ایک ایسے دورِ رفاقت(متر کال) میں جبکہ بدعنوانی کا الزام صرف اور صرف حزب
ِ اختلاف پر لگتا ہو کرناٹک میں بی جے پی کے رکن اسمبلی ویرپا کشپا کے بیٹے
کا نہ صرف 40؍ لاکھ روپے رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا جانا بلکہ اس کے
گھر سے 8.23؍ کروڑ روپے نقد برآمد ہوجانا حیرت کی بات ہے۔ ہوا یہ کہ
بنگلور واٹر سپلائی اینڈ سیوریج بورڈ کے چیف اکاؤنٹنٹ اور رکن اسمبلی کے
بیٹے پرشانت کمار مدل کو کرناٹک لوک آیوکت کے عہدیداروں نے رشوت لیتے ہوئے
رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ لوک آیوکت نے پرشانت
کے ساتھ اس کے والد مدل ویرپاکشپا کو اس معاملے میں کلیدی ملزم قرار دے دیا
۔ویرپاکشا داونگیری ضلع کے چناگیری اسمبلی حلقہ سے بی جے پی کے با رسوخ رکن
اسمبلی ہیں۔کرناٹک میں بی جے پی کے وزراء اور اس کے اراکین اسمبلی کا شدید
قسم کی بدعنوانیوں میں ملوث ہونا جگ ظاہر ہے لیکن کوئی ان کی جانب نظر اٹھا
کر نہیں دیکھتا ۔ ان لوگوں پر ہر کام کرنے کے لئے چالیس فیصد تک رشوت وصول
کرنے کا الزام لگتا ہے مگر ان کا بال بیکا نہیں ہوتا۔ جنوب کی واحد بی جے
پی حکومت کے وزیر اعلیٰ کو پے سی ایم کے لقب سے یاد کیا جاتاہے اس کے
باوجود وہ بڑے مزے سے حکومت کررہے ہیں کیونکہ سیاںّ بھئے کوتوال تو ڈر کاہے
کا؟
کرناٹک کے اندر امسال ریاستی انتخاب ہونے والے ہیں ایسے میں ایک وزیر کا مع
ثبوت پھنس جانا بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ یہاں پر رشوت ستانی کا معاملہ بے حد
صاف ہے۔ گرفتار شدہ پرشانت کے والدویرپا کشپا صابن اور ڈٹرجنٹ لمیٹڈ (کےایس
ڈی ایل) کے چیئرمین ہیں۔ ان کے بیٹے پرشانت کمار نے اسی ادارے کو خام مال
فراہم کرنے کیلئے ٹینڈر کے عمل کو ختم کرنے کیلئے 81؍ لاکھ روپے کی رشوت
مانگی تھی اور وہ اپنے دفتر میں40؍لاکھ روپے لیتے ہوئےرنگے ہاتھوں پکڑا
گیا۔ پرشانت کو تو لوک آیوکت پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا اوربی جے پی
نے اپنی شبیہ بچانے کیلئے ویرپاکشا کو استعفیٰ دینے کا حکم بھی دےدیا مگر
گرفتار نہیں کیا ۔ موصوف فرار ہوگئے جو چور کی داڑھی میں تنکہ کی مصداق
تھا۔ریاستی پولیس کی کیا مجال تھی کہ وزیر کو گرفتارکرنے کی جرأت کرتی
یہاں تک کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے انہیں پیشگی ضمانت دے دی ۔ جسٹس نٹراجن کی
سنگل بنچ نے رکن اسمبلی کی عرضی پر سماعت کے بعد انہیں ضمانت دیتے ہوئے
فرمایا کہ اب وہ اڑتالیس گھنٹے کے اندر تفتیشی افسر سے مل کر بتادیں کہ
انہیں پانچ لاکھ مچلکے پر ضمانت مل چکی ہے اس لیے گرفتار کرنے کی زحمت نہ
کی جائے ۔
عام طور پر تفتیشی ایجنسیاں بے قصور اور بے ضرر لوگوں پر شواہد سے چھیڑ
چھاڑ کا الزام لگا کر ضمانت کی مخالفت کرتی ہیں اور جج صاحبان اس پر ایمان
لے آتے ہیں لیکن یہاں کسی نے ایک طاقتورسابق وزیر کے خلاف جو سارے ثبوت
مٹانے کی صلاحیت رکھتا ہے کوئی خدشہ ظاہر نہیں کیا۔ جج صاحب نے بھی ثبوتوں
سے چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کی ہدایت پر اکتفاء کرلیا۔ ایسے میں یہ سوال پیدا
ہوتا ہے کہ آخر عام لوگوں کے تئیں اس طرح کی نرمی کا مظاہرہ کیوں نہیں
