نحمدہ نصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم اما بعد !
فاعوذباللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
معزر علماے کرام ، باوقار سامعین !
آج کے اس جشن افتتاح دارالافتا والقضا کی پُر وقار تقریب میں مجھے جشن کی
مناسبت کے فقہ حنفی کے بانی، امت مسلمہ کے عظیم محسن ، سرج الامۃ ، کشف
الغمہ ، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ [۸۰ھ-۱۵۰ھ] کی حیات
مبارکہ کےچند اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے ، محب گرامی
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عالم ساحل اشرفی زید مجدہٗ کے حکم کی تعمیل کر
تے ہو ئے میں نے اس عنوان پر ایک مبسوط مقالہ قلم بند کر نے کی کوشش کی ہے،
مختصر سے وقت میں اس مقالے کے کچھ خاص گوشوں کو آپ حضرات کی خدمت میں پیش
کر نے کی سعادت حاصل کروں گا ، ان شاء اللہ جلد ہی یہ مقالہ کتابی شکل میں
آپ کے مطالعہ کی میز تک پہنچے گا ۔
یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ امت مسلمہ پر حضرت امام اعظم رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کے بے شمار احسانات ہیں ، انھوں نے قرآن و سنت اور آثار
صحابہ کی روشنی میں اسلامی قوانین کی تدوین اور احکام شرعیہ کی تعبیر و
تشریح کا عظیم الشان کار نامہ انجام دے کر امت مسلمہ کے بڑی آسانیاں
پیداکردیں اور مسائل کے حوالےسے امت مرحومہ کو منتشر ہو نے بچالیا ،حضرت
امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل علم کی بڑی عظیم اور بابرکت مجلس
قائم فرمائی ، علمی مسائل پر باہمی بحث و مباحثہ کا سلسلہ شروع فرمایا اور
باہمی علمی مشاورت کے ذریعہ ۸۰ ہزار سے زائد قوانین مدوّن کر کے امت کے
حوالے کیا جو عبادات و معاملات سمیت زندگی کے ہر شعبہ ٔ حیات سے متعلق ہیں
تاکہ بعد میں آنے والوں کے پاس ایک عظیم الشان علمی و فقہی ذخیرہ موجود ہو
اور امت کے عدالتی نظام کو علمی و فقہی بنیاد فراہم ہو جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیات پاک کا
ہر ہر گوشہ امت مسلمہ کے نمونۂ عمل اور نشان ہدایت ہے ، ان کی علمی
،روحانی اور معاشی زندگی کا ہر ہر لمحہ ہمارے لیے آئیڈیل ہے ۔ لیکن افسوس
کہ آج ہم نے اپنے اس عظیم محسن کو فراموش کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی
ہے ، آج ہم اپنے اپنے مشائخ طریقت کی یاد میں جلسے اور کانفرنسیں منعقد کر
تے ہیں ، سیمینار اور سمپوزیم کا انعقاد کیا جاتا ہے ، ان کے ذکر جمیل کو
زندہ وتابندہ رکھنے کے لیے خصوصی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں ، لیکن ہم اپنے
امام اور امت کے اُس عظیم محسن کوفراموش کر جاتے ہیں جن کی تقلید کا قلادہ
ہماری گردنوں کا زیور ہے ، جن کی نسبت ہمارے لیے باعث فخر ومباہات ہے ، جن
کے اخذ کردہ اصول وقوانین ہمیں زندگی کے ہر گو شے میں روشنی عطاکرتے ہیں ،
جن کی علمی کاوشوں سے ہماری خِرمن حیات سر سبز وشاداب ہے۔یقینا آج کی یہ
تقریب احسان فراموشی کے اس نامسعود روایت کو توڑ کر اپنے امام کی بارگاہ
میں خراج عقیدت پیش کر نے کے حوالے سے برسوں یاد رکھی جائے گی ۔ ہمیں چاہیے
کہ جس طرح ہم اپنے دیگر اسلاف اور مشائخ ِ سلاسل کی یادوں کو زندہ وتابندہ
رکھنے کے لیے خاص تقریبات منعقد کرتے ہیں ، اسی طرح اپنے سلسۂ فقہ وافتا
کے شیخ امام الامہ، کشف الغمہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ
والرضوان کی یادوں کے نقوش کو حرز جاں بنائے رکھنے کے لیے ان کے یوم وصال
یعنی ۲؍ شعبان المعظم کو ’’یوم امام اعظم ‘‘ کے طور پر منانے کا عہد کر یں
اور اپنے مدارس ، مساجد اور خانقاہوں میں اس کا خصوصی اہتمام کریں ۔
حضرات!
ہم نے اپنے اس مقالے میں حضرت امام اعظم علیہ الرحمۃ والرضوان کے اوصاف
وکمالات ، فضائل ومناقب ،افکار نظریات،تعلیمات وہدایات اور خدمات و کار
ناموں پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔حضرت امام اعظم ابو
حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیات مبارکہ کےچند اہم گوشےہماری گفتگو کا
محور ہیں ،اگر ہم ان گوشوں کا جائزہ لے کر اپنے امام کے نقوش پا کو اپنے
لیے مشعل ہدایت بنالیں تو یہ ہماری دنیوی واُخروی سعادت کا ذریعہ اور فتح
وکامرانی کا وسیلہ ہو گا ۔ ہم نے اپنے اس مقا لے میں درج ذیل گوشوں خاص
طورسے روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔
• حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے امتیازی فضائل ومناقب
• حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علمی زندگی
• حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روحانی زندگی
• حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معاشی زندگی
حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے امتیازی فضائل ومناقب :
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا اسم گرامی نعمان ، کنیت ابوحنیفہ اور لقب امام
اعظم اور سراج الامہ ہے ،آپ صحیح ترین روایت کے مطابق ۸۰ھ کوشہر کوفہ میں
پیدا ہو ئے ، حافظ ابو بکر احمد بن علی خطیب بغدادی [ متوفی ٰ ۴۶۳ھ]نے اپنی
مشہور زمانہ تصنیف ’’تاریخ بغداد ‘‘میں حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کے پوتے حضرت اسماعیل بن حماد کا بیان نقل کیاہے :
ولد جدی فی سنۃ ثمانین
میرے دادا حضرت ابو حنیفہ کی ولادت ۸۰ھ میں ہو ئی ۔[ تاریخ بغداد،ج:۱۳، ص:
۳۲۶]
حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی عظمت وفضیلت کی انتہا یہ ہے کہ آ پ کے
علم وفضل اور بلند مقام ومرتبے کی بشارت سر کار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم
نے دی تھی ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہسے روایت ہے ، سر کار
دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا :
لوکان الدین عند الثریا لذھب بہ رجل من فارس اوقال من ابناء فارس حتی یتنا
ولہ [ صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضل فارس ]
یعنی اگر دین اوج ثریا پر بھی ہو ا تو اہل فارس [ یا فر مایا : ابناء فارس
] میں سے ایک شخص اسے وہاں سے بھی پالے گا ۔
حضرت امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے تبییض الصحیٖفہ بمناقب
ابی حنیفہ میں اس حدیث کے حوالے سے تحریر فر مایا :
اقول وقد بشر بالامام ابی حنیفہ فی الحدیث الذی اخرجہ ابو نعیم فی الحلیۃ [
تبییض الصحیفہ بمناقب ابی حنیفۃ،ص: ۳۱]
میں کہتا ہوں : اس حدیث میں امام ابو حنیفہ کی بشارت دی گئی ہے ، جسے امام
ابو نعیم نے حلیۃ الاولیا میں روا یت کیا ہے۔
علامہ ابن حجر ہیتمی مکی شافعی [۹۷۳ھ]نے علامہ سیوطی کی تائید کرتے ہوئے فر
مایا :
ان الامام ابا حنیفہ ھوالمر اد من ھذ الحدیث ظاھر لاشک فیہ لانہ لم یبلغ
احد فی زمنہ من ابناء فارس فی العلم مبلغہ ولا مبلغ اصحابہ وفیہ معجزۃ
ظاھرۃ للنبی صلی اللہ علیہ وسلم حیث اخبر بما سیقع، ولیس المراد بفارس
البلد المعروف بل جنس من العجم وھم الفروس وسیاتی ان جد الامام ابی حنیفہ
منھم علیٰ ما علیہ الاکثرون [ الخیرات الحسان : ۲۴]
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اس حدیث میں رجل سے حضرت امام ابو حنیفہ مراد ہیں
، کیوں کہ آپ کے زمانے میں اہل فارس میں سے کوئی شخص بھی آپ کے مبلغ علم
اور آپ کے شاگردوں کے درجۂ علم تک نہیں پہنچا، اس حدیث سے حضور نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ بھی ظاہر ہے کہ جیسا آپ نے خبر دی ویسا ہی
وقوع پذیر ہوا۔فارس سے مراد کوئی مشہور شہر نہیں بلکہ یہ عجم کے لحاظ سے
جنس ہے اور وہ فارسی کہلاتے ہیں ، جیسا کہ آگے آئے گا کہ امام ابو حنیفہ
