ہم نے بہت قربانیاں دی ہیں اب تمھاری باری ہے

جب سے ہم نے ہوش سنبھال ہے یہی سنتے آرہے ہیں ملک نازک دور سے گزر رہا ہے ملک کی معیشت تباہ ہے ادارے تباہ ہیں خالی خزانہ ہمیں ورثے میں ملا ہے۔اپنے لئے نہیں تو آنے والی نسلوں کی تابناک مستقبل کیلئے قوم کو قربانی دینی پڑے گئی معیشت کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنے کیلئے ہمیں سخت کڑوے فیصلے کرنے پڑیں گئے۔حکومت سمیت سب کو کفایت شعاری کو اپنا نصب العین بنانا ہوگا اس طرح کی باتیں اور دل فریب نعرے ہر پاکستانی ایک طویل عرصے سے سنتا آرہے۔ہر حکمران۔ ہر بار اس رٹے رٹائے سبق کو دہراتے رہے ہیں پاکستانی قوم نے دیکھا کہ سبق تووہی ہے لیکن اس سبق کو پڑھانے والے چہرے بدلتے رہتے ہیں۔اس بات میں کوئی شق نہیں واقعی ملک انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے اب تو ملک ڈیفالٹ کی جانب بڑھ رہا ہے یا ڈیفالٹ کر چکا ہے اس بات کو معاشی معاہرین بہتر جانتے ہیں ڈیفالٹ کے بعد پیدا ہونے والے صورت حال سے آگاہ ہیں۔ایک طرف ملک کی یہ صورت حال تو دوسری جانب بتایا گیا ہے کہ موجودہ حکومت نے مختلف اوقات میں ایک ارب چالیس کروڑ ڈالرز کی لگژری گاڑیاں منگوائی گئی ہیں۔ایک طرف تو سادگی اور کفایت شعاری کا درس دینے والے حکمرانوں کی یہ حالت ہے تو دوسری جانب مضبوط معیشت کے حامل ملک برطانیہ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کے پاس ٹوٹل 45گاڑیاں ہیں جن میں وزیر اعظم کے پاس صرف ایک گاڑی اورسات گاڑیاں کابینہ کے زیر استعمال ہیں جبکہ وزرا کو گھر سے دفتر آنے جانے کیلئے ان کے پاس کوئی سرکاری گاڑی نہیں ہوتا ہے۔میرے شہر سے تعلق رکھنے والے ایک دوست نے 1989کا ایک واقعہ بیان کیا مرحوم ڈی ایس پی سید عبدالستار شاہ جو کہ پیپلز پارٹی کا ایک وفادار جانثار کارکن کے طور پر شہرت رکھتے تھے انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں بینظیر صاحبہ کے ہمراہ۔یو کے گیا تو وہاں لندن میں برطانیہ کا ٹریڈ منسٹر محترمہ سے ملنے کیلئے ہوٹل میں آئے جب چائے پی کر وہ ہوٹل سے نکلے تو بینظر صاحبہ نے مجھ سے کہا شاہ صاحب پاکستان سے اس کیلئے میں تحفہ لائی ہوں جو ان کو دینا بھول گئی ہوں راستے میں ہی ہوگا آپ جاکر ان کو یہ گفٹ دے آو تو میں جلدی جلدی لفٹ کے ذریعے نیچے اتر کر کیا دیکھتا ہوں برطانیہ کا وزیر تجارت سڑک پار کرکے ایک ٹیکسی کو روکر اس میں بیٹھتے ہیں ٹیکسی کا دروازہ بند کرنے والا تھا تو میں وہاں پہنچ گیا ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اس سے کہا کہ یہ گفٹ محترمہ نے آپ کیلئے دیا ہے قبول کریں جس پر اس نے شکریے کے ساتھ وہ گفٹ لے کر ٹیکسی میں بیٹھ کر روانہ ہوگیاتو میں سوچوں میں گم سم واپس ہوٹل میں آیا تو محترمہ نے پوچھا شاہ صاحب کیا بات ہے۔تو میں نے عرض کیا میڈم آپ بتا رہیں تھیں کہ یہ برطانیہ کا وزیر تجارت ہے میں نے تو انھیں دیکھا وہ ٹیکسی پر ہی جارہا تھا تو بینظیر صاحبہ نے کہا کہ شاہ صاحب یہاں پر ایسا ہی ہوتا ہے۔یہ بات ایک عرصے تک میرے لئے تعجب کا باعث رہا اب آتے ہیں اپنے ملک پاکستان میں۔ موجودہ حکومت نے چند روزقبل وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے کفایت شعاری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کئی اہم فیصلے کردئے جن میں۔