ہوتا ؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے خلاف مقدمہ بنانے والی طاقتور سرکار
سے عدلیہ خوف محسوس کرتا ہے؟ عدلیہ کا یہ مشفقانہ رویہ صرف سابق وزیر کی حد
تک نہیں ہے بلکہ ان کے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے بیٹے پر بھی وہ خوب
مہربان ہے ۔اس کا ثبوت بنگلورو کی ایک سول عدالت نے میڈیا اداروں کو بی جے
پی کے رکن اسمبلی ویروپکشپا اور ان کے بیٹے پرشانت کمار کے خلاف ہتک آمیز
مواد نشر کرنے پر روک لگاکر پیش کیا ۔
جسٹس بالاگوپال کرشنا نے اس فیصلے کے حق میں یہ دلیل دی کہ پرشانت کمار ایم
وی کے دفتر پر لوک آیکت پولیس کے چھاپے کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اور
ایم ایل اے دونوں بدعنوانی میں ملوث ہیں ۔کاش کہ جج صاحب یہ بھی بتادیتے کہ
اس کا اگریہ مطلب نہیں تو کیا مطلب ہے؟ عدالت نے کہا، "صرف لوک آیکت پولیس
نے مدعی نمبر 2 کے دفتر پر چھاپہ مارا اور نوٹوں کے بنڈل ضبط کیے، جس سے یہ
اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ دونوں مدعی بڑے بدعنوانی کے اسکینڈل میں ملوث
ہیں۔ اس نتیجے پر پہنچنا کہ مدعی عہدے کے اعتبار سے بدعنوان ہونے کا سزاوار
ہے درست نہیں ۔‘‘جسٹس بالا گوپال کرشنا اگر یہ ہمدردی کے جتانے سے قبل مدعی
کی شکایت سن لیتے تو ان کے عہدے کا وقار محفوظ رہتا۔ ویروپکشپا اور ان کے
بیٹے کے خلاف بنگلوروکی کیمیکل کارپوریشن نامی کمپنی کے مالک سریاس کشیپ نے
شکایت کی تھی۔ امسال جنوری 2023 میں انہوں نے کرناٹک صابن اور ڈٹرجنٹ لمیٹڈ
(KSDL) کو کیمیائی تیل کی فراہمی کے لیے ٹینڈر کے عمل میں کامیابی سے حصہ
لیالیکن آرڈر لینے کے لیے وہ کافی نہیں تھی۔ کشیپ کے مطابق ایم ایل اے اور
ان کے بیٹے نے آرڈر اور پیشگی رقم جاری کرنے کے لیے 81 لاکھ روپے کی رشوت
طلب کی ۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا کسی عام تاجر کے لیے کیا حزب اقتدار
وزیر کے خلاف لوک آیکت پولیس سے جھوٹی شکایت کرناممکن ہے اور اگر وہ ایسا
کرگزرے تو زندہ رہ سکتا ہے؟
ویرپکشا اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں بلاوجہ
پھنسایا جارہا ہے۔ ان کا اس معاملے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ ایسے میں ایک
سوال یہ پیدا ہوتا ہے ان کی اپنی ریاستی سرکار ہے۔ مرکزمیں بھی انہیں کی
پارٹی برسرِ اقتدار ہے ایسے میں ان کو پھنسانے کی جرأت کون کرسکتا ہے؟
تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ ویرپکشا کے خلاف ابھی تک نہ ہی سی بی آئی نے
کوئی حرکت کی ہے اور نہ ای ڈی نے کوئی اقدام کیا ہے ایسے میں تلنگانہ میں
وزیر اعلیٰ کی بیٹی کے کویتا کا یہ سوال اہم ہوجاتا ہے کہ کیا یہ ادارے صرف
اور حزب اختلاف کو پریشان کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں؟ بی جے پی ویسے بھی
وزیر اعلیٰ بومئی کی خراب شبیہ سے پریشان ہے اور اس دوران یہ نئی مشکل کھڑی
ہوگئی ہے۔ ویسے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے پہلے حجاب کے شدید مخالف
ایشورپاّ نے ایک بی جے پی کے حامی ٹھیکیدار کو رشوت کے لیے اس قدر ہراساں
کیا کہ اس کو خودکشی کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ ایشورپا کے حامیوں نے وزیر