کے دادا فارسی تھے، اسی پر اکثر ائمہ کا اتفاق ہے۔
مذکورہ حدیث پاک کے مصداق حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ہیں ائمۂ
اربعہ میں سے کوئی دوسرے امام اس کے مصداق نہیں ہیں اس یہ دلیل بھی اہمیت
رکھتی ہے کہ حضرت امام عظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ فقہ کے ائمۂ
ثلاثہ میں سے کوئی بھی فارسی النسل نہیں تھے ، کیوں کہ حضرت امام شافعی
رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ۱۵۰ھ میں بیت المقدس کے علاقہ عسقلان یا غزہ میں
ہوئی اور وصال ۲۰۴ھ کو مصر میں ہوا۔[ تہذیب الاسماء واللغات للنووی
،ج:۱،ص:۶۸]
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ والد گرامی اور والدۂ ماجدہ دونوں
کے اعتبار سے عربی النسل ہیں ، آپ کی ولادت۱۶۴ھ کو بغداد میں ہو ئی اور
بغداد ہی میں ۲۴۱ھ کو وصال ہوا۔[ تہذیب الکمال ، ج:۱، ص: ۴۳۷]
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ۹۳ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی اور
۱۷۹ھ کو وصال بھی مدینہ منورہ میں ہوا، آپ جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔لہذا
یہ پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ اس حدیث کے مصداق حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ
علیہ ہی ہیں۔
حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت وفضیلت اور آپ کی عبقری شخصیت
کو حضرت مولاعلی کرم اللہ وجہہ الکریم کی دعاؤں کا ثر بھی کہا جات ہے ۔ در
اصل حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ کے دادا حضرت نعمان بن
مرزبان ایک روز اپنے بیٹے ثابت کو لے کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی
خدمت میں حاضر ہو ئے ان کے حق میں دعا کی گزارش کی تو آپ نے نہ صرف ثابت
بلکہ ان کی اولاد کے لیے بھی برکت کی دعا فر مائی ۔
حضرت امام اعظم کے پوتے حضرت اسماعیل بن حماد سے روایت ہے :
ذھب ثابت إلی علی أبن أبی طالب وھو صغیر فدعالہ بالبرکۃ فیہ وفی ذریتہ ونحن
نرجو من اللہ أن یکون قداستجاب اللہ ذلک لعلی ابن أبی طالب فینا ۔[تاریخ
بغداد، ج:۱۳، ص: ۳۲۷]
میرے دادا حضرت ابو حنیفہ کے والد ثابت جب کہ وہ چھوٹے تھے حضرت علی بن ابی
طالب کی بار گاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے ثابت اور ان کی اولاد کے لیے دعا
فر مائی ، ہم اللہ تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ اس نے ہمارے حق میں حضرت
علی ابن ابی طالب کی دعا قبول فر مائی ہے ۔
یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی دعاؤں کا ثر ہے کہ میرے ابو حینفہ
علم فقہ وحدیث کے امام ہو ئے اور چہار دانگ عالم میں آپ کی فقاہت کی شہرت
ہو ئی یہاں تک امام اعظم کے لقب سے ملقب کیے گئے ۔
حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فقاہت ، ثقاہت ، ذکاوت تبحر علمی ،
نکتہ رسی ، خدا ترسی ، زہد وغنا اور آپ کے گونا گوں فضائل وکمالات کا
اعتراف ، قفہا، مجتہدین ، محدثین ،ناقدین ، مورخین، علماے جرح وتعدیل سبھی
نے کیا ہے ہم یہاں اکابرِ امت کے چند اقوال پیش کرتے ہیں:
يَحْيى بن مَعِينٍ يَقُولُ: كانَ أبُو حَنِيفَةَ ثِقَةً، لاَ يُحَدِّثُ
بِالحَدِيثِ إلاَّ بِما يَحْفَظُهُ. ولا يحدث بما لا يحفظ؛ [سير أعلام
النبلاء ج: ٦،ص: ٣٩٥]
یعنی : امام جرح وتعديل حضرت ابو زکریا یحییٰ بن معین متوفیٰ : ٢٣٣ھ فرماتے
ہیں:
ابوحنیفہ ثقہ تھے۔ وہ حدیث نہیں بیان کرتے تھے، مگر وہی جو انھیں حفظ ہوتی۔
جو یاد نہ ہو؛ انھیں بیان نہ کرتے تھے ۔
قَالَ صالِحُ بْنَ مُحَمَّدٍ الأسَدِيُّ عَنْ ابْنِ مَعِين: « كانَ أبُو
حَنِيفَةَ ثِقَةً فِي الحَدِيثِ. [تهذيب الكمال ٧/٣٣٩]
حضرت صالح بن محمد اسدی متوفیٰ ؛ ٢٩٣ھ نے امام یحییٰ بن معین کے حوالے سے
بیان کیا ہے کہ ابوحنیفہ فن حدیث میں ثقہ تھے۔
قال الشافعي: قيل لمالك: هل رأيت أبا حنيفة؟ قال: نعم، رأيت رجلًا لو كلمك
في هذه السارية أن يجعلها ذهبًا، لقام بحجَّته؛ [سير أعلام النبلاء ج: ٦،ص:
٣٩٩]
حضرت امام محمد بن ادریس شافعی متوفیٰ:٢٠٤ھ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام
مالک رضی اللہ عنہ سے سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے امام ابو حنیفہ رضی اللہ
عنہ کو دیکھا ہے؟ فرمایا : بالکل، میں نے ایسے شخص کو دیکھا ہے کہ اگر وہ
اس ستون کے بارے میں سونا ہونے کا قول کرلیں؛ تو ضرور اسے اپنی دلیل سے
ثابت کردیں گے ۔
قالَ الشّافِعِيُّ: مَن أرادَ الفِقْهَ فَهُوَ عِيالٌ عَلى أبِي
حَنِيفَةَ.[البدایۃ والنهایۃ ١٣/٤١٩]
یعنی : مجتہد مطلق حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو فقہ
میں گہرائی حاصل کرنا چاہتا ہے؛ وہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا
محتاج ہے ۔
عَلِيّ بْن ميمون، قالَ: سمعت الشافعي، يقول: إني لأتبرك بأبي حنيفة وأجيء
إلى قبره في كل يوم، يَعْنِي زائرا، فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين، وجئت
إلى قبره وسألت الله تعالى الحاجة عنده، فما تبعد عني حتى تقضى. [تاريخ
بغداد،١/١٣٥]
یعنی : حضرت علی بن میمون نے فرمایا کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ
سے سنا کہ بے شک میں امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے برکت حاصل کرتا ہوں،
اور ہر روز ان کی قبر کی زیارت کے لیے آتا ہوں۔ جب مجھے کوئی حاجت پیش آئے؛
تو میں دو رکعت نماز پڑھتا ہوں، اور امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی قبر پر
حاضری دیتا ہوں۔ اور قبر کے پاس اللہ تعالی سے دعا مانگتا ہوں؛ تو وہ میری
حاجت بہت جلد پوری ہو جاتی ہے۔
قالَ سُفْيانُ الثَّوْرِيُّ :«كان أبو حنيفة أفقه أهل الأرض في زمانه».
[الفقيہ والمتفقہ ٢/ ٧٣]
یعنی : امام سفیان ثوری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ
عنہ اپنے زمانے میں روئے زمین کے سب سے بڑے فقیہ تھے۔
قال علي بن عاصم: لو وُزن علم الإمام أبي حنيفة بعلم أهل زمانه، لرجح
عليهم.(سير أعلام النبلاء ،٦ / ٤٠٣]
یعنی : حضرت علی بن عاصم کہتے ہیں کہ اگر امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے
علم کا ان کے اہلِ زمانہ کے علم سے موازنہ کیا جائے؛ تو آپ کا علم ان کے
علم پر غالب ہوگا ۔
قال عبدالله بن المبارك: ما رأيت رجلًا أوقر في مجلسه، ولا أحسن سمتًا
وحِلمًا من أبي حنيفة [سير أعلام النبلاء ج: ٦،ص:٤٠٠]
یعنی : حضرت عبداللہ بن المبارک نے فرمایا : میں نے امام ابوحنیفہ سے بڑھ
کر کوئی شخص نہیں دیکھا جو اپنی نشست پر زیادہ عزت ووقار والا ہو اور نہ ہی
حسنِ اخلاق اور نہ ہی بردباری میں اس سے بہتر کسی کو پایا ۔
قالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ داوُدَ الخُرَيْبِيُّ: يَنْبَغِي لِلنّاسِ أنْ
يَدْعُوا فِي صَلاتِهِمْ لِأبِي حَنِيفَةَ؛ لِحِفْظِهِ الفِقْهَ والسُّنَنَ
عَلَيْهِمْ. [ایضاً]
یعنی :حضرت عبداللہ بن داؤد خریبی فرماتے ہیں کہ لوگوں کو چاہیے کہ اپنی
نمازوں میں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کیا کریں؛ کیوں کہ
انھوں نے لوگوں کے لیے فقہ و سنت کی حفاظت فرمائی ہے ۔
قال حفص بن غياث: كلام أبي حنيفة في الفقه أدق من الشعر، لا يعيبه إلا
جاهل.[سير أعلام النبلاء،٦/ ٤٠٤]
یعنی : حضرت حفص بن غیاث کہتے ہیں کہ فقہ کے معاملے میں امام اعظم ابو
حنیفہ رضی اللہ عنہ کا کلام؛ شعر سے زیادہ باریکیاں لیے ہوئے ہے ۔ ان کی
عیب جوئی کوئی نرا جاہل ہی کرسکتا ہے ۔
وقال شعبة بن الحجاج : كان والله حسَنَ الفهم، جيد الحفظ؛ (الخيرات الحسان
لابن حجر المكي ص: ٣٤].