کابینہ بغیر تنخواہ کے کام کرے گئی تمام مرعات واپس ہونے کے ساتھ لگژری گاڑیوں کو نیلام کرنے بزنس کلاس کا سفر بند بے جا غیر ملکی دوروں پرپابندی فائیو اسٹارہوٹلوں میں قیا م پر بھی پابندی حکومتی اخراجات میں میں کٹوتی نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی۔پانی بجلی گیس ٹیلی فون سمیت ہر طرح کے یوٹیلٹی بلز وزیرا اپنی جیب سے ادا کریں گئے ٹی اے ڈی اے بچنے کی خاطر سرکاری آفیسران ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس سرکاری آفیسران کو ایک سے زیادہ پلاٹس دینے پر بھی پابندی جبکہ سرکاری تقریبات پر ون ڈش کی پابندی کابینہ کا سائز کم کرنے کی کوشش بڑے بڑے گھروں کی نیلامی کے لئے کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا۔میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ اس طرح کے خوشنما بیانات اعلانات ہم ایک طویل عرصے سے سنتے آرہے لیکن ان پر عمل ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ہے کیونکہ یہ ہالینڈ تو نہیں ہے جہاں وزیراعظم سائیکل پر اپنے آفیس آتا جاتا ہو۔اور نہ ہی یہ کینیڈا جرمنی نیوزی لینڈ ہے۔ارے بھائی یہ تو پاکستان ہے جہاں پر حکمران ٹولے کی عیاشیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے ہیں۔جبکہ ہر روزنت نئے ٹیکسز کی زد میں مری ہوئی غریب عوام ہی آرہی ہے سب نے دیکھا اور سنا جب آئی ایم ایف کی سربراہ پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے پاکستان امیروں کے مراعات ختم کرے اور غریبوں کو ریلیف دے لیکن حکومت اس کے لئے تیار نہیں ہے۔اس وقت حالت یہ ہے کہ غریب کو تو دو وقت سوکھی روٹی بھی میسر نہیں لیکن۔لیکن کئی اداروں کے سربراہ لاکھوں روپے تنخواہیں لے رہے ہیں اور پھر کرپشن سے کروڑوں کی کمائی الگ سے ہیں میرے ملک کو اس حالت پر پہچانے والے چند ہزارلوگ ہی ہونگے جن میں سیاستدانوں کے ساتھ جج جنرل بیوروریسی شامل ان چند ہزار افراد کی بدولت آج 23کروڑ افراد سخت پریشانی سے دوچار ہیں بس ہر ایک کی زبان پر یہی الفاظ ہیں مہنگائی نے تو ہمیں جیتے جی مار دیا ہے ہمارا کیا بنے گا۔اور کل کیا ہونے والا ہے۔مرد خواتین بچے بوڑھے ہر ایک کی زبان پر یہی سوال ہے اب کیا ہوگا ہر ایک اپنے مستقبل سے سخت مایوس نظر آرہا ہے۔ اور یہ مایوسی کہیں خونی انقلاب کی شکل اختیار نہ کرلئے حالات تیزی کے ساتھ اس طرف جارہے ہیں جبکہ ملک کا ایلیٹ کلاس دن بدن امیر سے امیر تر ہوتا جارہا ہے۔پاکستان کے بچے بچے کو علم ہے کہ کن کن لوگوں نے پاکستان کا پیسہ لوٹا ہے ان کے پاس کتنا کتنا پیسہ ہے اب ۔اور وہ اس اعلان کے منتظر ہیں کہ کب ہمارے حکمران نوازشریف شہباز شریف عمران خان آصف علی زرداری کچھ جج جنرلز سمیت پانچ سو سرمایہ دار شخصیات رجب طیب اردگان بنتے ہیں رجب طیب کے نام سے یاد آیا کہ ترکی اور سریا کے زلزلہ متاثرین کے لئے امریکا میں مقیم ایک پاکستانی نے تیس ملین ڈالر دیئے ہیں آخر کیوں پاکستان میں سیلاب سے اتنے بڑے پیمانے پر نقصان ہونے کے باوجود پاکستان کو نہیں دیا ترکی اور سریا کو اتنی بڑی رقم امداد دی ہے۔اس کی وجہ صرف اور صرف ہماری حکومت پر اپنے ہی وطن کے لوگوں کا عدم اعتماد ہے کیونکہ امداد دینے والے دیکھتے آئے ہیں کہ امداد تو غریبوں ضرورت مندوں تک پہنتا ہی نہیں ہے پھر امداد دینے کا فائدہ ہی کیا
 

Waris Dinari
About the Author: Waris Dinari Read More Articles by Waris Dinari: 7 Articles with 3534 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.