موصوف کی ایماء پر کنٹراکٹر سے ایک کام کیلئے 40 فیصد کمیشن طلب کیا تھا
۔وہ کنٹراکٹر اڈوپی ضلع کے لاج میں مردہ پایا گیا ۔
سنتوش پاٹل نامی ٹھیکیدار نے اپنے آخری پیغام میں وزیر اعظم نریندر مودی ،
وزیر اعلیٰ بسواراج بومائی اور سینئر بی جے پی لیڈر بی ایس یدورپا سے اپیل
کی تھی کہ اس کی موت کے بعد اس کے بیوی اور بچوں کی مدد کی جائے ۔ کنٹراکٹر
نے اپنے پیغام میں واضح طور پر تحریر کیا تھا کہ دیہی ترقیات و پنچایت راج
کے وزیر کے ایس ایشورپا اس کی موت کیلئے مکمل ذمہ دار ہیں۔اس نے یہ فیصلہ
اپنی خواہشات کو بالائے طاق رکھ کرکیا ہے ۔ اس کے جواب میں ایشورپا نے
ٹھیکیدار کو پہچاننے سے انکار کردیا تھا لیکن سنتوش پاٹل کی خودکشی نے
ریاستی بی جے پی حکومت کے لیے کئی مسائل کھڑے کردیئے۔ایک طرف کانگریس نے
کابینی وزیر کے ایس ایشورپا کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنا محاذ
کھولا تو دوسری جانب کہ ریاست کی کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن نے مختلف سنگین
الزامات کی بارش کردی ۔
ایسوسی ایشن نے گزشتہ سال 25 مئی کو بنگلورو میں سرکاری محکموں کی طرف سے
مانگی جانے والی رشوت کے خلاف ایک ریلی نکالنے کا اعلان کردیا جس میں ریاست
بھر سے 50,000 ٹھیکیداروں کی شرکت کو یقینی بنایا گیا۔ایسوسی ایشن کے صدر
ڈی کے ایم پنا اور دیگر عہدیداروں نے اعلان کیا کہ بسواراج بومئی کی حکومت
میں بدعنوانی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے اور پوری حکومت حتیٰ کہ چیف منسٹر
کا دفتر بھی کمیشن خوری کے اس ریکٹ میں ملوث ہے۔ انہوں نے اخباری نامہ
نگاروں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا تھاکہ وزراء اور ارکان اسمبلی براہ
راست سرکاری کاموں کی ٹینڈرنگ کے لیے 40 فیصد کمیشن مانگتے ہیں ۔ٹھیکیداروں
کی ایسوسی ایشن نے الزام لگایا تھا کہ ریاستی وزراء اور قانون سازوں نے
کمیشن لینے کے لیے اپنے ایجنٹوں کو مختلف علاقوں میں تعینات کررکھا ہے نیز
یہاں تک کہہ دیا کہ وزیر اعلیٰ کا دفتر بھی کمیشن خوری میں شامل ہے
۔ٹھیکداروں ایسوسی ایشن نے حکومت کے 5 سے 6 وزراء اور 20 ایم ایل ایز کی
بدعنوانی سے متعلق دستاویزات جاری کرنے کا اعلان کیا اورکام بند کرنے کی
دھمکی بھی دے ڈالی ۔
یہ الزام نہ صرف ریاستی سرکار بلکہ بی جے پی کی قیادت والی مودی حکومت کے
لیے بھی ایک چیلنج تھا ۔اس احتجاج کے دباو میں آکرایشورپا نے معمولی نہ
نکرکے بعد استعفی تو دے دیا مگر چند ماہ کے اندر جب معاملہ سرد ہوا تو
انہیں کلین چٹ مل گئی۔اب پھر یہ ویر پکشا کا نیا معاملہ منظر عام پر آگیا
تو کانگریس کے سابق وزیر اعلیٰ سدارمیا نے کہا کہ ہم جو بات اتنے دنوں سے
وہ کہہ رہے ہیں اب وہ کھل کر سامنے آگئی ہے۔ 40؍ فیصد کمیشن لینے کا ایک
اور ثبوت سامنے آیا ہے۔ ویرپا کشپا کے استعفے سے کچھ نہیں ہو گا، اس
معاملے میں جو لوگ ملوث ہیں ان سب کو سامنے لایا جائے۔ سدارمیاکے مطابق بی
جے پی نے کمیشن لے لے کر اپنی تجوری بھرلی ہے لیکن ریاست کے خزانے کو خالی
کردیا ہے۔ کرناٹک میں اگلے چند ماہ کے اندر انتخابات ہونے والے ہیں اس لیے
یہ واقعہ حکمراں بی جے پی کے لئے شدید جھٹکے سے کم نہیں ہے اور اسے اس کی
بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔
|