امام شعبہ بن حجاج نے فرمایا : بخدا! امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ حسنِ فہم
کے مالک اور جید الحفظ (یعنی : اچھی یاد داشت والے) تھے ۔
قال مكي بن إبراهيم : كان أبو حنيفة أعلمَ أهلِ الأرض. [البدایۃ والنهایۃ،
١٠/ ١١٠]
امام بخاری کے استاذ شیخ مکی بن ابراہیم رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ امام
ابو حنیفہ رضی اللہ روئے زمین پر سب سے بڑے عالم تھے ۔
قال يحيى بن سعيد القطان: لا نكذب الله، ما سمعنا أحسنَ مِن رأي أبي حنيفة،
وقد أخذنا بأكثرِ أقواله ]سير أعلام النبلاء ،٦ /٤٠٢ [
یعنی : امام یحییٰ بن سعید القطان فرماتے ہیں : ہم خدا سے جھوٹ نہیں بولتے،
ہم نے امام ابوحنیفہ کی رائے سے اچھی کوئی رائے نہیں سنی ، اور ہم نے ان کے
اکثر قول کو لےلیا ہے۔
قال أبو نُعيم الأصبهاني: كان أبو حنيفة صاحبَ غوصٍ في المسائل [تهذيب
التهذيب ، ٥ /٦٣٠]
یعنی : امام ابونعیم اصفہانی کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ
مسائل کی خوب تہ تک پہنچنے والے تھے ۔
قال سوار بن حكم : ما رأيتُ أورع منه؛ نُهِي عن الفتيا، فبينا هو وابنته
يأكلان تخللت ابنته، فخرج على خلالها صفرة دم، فقالت: يا أبت، عليَّ في هذا
وضوءٌ، فقال: إني نُهِيت عن الفتيا، فحلفتُ لهم، فسَلِي أخاك حمادًا؛
[الانتقاء لابن عبدالبر صـ 169]
یعنی : حضرت سوار بن حکم کہتے ہیں کہ میں نے ان سے زیادہ صاحبِ تقوی و ورع
کوئی نہیں دیکھا۔ ان کو فتویٰ دینے سے منع کیا گیا تھا، چنانچہ جب وہ اور
ان کی بیٹی کھانا کھا رہے تھے؛ اس دوران ان کی صاحبزادی نے صفرہ آمیز خون
کی قے کی، صاحبزادی نے عرض کیا : ابا جان! کیا اس کی وجہ سے مجھ پر وضو
کرنا لازم ہوگیا ؟ انھوں نے کہا: مجھے فتویٰ دینے سے منع کیا گیا ہے۔ میں
نے لوگوں سے قسم کھائی ہے ۔ لہٰذا اپنے بھائی حماد سے پوچھ لو۔
قال أسد بن عمر: صلى أبو حنيفة الفجرَ بوضوء صلاة العشاء أربعين سنة، فكان
عامةَ الليل يقرأ جميع القرآن في ركعة واحدة، وكان يُسمَع بكاؤُه بالليل
حتى يرحَمَه جيرانُه؛ [تاريخ بغداد، ١٣ /٣٦٣].
یعنی : حضرت شیخ اسد بن عمر کہتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ
نے چالیس سال تک عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی، عام راتوں کا معمول تھا
کہ ۱یک رکعت میں پورا قرآن پڑھ لیا کرتے تھے، رات میں ان کی گریہ وزاری کی
آواز سنی جاتی تھی، حتی کہ پڑوسیوں کو ان پر ترس آتا تھا ۔
قال الذهبي: الإمامة في الفقه ودقائقه مسلَّمةٌ إلى هذا الإمام، وهذا أمرٌ
لا شك فيه؛ [سير أعلام النبلاء ،٦ /٤٠٠]
یعنی : امام ذہبی فرماتے ہیں کہ فقہ اور اس کی باریکیوں سے متعلق درجۂ
امامت اِس امام کے حوالے کردیا گیا ہے ۔ اور یہ ایسی بات ہے کہ اس میں شک
کی کوئی گنجائش نہیں ۔
امام وکیع بن الجراح [ متوفیٰ ۱۹۶ھ] حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی
شان فقا ہت بیان کرتے ہوئے فر ماتے ہیں :
مالقیت احدا أفقہ من أبی حنیفۃ والا أحسن صلاۃ منہ [ تاریخ بغداد، ج: ۱۳،
۳۴۵]
میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ سے زیادہ فقیہ اور ان سے اچھی نماز پڑھنے
والا کسی کو نہیں دیکھا ۔
حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک عظیم شرف وامتیاز یہ بھی ہے کہ
معروف ائمۂ فقہ میں صرف آپ کو ہی تا بعیت کا صرف حاصل ہے ، آپ خود حضرت
انس بن مالک کی زیارت کا تذکرہ کرتے ہوئے فر ماتے ہیں :
رئیت انس ابن مالک قائما یصلی [ مسند الامام ابی حنیفۃ ۱۷۶]
یعنی میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نماز پڑھتے ہوئے
دیکھا کہ آپ حالت قیام میں تھے۔
ایک دوسرے مقام پر فر مایا:
قدم انس ابن مالک الکوفۃ ونزل النخع رئیتہ مرار[ التدوین فی اخبار قزوین ]
یعنی حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ کوفہ تشریف لائے ، مقام نخع پر
اترے، میں نے انھیں کئی بار دیکھا ۔
امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حیات پاک کا مطالعہ کر نے سے پتہ چلتا ہے
کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے نہ صرف متعدد صحابۂ کرام سے ملاقات کی
بلکہ ان سے براہ راست سماع حدیث بھی فر مایا ۔تبییض الصحیٖفہ بمناقب ابی
حنیفہ میں حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت منقول ہے :
قال ابو حنیفۃ : لقیت من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سبعۃ : انس
ابن مالک ، عبد اللہ بن انس، وعبداللہ بن جزء الزبیدی ، وجابر بن عبد اللہ
ومعقل بن یسار، واثلہ بن الا سقع، عائشہ بنت عجرد۔
ثم روی لہ عن انس ثلاث احادیث وعن ابن جزء حدیثا وعن واثلۃ حدیثین وعن جابر
حدیثا وعن عبداللہ بن انیس حدیثا وعن عائشہ بن عجرد حدیثا وروی لہ ایضا عن
عبد اللہ ابی اوفیٰ حدیثا۔[تبییض الصحیفہ بمناقب ابی حنیفۃ ، ص: ۳۳]
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ فر ماتے ہیں :
میں نے سات اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاقات کی ہے ، جن میں حضرت
انس ابن مالک ، حضرت عبد اللہ بن انیس ، حضرت عبد اللہ بن جزء الزبیدی ،
حضرت جابر بن عبد اللہ ، حضرت معقل بن یسار، حضرت واثلہ بن اسقع اور حضرت
عائشہ بنت عجرد۔
پھر آپ نے حضرت انس سے تین احادیث ، حضرت ابن جزء سے ایک حدیث ، حضرت
واثلہ سے دوحدیثیں ، حضرت جابر سے ایک حدیث ، حضرت عبد اللہ بن انیس سے ایک
حدیث ، حضرت عائشہ بنت عجرد سے ایک حدیث ، اسی طرح عبد اللہ بن ابی اوفیٰ
ایک حدیث روایت کی ۔
یعنی حضرت امام عظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے صحابۂ کرام کی زیارت اور ا
ن کے بوستانِ حدیث سے خوشہ چینی دونوں ثابت ہیں ، ان دونوں صفات عظیمہ کی
بنیاد پر آپ کا شمار جلیل القدر محدثین اور تابعین میں ہوتا ہے ، یہ بلند
رتبہ آپ کے معاصر فقہا ومحدثین کو حاصل نہیں ہوسکا ۔
حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علمی زندگی:
آپ کا مولد ومسکن شہر کوفہ علم وفن کا مرکز تھا، یہاں کی علمی فضا کو
معلمِ امت حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مدینۃ العلم حضرت
مولاعلی کرّم اللہ وجہہ الکریم اور بےشمار صحابہ وتابعین کی سر پرستی حاصل
تھی ،مورّخین نے لکھا ہے کہ جامع کوفہ کی ہر محراب کسی نہ کسی شیخ کی درس
گاہ تھی ، گویا چہار جانب علم وفن کا غلغلہ تھا ،اس لیے آپ کے اندر تحصیل
علم کا جذبہ پیدا ہونا فطری بات تھی ، ہوش مندی کے آثار بچپن ہی سے نمایاں
تھے ، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت اور حضرت مولاعلی کرّم
اللہ وجہہ الکریم کی دعاؤں کے اثرات بھی پیشانی مبارک پر ہویدا تھے ، کوفہ
کے مشہور امامِ حدیث حضرت عامر شعبی نے ایک دن آپ کو بازار جاتے ہوئے دیکھ
کر فر مایا :
لاتغفل وعلیک بالنظر فی العلم ومجالسۃ العلماء فانی أریٰ فیک یقظۃ وحرکۃ۔
