرما، نریش کھوہال، راہول کلکرنی، راجیو شرما اور سیوانگ ریگزین کے ناموں کا ذکر کیا گیا تھا جو عدلیہ کی ٹال مٹول کے سبب قید و بند کی صعوبت جھیل رہے تھے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب سی اے اے تحریک کے بے شمار کارکنان اور یلغار پریشد کے شرکاء جیل میں ٹھونس دئیےگئے تھے۔ ان میں سے کئی ہنوز رہا نہیں ہوئے ہیں ۔ ایسے میں ارنب گوسوامی کی 6 روز کے اندر ضمانت نے سب کو چونکا دیا تھا لیکن پون کھیڑا کا معاملہ تو ایک گھنٹے میں نمٹا دیا گیا۔

اس تنازع سے بی جے پی والے اگر کوئی سبق سیکھنا چاہتے ہیں تو یہ ہے کہ اب کانگریس بدل گئی ہے۔ پون کھیڑا کو ہوائی جہاز سے اتارنے کی ابتداء ایک ایسے جھوٹ سے ہوئی جو اس کے منہ پر آگیا۔ ہوائی جہاز کے اہلکار نے کہا آپ اپنے سامان کی پہچان کرلیں ۔ ان لوگوں کو پہلے یہ پتہ لگانا چاہیے تھا کہ آیا پون نے کوئی سامان جمع کرایا بھی ہے یا نہیں؟ اس مضحکہ خیز مطالبے جواب میں کہا گیا ان کا سارا سامان ساتھ ہے تو بلانے والے ہکا بکا رہ گئے۔ اب کہا گیا کہ پولیس افسر بات کرنے کے لیے بلا رہے ہیں ۔ وہ دہلی کی پولیس یعنی امیت شاہ کا آدمی تھا ۔ اس نے پون کھیڑا کو اپنی تحویل میں لے کر کہا کہ آسام کی پولیس گرفتار کرنے کے لیے آئی ہے۔ پون کھیڑا نے وارنٹ پوچھا تو وہ ندارد تھا ۔ اس کے باوجود انہیں غیر قانونی حراست میں لے لیا گیا ۔ بی جے پی والے سوچ رہے تھے کانگریسی رو پیٹ کر چپ ہوجائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس جہاز میں کئی کانگریسی رہنما رائے پور کے قومی کنونشن میں جارہے تھے ۔ وہ سب بھی اتر گئے اور وہیں دھرنے پر بیٹھ گئے۔ پھر کیا تھا ہنگامہ ہوگیا۔ بالآخر وہ فلائیٹ منسوخ ہوگئی اور سواریوں کو دوسرے جہاز سے لے جانا پڑا ۔ یہ پہلی کامیابی تھی۔

اس سے پہلے کہ امیت شاہ اور اجیت دوبھال وغیرہ پون کھیڑا کو جیل میں بھیج کر ہراساں کرنے کا منصوبہ بناتے اور آئی ٹی سیل بریکنگ نیوز کی چٹ پٹی سرخی بناتا معاملہ عدالت عظمیٰ میں پہنچ گیا اور ایک گھنٹے کے اندر سپریم کورٹ نے اس پر بینچ بنائی، سماعت کی اور فیصلے سنا دیئے۔ ایسا تو منصوبہ بندی کے باوجود نہیں ہوتا اور دیکھتے دیکھتے بی جے پی والوں کے ہاتھ سے طوطے اڑ گئے۔ اس تنازع نے ساری قوم کی توجہ کانگریس کی قومی کنونشن کی جانب مبذول کروادی ۔ لوگوں کو یہ بھی پتہ چلا کہ اس کو ناکام کرنے کے لیے دو دن پہلے سے ای ڈی چھاپہ ماری کررہی ہے۔ کانگریس کے کنونشن کو بدنام کرنے کے لیے پون کھیڑا کو گرفتار کیا گیا مگر مثل مشہور ہے بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا ۔ یہاں یہ ہوا کہ بدنامی تو بی جے پی کی ہوئی اور کانگریس کا کنونشن نیک نام ہوگیا ۔ اس کا سہرہ صرف اور صرف چانکیہ کی حماقت کو جاتا ہے۔ پون کھیڑا جن کے ذریعہ حزب اختلاف کو ڈرانے کے لیے یہ ناٹک کیا گیا انہوں نے اپنے ٹویٹ میں ندافاضلی کا وہی مصرع لکھ دیا جو وزیر اعظم نریندر مودی نے 9 مارچ 2016 کو راجیہ سبھا میں اپنی تقریر کے دوران پڑھا تھا؎
سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو
سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448934 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.