یعنی تم غفلت میں نہ پڑو، اپنے کو تحصیل علم میں لگاؤ، علما کی مجلسوں میں
جایا کرو،اس لیے کہ میں تمہارے اندر بیدار مغزی اور حرکت کا مادہ پاتا ہوں
۔
حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فر ماتے ہیں :
فوقع فی قلبی من قولہ وترکت الاختلاف الی السوق واخذت فی العلم فنفعنی اللہ
تعالیٰ
یعنی حضر ت امام شعبی کی بات کا میرے دل پر بڑا اثر ہوا اور میں نے بازار
جانا چھوڑ دیا اور کسب علم کی راہ اختیار کرلی تو اللہ تعالیٰ نے مجھےفائدہ
پہنچایا۔
حضرت امام عظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابتدائی تعلیم اور زبان وادب پر
دسترس حاصل کر نے کے بعد اپنی پوری توجہ علمِ کلام کی تحصیل پر صرف فرمائی
، در اصل آپ نے جس شہر میں شعور کی آنکھیں کھولی تھیں وہاں عرب وعجم کے
متعدد قبائل آباد تھے،اعتقادی بحثوں کا بازار گرم تھا، متعدد باطل فرقے سر
اٹھا رہے تھے اور اسلام کے بنیادی عقائد میں فلسفیانہ موشگافیوں کے ذریعہ
باطل افکار ونظریات کو فروغ دینے میں لگے ہو ئے تھے ۔ ان باطل فرقوں کی
سورشیں اس قدر عام ہو ئیں کہ اہل حق نے ان ناروا افکار کی تردید کے لیے
مناظرے شروع کیے ۔ حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس میدان میں قدم
رکھا اور وہ کمال حاصل کیا کہ بڑے بڑے اساطین فن آپ کے ساتھ بحث کر نے سے
جی چرانے لگے ۔
علامہ شیخ شہاب الدین احمد ابن حجر مکی متوفیٰ[۹۷۳ھ] نے اپنی تالیف الخیرات
الحسان میں تحریر فر مایا :
أخذ فی علم الکلام وبلغ فیہ مبلغا یشار إلیہ فیہ بالأصابع وأعطیٰ فیہ جدلا
فمضی علیہ زمن بہ یخاصم وعنہ یناصل حتی دخل البصرۃ نیفا وعشرین مرۃ یقیم فی
بعض المرات سنۃ أو أکثر ینازع أولئک الفرق۔[ الخیرات الحسان ، ص: ۵۵]
حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ نے علم کلام حاصل کیا اور اس میں ایسا کمال
پیدا کیا کہ لوگ آپ کی طرف انگلیوں سے اشا رہ کرتے تھے [ یعنی آپ لوگوں
کی توجہ کا مرکز بن گئے تھے] آپ ایک زمانہ تک اس میں مناظرہ کرتے رہے اور
اس فن سے اعتراضات دفع کرتے رہے ، یہاں تک کہ آپ نے اسی غرض سے تقریبا بیس
مرتبہ بصرہ کا سفر فرمایا [ کیوں کہ بصرہ باطل فرقوں کی آماجگاہ تھا]بعض
مرتبہ آپ وہاں سال بھر سے بھی زیادہ اقامت اختیار فرماتے اور باطل فرقوں
سے مناظرہ فر مایا کرتے ۔
علم کلام میں عالم گیر شہرت حاصل کر نے اور باطل فرقوں سے ایک عرصے تک بر
سر پیکار رہنے کے بعد آپ نے محسوس کیا کہ جو لوگ علم کلام میں مجادلے کرتے
ہیں ان کے چہروں پر متقدمین کے چہروں کا سا اثر نہیں ہو تا ہے اور نہ ان کا
طریقہ صالحین کا طریقہ ہو تا ہے، آپ فر ماتے ہیں کہ میں نے ان کے دلوں کو
سخت پایا ، وہ کتاب وسنت اور طریقۂ سلف کی مخالفت کی پروا نہیں کرتے اور
نہ ان میں زہدوورع ہو تا ہے، مجھ کو یقین ہو گیا کہ اس میں خوبی نہیں ہے
اور میں اس راہ سے الگ ہو گیا ۔[ مناقب امام اعظم ج: ۱، ص: ۶۷]
علم کلام میں کمال حاصل کر نے اور برسوں اس دَشت کی سیاحی کے بعد آپ نے
علم فقہ کی تحصیل کی طرف توجہ فر مائی،تحصیل فقہ کے لیے آپ نے شیخ حماد بن
ابی سلیمان [متوفی ۱۲۰ھ]کی درس گاہ کاانتخاب فر مایا ۔امام وفقیہ شیخ حماد
رضی اللہ عنہ حضرت انس بن مالک کے سب سے قریبی اور معتمد شاگرد ہیں، امام
عظم ابوحنیفہ ان کی صحبت میں ۱۸؍سال رہے۔ ۱۲۰ ہجری میں شیخ حماد رحمۃ اللہ
علیہ کے انتقال کے بعد حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ہی ان کی مسند درس پر فائز
ہوئے۔
مکہ مکرمہ میں مقیم شیخ عطا بن ابی رباح سے بھی امام ابوحنیفہ نے بھرپور
استفادہ کیا۔ شیخ عطا بن ابی رباح نے بے شمار صحابہٴ کرام خاص طورپر حضرت
عائشہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت ام سلمہ،حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن
عمر سے استفادہ کیا تھا۔ شیخ عطاء بن ابی رباح صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن
عمر کے خصوصی شاگرد ہیں۔
حافظ ابو بکراحمدبن علی خطیب بغدادی [ متوفی ٰ ۴۶۳ھ] آپ کے اہم شیوخ کا
تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
رأی أنس بن مالک وسمع عطاءبن رباح وأبا اسحق السبیعی ومحارب بن دثار وحماد
بن أبی سلیمان والھیثم بن حبیب صواف وقیس بن مسلم ومحمدبن منکدر ونافع
مولیٰ ابن عمر وھشام بن عروۃ ویزید الفقیر وسماک بن حرب وعلقمہ بن مرثد
وعطیۃ العوفی وعبد العزیز بن رفیع وعبد الکریم أبا أمیۃ وغیرھم۔[ تاریخ
بغداد، ج: ۱۳، ص: ۳۱۴]
یعنی حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کو دیکھا اور عطا بن ابی رباح ، ابو اسحق سبیعی ، محارب بن
دثار، حماد بن ابی سلیمان ، ہیثم بن حبیب صواف ، قیس بن مسلم ، محمد بن
منکدر ، نافع مولیٰ ابن عمر، ہشام بن عروہ، یزید الفقیر، سماک بن حرب ،
علقمہ بن مرثد، عطیہ العوافی ، عبد العزیز بن رفیع ، عبد الکریم ابو امیۃ
وغیرہم سے سماع حدیث کیا ۔
اساطین علم کی درس گاہوں فیض حاصل کر نے کے بعد حضرت امام اعظم رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے تمام علوم وفنون میں کامل دسترس حاصل کرلی تھی ، بلکہ اجتہاد
کا درجہ حاصل کر لیا تھا ، آپ اپنی علاحدہ درس گاہ قائم کرسکتے تھے ، لیکن
جب تک آپ کے استاذ گرامی حضرت امام حمادرضی اللہ تعالیٰ عنہ باحیات رہے ،
آپ نے الگ درس گاہ نہیں لگائی ، آپ اپنے استاذ کا اس قدر احترام فرماتے
تھے کہ ان کی حیات میں کبھی بھی اپنے استاذ کے گھر کی طرف پاؤں نہیں
پھیلایا، آپ نے حضرت امام حماد کے وصال کے بعد ان کے مسند تدریس کو رونق
بخشی ۔
مسند تدریس پر فائز ہو نے کے بعد آپ کی انفرادی تدریس اور انداز تربیت کا
شہرہ سارے اسلامی بلاد وامصار میں پھیل گیا، شائقین علم وفن چہار دانگ عالم
سے کوفہ آکر آپ سے استفادہ کرتے،آپ جب کبھی سفر پر کوفہ سے باہر تشریف
لے جاتے تو وہاں بھی تشنگان علم وفن کا ازدحام ہوتا ، یہاں تک کہ حر مین
طیبین کے سفر پر جاتے تو چاروں جانب شہرہ ہو جاتا کہ فقیہ عراق عرب کو
جارہاہے ، جس راستے سے گزرتے شائقین کا مجمع ہو جاتا ، مکہ معظمہ میں تو
لوگوں کی اس قدر کثرت ہو تی کہ مجلس میں تل رکھنے کی جگہ نہیں ہو تی ،اس
بھیڑ میں شائقین فقہ بھی ہو تے اور علم حدیث کی جستجو رکھنے والے بھی ۔[
الجواہر المضیہ ، باب الکنیٰ ترجمۂ ابو عاصم ،ص:۴۵۲]
حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تیس سال تک علم فقہ کے شیدائیوں کو
فیض یاب فر مایا ، ہزاروں فقیہ پیدا ہو ئے ،علامہ کر دری نے امام عظم رضی
اللہ عنہ کے آٹھ سومشاہیر تلامذہ کا ذکر فر مایا ہے ، ان تلامذہ میں
درجنوں ایسے تھے جو اجتہاد کے منصب پر فائز تھے۔
امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور فقہ حنفی کی تدوین :
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ سے قبل جلیل القدر
تابعین حضرت علقمہ،حضرت اسود،حضرت حماد،حضرت ابراہیم نخغی وغیرہم اور اہل
علم صحابہ کرام کے ہاں علم حدیث کی طرح فقہی مسائل کے استخراج واستنباط کا
سلسلہ جاری تھا اور فقہ واجتہاد کے بہت سے مسائل اور احکام مدوّن بھی ہو
چکے تھے، مگر یہ باقاعدہ اور منظم تدوین نہ تھی اور نہ اسے ایک مستقل فن کی
حیثیت حاصل تھی اور نہ ابھی تک استدلال واستنباطِ مسائل کے قواعد مقرر ہوئے
تھے۔فقہ واجتہاد جو اپنے وسیع اور ہمہ گیرنظام اور جامع فن ہونے کی وجہ سے
جزئیات مسائل پر حاوی ہے ،اس کو باقاعدہ ایک دستور اور قانون کے مرتبہ تک
پہنچانے کے لیے ابھی بہت سے مرحلے باقی تھے ۔ہجرت کا ایک سو بیسواں سال تھا
۔امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے استاذ حضرت امام حماد رضی اللہ
تعالیٰ عنہ وفات پاچکے تھے ۔یہ وہ زمانہ تھا کہ جب تمدن میں وسعت کی وجہ سے
عبادات ومعاملات میں کثرت سےمسائل و واقعات پیش آنے لگے تھے۔تعلیم وتعّلم
میں ترقی اور تنوّع ،تجارت کا فروغ ،ملکی تعلقات اور بین الاقوامی مسائل
ومعاملات میں بے انتہا وسعتوں کے پیش نظر استفتا واستفسارِمسائل کی کثرت
ہونے لگی تھی۔سرکاری قضاۃ وحکام کے قضایاوفیصلوں میں غلطی کے پیش نظر امام
ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ احکام ومسائل
کے کثیر اور وسیع جزئیات کو اصولوں کے ساتھ ترتیب دے کر ایک فن بنایا جائے
اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا دستور العمل مرتب کر دیا جائے جس میں
تمام چیزوں کی رعایت ہو۔یہ کام فقہ اسلامی کی مکمل تدوین اور اصولوں کی
تعیین کے بغیر ممکن نہیں تھا۔چنانچہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی
مجتہدانہ طبیعت نے ان کواس فن کی ترتیب پر آمادہ کیا۔ظاہر ہے فقہ اسلامی کی
تدوین اور ترتیب میں فقہ واجتہاد کے تمام پہلو شامل ہونے تھے، لہٰذا یہ ایک
پر خطر اور حزم واحتیاط کا کام تھا۔
مجلس اجتہاد کی تشکیل اور اجتہادِ اجتماعی کا طریقہ ٔکا ر
حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیگر مجتہدین کے برعکس اجتہاد
واستخراج کا یہ پر خطر کام انفرادی واستبدادی اندازمیں تنہا انجام نہیں
دیا، بلکہ اس مقصد کے لیےآپ نے اپنے خاص تلامذہ کو، جو حدیث وفقہ میں ماہر
ہونے کے ساتھ آپ کی صحبت کے فیض یافتہ ،زاہد وعبادت گزار اور انتہائی متقی
لوگ تھے ،منتخب کر کے ایک مجلس فقہ تشکیل دی جو حریت فکر اور اظہار رائے
میں اپنی مثال آپ تھی۔
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تدوین فقہ وقانون کے لیے جن جن
علوم کے ماہروں کی ضرورت تھی، انھوں نے فقہ اسلامی کے مختلف ابواب ومباحث
کو ذہن میں رکھتے ہوئے نہایت کامیابی سے ان علوم میں مہارت رکھنے والے
افراد کو نہ صرف جمع کیا بلکہ سالہا سال ان کی علمی اور مالی سر پرستی کرکے
امت کو ایک بے مثال مجموعہ قوانین وفقہ کا تحفہ دیا۔
امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس فقہ واجتہاد کے ارکان کے ناموں
کی تلاش کے لیے آپ کے سوانح نگاروں نے سخت جگر کاوی کی ہے۔ آپ کی تدوین فقہ
کے تیس سالوں میں سیکڑوں طالب علموں نے کسب فیض کیا ۔ان میں سے بعض غیر
معمولی قابلیت کے حامل تلامذہ کو امام اپنی مجلس فقہ میں شامل کر لیتے تھے
جب کہ اکثریت ایک خاص مدت تک امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طریقہ
ٔاستدلال اور منہج اجتہاد میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اپنے شہروں کو روانہ
ہو جاتی تھی ۔
مجلس میں مسائل پر بحث وگفتگو کے طریقے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے امام
الموفق لکھتے ہیں :
کان یلقی مسئلۃ مسئلۃ یقلبھم ویسمع ماعندھم ویقول ماعندہ ویناظرھم شھرا أو
أکثر من ذٰلک حتی یستقر أحد الأ قوال فیھا۔ [الموفق المکی الامام : ’’مناقب
الامام ابی حنیفہ‘‘ؒ ،دائرۃ المعارف حیدر اباد۲/۱۳۳]
’’ایک ایک مسئلہ کو پیش کرتے، لوگوں کے خیالات کو الٹتے پلٹتے ،اراکین مجلس
کی آرا اور دلائل سنتے۔اپنی رائے اور دلائل سے اہل مجلس کو آگاہ کرتے اور
ان سے مناظرہ کرتے ۔کبھی ایک ایک مسئلہ پر بحث ومناظرہ کا سلسلہ ایک ماہ یا
اس سے بھی زیادہ مدت تک چلتا تاآنکہ مسئلے کا کوئی پہلو متعین ہو جاتا۔‘‘
امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مشاورت کو بامقصد ،بحث ومناظرہ کو
آزادانہ اور مجلس اجتہاد کو بے تکلف بنانے کی شعوری کوشش کی تھی تاکہ ادب
اور عقیدت ولحاظ کے باعث قانون سازی میں کسی قسم کا سقم نہ رہ جائے ۔ مشہور
محدث عبد اللہ ابن مبارک کہتے ہیں :
’’میری موجودگی میں ایک مسئلہ بحث کے لیے پیش ہوا۔ مسلسل تین دن تک ارکان
مجلس اس پر غور وخوض اور بحث ومباحثہ کرتے رہے ۔‘‘
کوفہ کے اہل علم قانون سازی اور حل مسائل کے اس اچھوتے انداز کو حیرت
واستعجاب سے دیکھتے اور پسند کرتے تھے ۔ [الموفق المکی الامام : ’’مناقب
الامام ابی حنیفہ،دائرۃ المعارف حیدر اباد۱/۵۴]
مشہور محدث اعمش نے مجلس کے طریق کار کو بیان کرتے ہوئے کہا:
’’ جب اس مجلس کے سامنے کوئی مسئلہ آتا ہے تو حاضرین اس مسئلے کو اس قدر
گردش دیتے ہیں اور الٹ پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ بالآخر اس کاحل روشن ہوجاتا ہے
۔‘‘[کردری : مناقب اما م ابو حنیفہ،۲/۳۰]
امام ابو یوسف کی روایت سے معلوم ہوتاہے کہ جب کوئی مسئلہ زیر تحقیق ہوتا
تو کوفہ کی دوسری علمی مجالس سے بھی مراجعت کی جاتی کہ آیا اس مسئلے میں ان
کے پاس کوئی حدیث ہے ۔ابو یوسف کہتے ہیں کہ مجھے تلاش سے جو احادیث ملتیں،
میں لے کر امام صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا تو وہ بتاتے کہ ان میں سے فلاں
حدیث صحیح ہے اور فلاں صحیح نہیں ہے، اور ہم نے جو رائے اختیار کی ہے، وہ
حدیث صحیح کے مطابق ہے ۔میں پوچھتا کہ آپ کو ان احادیث کا کیسے علم ہوا ؟تو
جواب دیتے کہ کوفہ میں جتنا علم ہے، وہ سارا میرے پاس ہے۔ [الموفق المکی
الامام : ’’مناقب الامام ابی حنیفہ‘‘،دائرۃ المعارف حیدر آباد۲/۱۵۲]
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے درس و تدریس کا طریقہ
منفرد تھاوہ آج کی طرح اپنے شا گردوں کو لیکچر نہیں دیتے تھے بلکہ آپ کی
درس گاہ میں بحث و مباحثہ اور مذاکرے کا ایک سلسلہ چلتا، کسی ایک مسئلہ کو
لےکر شاگردوں سے سوالات دریافت کرتے، مجلس کاہر ایک رکن مسئلے سے متعلق
اپنی رائے کا اظہار کرتے ،بسا اوقات آپ کے تلامذہ آپ پر اعتراضات کی جھڑی
لگادیتے، لیکن آپ کے وقار و طمانیت میں کوئی فرق نہیں آتا ،آپ کشادہ قلبی
کے ساتھ سب کی رائے سنتے، سب کےعتراضات کوخوش گوار طریقے سے حل فرماتے ،جب
مسئلے کے تمام گوشے سامنے آجاتے تو آخر میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ
علیہ فیصلہ سناتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار فرماتے تھے، جسے آپ کے تلامذہ
پسندکرتے۔ مسائل پر اس قدر گہرائی سے بحث کی جاتی کہ زیر بحث موضوعات کے
صحیح حل تک پہنچنے میں کبھی کبھی ایک ہفتے کا وقت لگ جاتا اور کبھی اس سے
بھی زیادہ۔
آج اگر استاذ کی درس گاہ میں کوئی طالب علم بار بار اعتراض کرے تو اسے
استاد کی بے ادبی پر محمول کیا جاتا ہے اور ڈانٹ ڈپٹ کے ذریعہ طالب علم کی
حوصلہ شکنی کی جاتی ہے لیکن حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ
اپنے شاگردوں سے آزادانہ بحث و مباحثہ کرتے تھے تاکہ ان کے اندر غوروفکر کا
جذبہ پیدا ہو ایسا نہ ہو کہ صرف استاذ کی باتیں سننے کی عادت پڑ جائے۔
حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے شاگردوں کی ذہنی اور اخلاقی
تربیت پر بھرپور توجہ دیا کرتے تھے، جب کسی شاگرد کو دیکھتے کہ علم کی وجہ
سے اس میں غرور و تکبر پیدا ہورہا ہے تو اسے امتحان اور آزمائش میں مبتلا
کرکے اس کا سارا غرور خاک میں ملا دیتے اور اسے احساس دلایا دیتے کہ علم
ایک بحر ناپیدا کنار ہے اس کی تحصیل کی ضرورت کبھی پوری نہیں ہوتی ،امام
اعظم کے خاص تلامذہ میں حضرت امام ابو یوسف کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں
اپنا الگ حلقہ ٔ درس قائم کر لوں ، حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو
معلوم ہوا تو آپ نے اپنے ایک شاگر دسے فرمایا کہ ابو یوسف کی مجلس میں
جاکر اس سے یہ مسئلہ پوچھنا کہ :
’’ ایک آدمی نے رنگریز کو دو درہم کی مزدوری پر کپڑا رنگنے کے لیے دیا ،
جب اس نے کپڑا واپس مانگا تو رنگ ریز نے انکار کر دیا ، اس آدمی نے پھر
مطالبہ کیا تو رنگ ریز نے رنگا ہوا کپڑا واپس کر دیا ، بتائیے کہ وہ رنگریز
مزدوری کا حق دار ہے یا نہیں ؟‘‘
اگر ابو یو سف اثبات میں جواب دیں تو کہنا کہ آپ نے غلط فر مایا ، اور اگر
نفی میں جواب تو پھر بھی یہی کہنا کہ آپ نے غلط کہاہے۔ وہ شخص حضرت امام
ابو یوسف کی بار گاہ میں حاضر ہوا اور اس مسئلے کے بارے سوال کیا ۔ حضرت
امام ابو یوسف نے جواب دیا : ہاں وہ مزدوری کا حق دار ہے۔ سائل نے کہا :
نہیں۔
امام ابو یوسف کچھ سوچ کر کہنے لگے :
ٹھیک ہے وہ آدمی مزدوری کا حق دار نہیں ہے ، پھر سائل نے کہا: نہیں۔ امام
ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اٹھے ، فورا حضرت اما اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس
میں تشریف لے گئے ۔ حضرت امام اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت امام ابو یوسف کو
دیکھ کر فرمایا: قاضی ! کیا رنگ ریز والا مسئلہ لائے ہو ؟ حضرت امام ابو
یوسف نے جواب دیا جی ہاں! مجھے یہ مسئلہ بتائیے ۔ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ
علیہ نے فر مایا :
’’ اگر رنگ ریز نے کپڑا کو غصب کر لینے کے بعد رنگ دیا ہے تو وہ مزدوری کا
حق دار نہیں اور اگر غصب کر نے سے پہلے رنگ دیاہے تو اس میں کوئی شک نہیں
کہ وہ آدمی مزدوری کا حق دار ہے ، کیوں کہ وہ کپڑا مالک کے لیے ہی رنگا
تھا ۔
در اصل حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تربیت کا ایسا طریقہ اختیار
کیا تھا کہ اس کے ذریعہ تلامذہ کے اندر علم کی تشنگی دوبالا ہوجاتی تھی اور
ہمیشہ تحصیل علم سے لگاؤ باقی رہتا ۔[ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ ، از ابو
زہرہ مصری ، ص: ۳۷ تا ۳۹ ملخصا۔ اشاعت : مئی ۲۰۰۷، شبیر بردرز لاہو ر]
حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زہد وتقویٰ
حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات علم وعمل کا حسین سنگم تھی، آپ
علم کی ترویج واشاعت کے ساتھ عبادت وریاضت میں بھی اپنی مثال آپ تھے ،
بلکہ آپ قائم اللیل اور صائم الدہر تھے ، ایک رات میں قرآن کریم ختم کیا
کرتے تھے ، حافظ ذہبی کا بیان ہے :
’’ وکان معدودا فی الأجواد والأسخیاء والأولیاء الأذکیاء مع الدین والعبادۃ
والتعبد وکثرۃ التلاوۃ وقیام اللیل رضی اللہ عنہ ۔[ تاریخ ذہبی، ص: ۳۰۶]
ترجمہ: دین داری، عبادت وریاضت ، تہجد گزاری ، کثرت تلاوت اور شب بیداری کے
ساتھ آپ کا شمار بیدار مغز اور فیا ض لوگوں میں ہو تا تھا ۔
حضرت امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
أن أبا حنیفۃ صلی العشاء والصبح بوضوء أربعین سنۃ
حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے چالیس سال تک عشا کے وضو سے فجر کی نماز
پڑھی ۔
آپ رات بھر آپ قرآن شریف پڑھا کرتے تھے اور خوف خدا سے اس قدر روتے تھے
کہ آپ کے ہم سایوں کو آپ پررحم آتا تھا۔
حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد حضرت قاضی امام ابویوسف
فرماتے ہیں کہ حضرت امام اعظم ہر رات اور دن میں ایک ختم قرآن پڑھا کرتے
تھے اور رمضان شریف میں [دن اور رات ملا کر] باسٹھ قرآن ختم فرمایا کرتے
تھے ۔[ الخیرات الحسان ۔ص :۸۲]
حضرت مسعر فرماتے ہیں کہ حضرت امام اعظم فجر سے عشا تک تدریسی کا موں اور
افتا میں مصروف رہتے تھے۔ایک مرتبہ میں نے سوچا کہ آخر آپ عبادت کب کرتے
ہیں اسے معلوم کیا جائے۔ اس نیت سے میں اس کھوج میں لگ گیا، جب رات ہوئی او
رلوگ عشا کی نماز سے فارغ ہوکر سوگئے تو میں نے دیکھا کہ حضرت امام اعظم
مسجد تشریف لے گئے او رپوری رات فجر تک عبادت میں گزاردی ۔ پھر فجر کی نماز
کے بعد حسب معمول آپ تدریسی کاموں میں مصروف ہوگئے ،یہاں تک کہ پھر رات
آگئی تو میں نے دیکھا کہ آپ مسجد آکر عبادت میں مصروف ہوگئے پھر صبح
ہوئی تو اپنے معاملات کی طرف متوجہ ہوئے ۔
میں نے دل میں خیال کیا کہ دوراتیں تو آپ نے نشاط کے ساتھ عبادت میں
گزاردیا ہے اب دیکھا جائے کہ کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ حسب
معمول آپ نے پھر پوری رات عبادت میں گزاردی اس پر میں نے یہ عزم کیا کہ
زندگی بھر میں ایسے عبادت گزار کی صحبت نہ چھوڑ ں گا جو دنوں کو روزے رکھتا
ہے اور رات کو بیدار رہ کر اللہ کی عبادت میں گزارتا ہے ۔[ الخیرات الحسان
۔ص :۸۲]
امام اعظم کے اندر خشیت الہٰی کا وافر حصہ موجود تھا۔اللہ رب العزت کا نام
سنتے ہی آپ پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا ۔چنانچہ حضرت یزید بن لیث بیان کرتے
ہیں کہ ایک مرتبہ عشا کی جماعت میں امام نے اِذَا زُ لْزِلَتِ الْاَ رْضْ
پڑھی ۔ حضرت امام ابوحنیفہ جماعت میں شریک تھے جب سارے لوگ نماز سے فارغ
ہوکر چلے گئے تو میں نے دیکھا کہ حضرت امام ابو حنیفہ فکر میں ڈوبے ہوئے
ہیں او رٹھنڈی سانس لے رہے ہیں۔ میں نے خیال کیا کہ میری وجہ سے حضرت کے
ذکر وفکر میں کوئی خلل واقع نہ ہو،چراغ جلتا ہوا چھوڑ کر آہستگی کے ساتھ
مسجد سے نکل گیا ۔ فجر کے وقت جب میں مسجد پہنچا تو دیکھا کہ آپ اپنی
داڑھی پکڑے ہوئے ہیں اور اِذَا زْلْزِ لَتِ الْاَ رْضْ پوری سورت کی تلاوت
فرمارہے ہیں اور نہایت ہی رقت انگیز او ردرد بھری آواز میں کہہ رہے
ہیں:’’اے میرے خالق ومالک جو ذرّہ بھر نیکی کا اچھا بدلہ دینے والا ہے اور
ذرّہ بھر برائی کی سزا دینے والا ہے اپنے بندہ نعمان کو آگ اور اس کے عذاب
سے بچانا او راپنے جواررحمت میں داخل فرمانا‘‘۔] الخیرات الحسان ۔ص:۸۶[
حضرت علامہ ابن حجر ہیتمی نے الخیرات الحسان میں ایک روایت نقل فرمائی :
ختم القرآن فی رکعۃ داخل الکعبۃ أربعۃ وعد منھم أبا حنیفۃ
کعبہ شریف کے اندر چار حضرات نے ایک رکعت میں قرآن مجید کا ختم کیا ہے ان
چاروں میں ایک حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔
حضرت علامہ ابن حجر ہیتمی نے مزید تحریر فر مایا کہ حضرت امام اعظم رضی
اللہ تعالیٰ عنہ نے جب آخری حج کیا تو آپ نے اپنا آدھا مال بیت اللہ
شریف کے خدمت گاروں کو دے دیا تاکہ آپ کو بیت اللہ شریف کے اندر نماز پڑ
ھنے کا موقع مل جائے ، چنانچہ یہ سعادت آپ کو نصیب ہوئی اور آپ نے نصف
قرآن مجید ایک ٹانگ پر اورنصف قرآن مجید دوسری ٹانگ پر کھڑے ہوکر پڑھا ،
پھر آپ نے یہ دعافرمائی :
یارب عرفت حق معرفت وماعبدتک حق العبادۃ فھب لی نقصان الخدمۃ لکمال المعرفۃ
فنودی من زاویۃ البیت عرفت وأحسنت وأخلصت الخدمۃ غفر لک ولمن کا علیٰ مذھبک
إلی قیام الساعۃ ۔
ترجمہ: اے میرے رب میں نے تجھ کو اچھی طرح جانا اور میں نے تیری بندگی کا
حق ادا نہیں کیا ، میری بندگی کی کوتاہی کو بوجہ کمال معاف فرما ۔تو بیت
اللہ شریف کے کونے سے ندا آئی : تو نے جانا اور اچھا جانا اور تو نے بندگی
اخلاص سے کی لہذا تجھے بخشش عطا ہوئی اور ان سب کو جو تیرے طریقے پر ہوں گے
قیامت تک ۔[ الخیرات الحسان ، ص: ۷۶]
انھو ں نے مزید نقل کیا :
قال بعضھم ما رأیت احدا أصبر علی الطواف والصلاۃ والفتیا بمکۃ من أبی حنیفۃ
إنما کان کل اللیل والنھار فی طلب الآخرۃ وسمع ھاتفا فی المنام وھو فی
الکعبۃ یقول یاأبا حنیفۃ أخلصت خدمتی وأحسنت معرفتی فقد غفرت لک ۔
یعنی بعض حضرات نے کہا ہے کہ میں نے مکہ مکرمہ میں ابو حنیفہ سے طواف ونماز
اور فتویٰ دینے میں زیادہ مشغول کسی شخص کو نہیں دیکھا ہے ، وہ ساری رات
اور سارا دن آخرت کی طلب میں رہتے ۔ بیت اللہ شریف میں نیند کی حالت میں
انھوں نے ہاتف سے سنا کہ : اے ابو حنیفہ تو نے میری خدمت اخلاص سے کی اور
میری معرفت اچھی حاصل کی ، میں نے تیری خطائیں معاف کردیں۔[ الخیرات الحسان
، ص: ۶۷]
حضرت حسن بن صالح فرماتے ہیں :
کان شدید الورع ھانبا للحرام تارکا للکثیر من الحلال مخافۃ الشبھۃ مارئیت
فقیہا أشد من صیانۃ لنفسہ ولعلمہ وکان جھادہ کلہ إلی قبرہ ۔
حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تقویٰ وطہارت کے اعلیٰ درجے پر فائز
تھے ، حرام سے تو بچتے ہی تھے ، شبہہ کی وجہ کئی حلال چیزیں بھی چھوڑ دیتے
تھے ، میں نے کوئی ایسا فقیہ نہیں دیکھا جو اپنے نفس اورعلم کی حفاظت آپ
سے زیادہ کرتا ہو ، وہ آخری عمر تک جہاد کرتے رہے۔[ الخیرات الحسان ، ص:
۸۵]
حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذریعۂ معاش:
حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ انتہائی خوددار ، صاحب حیثیت اور شریف
خانوادے سے تعلق رکھتے ، تجارت آپ کا ذریعۂ معاش تھا، ریشمی کپڑوں کا
کارو بار کرتے تھے ، آپ کی تجارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا تھا کہ
کوفہ سے سیکڑو ں میل دور کے شہروں میں آپ کی تجارتی شاخیں قائم تھیں ،معجم
المصنفین میں ہے :
قد تواتر عنہ رحمۃ اللہ أنہ کان یتجر فی الخز مسعودا ماھرا فیہ ولہ دکان فی
الکوفۃ وشرکائہ یسافرون لہ شراء ذٰلک وبیعہ۔ [ معجم المصنفین ، ج: ۲، ص:
۱۷۵]
یعنی یہ بات تواتر کے ساتھ منقول ہے کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ ایک بڑے
کامیاب تاجر تھے اور اس میں ان کو خاص مہارت حاصل تھی ، کوفہ میں ان کی
دکان تھی ، اور تجارتی کاروبار میں ان کے بہت سے شرکا تھے جو خز کی خرید
فروخت کے لیے سفر کرتے تھے ۔
امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
میرے استاذِ محترم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ریشمی کپڑے کا کاروبار
کرتے تھے۔ ایک دن آپ سے کسی نے کپڑا خریدنا چاہاتواپنے بیٹے حمّادسے
فرمایا:بیٹا!انہیں کپڑا دکھاؤ۔ حمادنےکپڑا نکال کر اس گاہک کے سامنے
پھیلایا پھر پڑھا: صلّی اللہُ علٰی محمَّد۔ امام صاحب نے بیٹے سے فرمایا:
اب یہ کپڑا مت بیچنا کیوں کہ تم [دُرود شریف پڑھ کر]اس کی تعریف کر چکے ہو۔
وہ شخص چلا گیا ،سارا بازار گُھوما مگر اسے اس جیسا کپڑا کہیں نہ ملا۔ وہ
دوبارہ آیا مگر امام صاحب نے اسے کپڑا دینے سے انکار کردیا۔ [مناقب الامام
الاعظم ابی حنیفۃ للموفق، جزء۱،ص:۱۹۸]
آپ کے کاروباری شریک حضرت سیِّدُنا حفْص بن عبد الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ جو
۳۰؍ سال تک آپ کی صحبت میں رہے،فرماتے ہیں:
’’ میں نے ایک طویل عرصہ امام صاحب کی صحبت میں گزارا،آپ کے ساتھ ملنا جلنا
رہا،جیسے آپ سب کے سامنے ہوتے تھے ویسے ہی تنہائی میں بھی ہوتے تھے،جن
معاملات میں [شرعی نقطۂ نظر سے]کوئی خطرہ نہیں ہوتا، ان سے بھی ایسے ہی
بچتے تھے جیسے خطرے والے معاملات سے بچتے تھے ،اگر آپ کو کسی مال میں شُبہ
ہوجا تا تو اسے [صدقہ و خیرات کرکے]اپنے سے دُور کردیتے اگرچہ سارا ہی مال
کیوں نہ نکالنا پڑے۔ [مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ للموفق، جزء۱،ص:۲۰۱]
امام صاحب کا ایک غلام آپ کے لیے تجارت کرتا تھا،آپ نے تجارت کے لیے اسے
بہت سا مال دیا ہوا تھا،ایک مرتبہ۳۰؍ ہزار درہم کا نفع ہوا،چنانچہ غلام نے
نفع کو الگ کیا اور اسے لے کر امام صاحب کی بارگاہ میں حاضر ہوگیا،آپ نے اس
سے ساری تفصیلات پوچھیں کہ تم نے کس کس طرح تجارت کی۔ اس نے تجارت کے مختلف
طور طریقے بیان کئے، دوران ِگفتگو اس نے ایک ایسی صورت بتائی جوآپ کو
ناگوار گزری اور آپ کے دل میں شبہہ داخل ہوگیا، آپ نے اسے خوب ڈانٹا اور
بہت ناراض ہوئےاور اس سے پوچھ گچھ کی کہ تم نے ایسا کیوں کیا اور اس سے
پوچھا کہ کیاتم نے اس صورت کا نفع بھی دیگر نفعوں کے ساتھ ملا دیا ہے ؟اس
نے کہا کہ ہاں! آپ نے فرمایا:تم نےسارا نفع خراب کردیا اورپھر فقرا کو
بُلوا کر ۳۰؍ ہزار کاسارا نفع ان میں تقسیم کردیا اوراپنے لیے اس میں سے
کچھ بھی نہ رکھا۔ [مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ للموفق،ج:۱، ص:۲۰۲]
ایک مرتبہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں ایک شخص آیا اورعرض
کی:حضور!مجھے کپڑے کے ایک [خوبصورت] جوڑے کی ضرورت ہے،آپ مجھ پر احسان
فرمائیے،میں ان کپڑوں سے زینت اختیار کرکے سسرالی رشتے دار کے پاس جانا
چاہتا ہوں۔آپ نے فرمایا:دو ہفتے صبر کرو۔وہ دو ہفتوں کے بعد پھر آیا۔آپ نے
فرمایا:کل آنا،وہ دوسرے دن آیا تو آپ نے اسےایک قیمتی جوڑا دیا جس کی قیمت
۲۰؍ دینار[یعنی ۲۰؍ سونے کی اشرفیوں سے بھی زیادہ تھی اور ساتھ ایک دینار
بھی اس کے حوالے کیا،اس نے پوچھا: حضور!یہ کیوں؟آپ نے فرمایا:میں نے تمہاری
نیت سے بغداد میں کچھ سامان بھیجا تھا،چنانچہ وہ سامان بِک گیا اور میں نے
اس کے نفع سے جوڑا خرید کر تمہارے لئے رکھ لیا، لیکن جب اصل سرمایہ میرے
پاس آیا تو اس میں ایک دینار زائد تھا[یعنی وہ بھی نفع میں شامل تھا اس لیے
یہ تمہارا ہے]اگر تم اسے قبول کرتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ میں اس جوڑے کو بیچ
کر اس کی قیمت اور دینار کو تمہاری طرف سے صدقہ کردوں گا۔جب اس نے امام
صاحب کی یہ بات سُنی تو وہ دینار بھی رکھ لیا۔[ مناقب الامام الاعظم ابی
حنیفۃ للموفق،ج:۱، ص:۲۶۲]
حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وسیع وعریض تجارت سے حاصل ہونے
والےمنافع سے علما ، فقہا ، غریب تلامذہ ، مفلوک الحال حاجت مندوں کی
ضرورتیں پوری ہو تیں ، آپ کی تجارت کا مقصد ذخیرہ اندوزی قطعا نہیں تھا،
یہی وجہ ہے کہ آپ نے منافع کو کبھی جمع کر کے محفوظ نہیں رکھا ۔ حضرت امام
اعظم رحمۃ اللہ علیہ کثیر علمی مصروفیات اور مشاغل میں گھرے تھے ، اس کے
باوجود تجارت کا سلسلہ ختم نہیں کیا ، جس کی بنا پر آپ کے اندر انتہائی
خود اعتمادی تھی ، آپ کی جرأت وبے باکی اور حق گوئی میں بھی اس کا بڑا دخل
رہا ۔ آپ نے امرا وخلفا کے تحائف اور نذرانوں کی طرف کبھی آنکھ اٹھا کر
نہیں دیکھا ۔
امام اعظم اور عہدۂ قضا سے دوری:
آج جب کہ علما عہدوں کے لیے آپس میں دست وگریباں ہیں ، موجودہ دور میں
علما کے اکثر اختلافات کابنیادی سبب جاہ ومنصب کا حصول ہے ، خاص طور سے
عہدۂ قضا تو تقریبا اکثر شہروں میں متنازع ہے ، پہلے ہر شہر میں ایک قاضی
ہوتے تھے اب ایک ہی شہر میں اہل سنت کے کئی کئی قاضی بر سر پیکار ہیں، ایسے
میں حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب حیات کا یہ گوشہ ہمارے لیے درس
عبرت ہے ۔
عباسی خلیفۂ منصور کے دور ِ حکومت میں غالبا ۱۴۸ ھ کو کوفہ کے قاضی
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کا انتقال ہوا، منصور نے کوفہ کے عہدۂ قضا کے لیے
اس زمانے کے درج ذیل علماے کرام کو طلب کیا :
• حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
• حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ
• حضرت شریک بن نخعی رحمۃ اللہ علیہ
• حضرت معسر بن کدام رحمۃ اللہ علیہ
خلیفہ کے طلب کر نے پر ان حضرات کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ہمیں حکومت کا
کوئی عہدہ یاقضا کامنصب قبول کر نے پر مجبور کیا جائے گا ، یہ حضرات علماے
ربانیین تھے ، حکو مت کی کوئی ذمے داری قبول کر نے کے لیے تیار نہ تھے ،
کیوں کہ انہیں بخوبی معلوم تھا کہ شخصی اقتدار میں آزادی کے ساتھ اسلامی
اصولوں کی روشنی میں کام کر نا دشوار ہے ، مقدمات کے فیصلوں میں حکومت حاوی
ہو تی ہے ، اس لیے قضا کاعہد قبول کر نے مطلب یہ ہوتا ہےکہ علم اور تقویٰ
کو بالائے طاق رکھ کر ا قتدار کی خوش نودی کا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا
جائے۔ جب یہ حضرات خلیفہ منصور کے پاس پہنچے تو اس نے کہا کہ میں نے تم
لوگوں کو اچھے مقصد کے تحت بلایا ہے ۔
مسعر بن کدام کو دیکھا گیا کہ وہ صف سے نکل کر خلیفہ کی طرف بڑھے چلے جارہے
ہیں اور بے محابا ابو جعفر کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر مصافحہ کرتے
جارہے ہیں اور کہتے جارہے ہیں :
کیف حالک یا أمیر المومنین وکیف کنت بعدی وکیف جواریک وکیف دو ا بک، تولینی
القضاء ۔
امیر المومنین ! آپ کیسے ہیں ؟ آپ کا حال کیسا ہے ؟ میرے بعد آپ کیسے
رہے ؟ اور آپ کی باندیوں کا کیا حال ہے ؟ آپ مجھے قاضی بنادیجیے۔
ایک در باری آپ کی اس حر کت دیکھ کر آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ یہ شخص تو
پاگل ہے اور انھیں در بار سے نکال دیا گیا ، اس طرح حضرت مسعربن کدام کی
جان بچ گئی ۔حضرت سفیان ثوری کسی طرح بھاگ نکلے ، اب امام اعظم اور قاضی
شریک در بار میں موجود تھے ، ابو جعفر منصور نے حضرت امام اعظم کو سامنے
بلایا اور کہا: میں تم کو کوفہ کا قاضی بنانا چاہتا ہوں ، آپ نے جوابا
ارشاد فر مایا :
یا أمیر المومنین أن النعمان بن ثابت بن مملوک الخزاذ بالکوفۃ وأھل الکوفۃ
لایرضون أن یلی علیھم ابن ممکوک خزاز
یعنی اے امیر المومنین ! میں نعمان بن ثابت بن خزاز کا بیٹا ہوں ، میرا
نسبی تعلق عرب کے کسی معزز خاندان سے نہیں ، کوفہ والے خزاز کے بیٹے کی
امامت برداشت نہیں کریں گے ۔
منصور کو آپ کی بات درست لگی اور بولا آپ نے سچ کہا ۔چنانچہ منصور نےحضرت
شریک کو قضا کی پیش کش کی ، انھوں نے دماغی ضعف کا بہانہ کیا۔ تو منصور نے
کہا : اسکت ما بقی غیرک احد خذ عھدک ، خاموش رہو ، تمہارے علاوہ کوئی باقی
نہیں رہا ، عہد ہ قبول کر لو ۔ قاضی شریک نے پھر عذر بیان کرتے ہوئے کہا کہ
مجھے نسیان کی شکایت ہے ، میں قضا کی ذمے داری کیسے نبھا سکتا ہوں ۔ منصور
نے کہا : میں حکم دے دوں گا کہ روزانہ روغن بادام میں فالودہ بناکر تمہیں
پلایا جائے ۔بالآخر قاضی شریک نے مجبوراًقضا کا عہدہ قبول کرلیا۔
کچھ عرصے بعد جب بغداد دارالخلافہ بنا تو بغداد میں خلیفہ ابو جعفر منصور
کو قاضی القضاۃ کی ضرورت محسو س ہوئی جو دار الخلافہ کی مسند قضا کو
سنبھالنے کے ساتھ دیگر تمام بلاوامصار کے قاضیوں کا چیف ہو ۔ منصور نے حضرت
امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو کوفہ کے گور نر کے ذریعہ اٹھوالیا ، اس طرح کہ
امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو گھر جانے کا بھی موقع نہیں دیا گیا ،جہاں ملے
وہیں سےبغداد روانہ کر دیا گیا، خلیفۂ منصور نے آپ سے کہا کہ آپ قاضی
القضاۃ کا عہدہ قبول کر لیں ، پوری سلطنت عباسیہ کے قاضی آپ کی نگرانی
وماتحتی میں کام کریں گے ، آپ نے اس بار بھی عذر پیش کر کے اس عہدہ کو
قبول کر نے انکار کر دیا ۔ منصور نے قسم کھا ئی کہ اگر آپ نے یہ عہدہ قبول
نہیں کیا تو آپ کو قید کر دیا جائے گا ۔ آپ مسلسل انکار کرتے رہے ، منصور
نے آپ کو قید خانے میں ڈلوا دیا ، قید میں ڈالنے کے بعد بھی آپ کو عہدہ
قبول کر نے کے لیے آمادہ کر نے کی کوشش کی جاتی رہی ، آپ شدت کے ساتھ
اپنے انکار پر قائم رہے ۔ منصور آپ کو کوڑے لگواتا ، طرح طرح کے مصائب میں
مبتلا کرتا، جب زنداں کی صعوبتوں سے منصور کا جی نہیں بھرا تو اس نے زہر
پلاکر آپ کو مار نے کا منصوبہ بنایا اور زہر کا پیالہ آپ کو پیش کیا گیا
۔
علامہ ابن حجر ہیتمی رقم طراز ہیں :
روی جماعۃ أنہ رفع إلیہ قدح فیہ سم لیشرب فامتنع وقال انی لاعلم مافیہ ولا
اعین علی قتل نفسی فطرح ثم صب فی فیہ قھرا فمات۔
یعنی ایک جماعت نے اس واقعے کو یوں روایت کیا ہے کہ آپ کو زہر کا پیالہ
پینے کو دیا گیا ، آپ نے انکار کیا اور فر مایا :
’’میں جانتا ہوں جو اس پیالے میں ہے ،میں اپنے قتل میں قاتل کا مدد گار ہو
نا پسند نہیں کر تا ، لہذا آپ کو زبر دستی زہر پلایا گیا، جس سے آپ کا
وصال ہو گیا ۔[الخیرات الحسان ،ص:۱۵]
زہر آپ کے جسم میں سرایت کر گیا ، آپ نے سر معبود حقیقی کی بار گاہ میں
جھکا دیا ، سجدے ہی کی حالت میں ۲؍ شعبا ن المعظم ۱۵۰ ہجری کو آپ مالک
حقیقی سے جاملے ۔ |