امام غزالی ؒ ایک حکایت میں
لکھتے ہیں کہ ایک دن نوشیرواں بادشاہ شکار کیلئے نکلا اور شکار کے پیچھے
اتنی دورچلاگیا کہ اپنے لشکر سے جداہوگیا اب وہ بہت پیاسا تھا اس نے ایک گاﺅں
دیکھا وہ اس گاﺅں کی طرف گیا اور ایک دروازے پر دستک دی ایک لڑکی دروازے پر
آئی اس نے اس سے پانی طلب کیا وہ لڑی گھر کے اندر گئی اور گنا نچوڑ کر پانی
میں رس ملاکرلائی جس پیالے میں وہ یہ رس لائی اس میں تھوڑے سے تنکے تھے
نوشیرواں نے تھوڑا تھوڑا ٹھہر کر پیا جب ساراپانی پی چکا تو لڑکی سے کہنے
لگا پانی تو خوب تھا اگر اس میں تنکے نہ ہوتے لڑکی نے جواب دیا کہ میں
دانستہ طور پر ایسا کیا اس پر نوشیرواں نے حیران ہوکر پوچھا وہ کیوں اس پر
لڑکی نے جواب دیا کہ میں نے دیکھا کہ آپ بہت پیاسے ہیں اور ایک دم پانی
پینے سے آپ کو نقصان ہوسکتا ہے نوشیرواں کو لڑکی کی ذہانت پر بڑا تعجب ہوا
اس نے اگلاسوال کیا کہ یہ رس کتنے گنوں کا تھا لڑکی نے بتایا کہ صرف ایک
گنے کا ۔نوشیر واں متعجب ہوکر سوچنے لگا کہ واپس جاکر اس گاﺅں پر ٹیکس بڑھا
دوں گا کچھ دنوں کے بعد اتفاقاً دوبارہ تنہا اس کا گزر اسی گاﺅ ں سے ہوا
نوشیرواں نے وہی دروازہ جا کر کھٹکھٹایا تو وہی لڑکی نکلی اس نے پانی طلب
کیا لڑکی بہت دیر کے بعد پانی لے کر آئی تو نوشیرواںنے پوچھا کہ اتنی دیر
کیوں لگی تو لڑکی نے جواب دیا کہ میں نے تین گنے کوٹے تب جاکر رس نکلا پھر
بھی اتنا نہ نکلا جتنا کہ ایک گنے سے نکلاکرتا تھا نوشیرواں نے وجہ پوچھی
تو لڑکی نے کہا ”ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے شاہ کی نیت بدل گئی ہے ،جب
شاہ کی نیت بدل جاتی ہے تو قوم سے برکت اٹھ جاتی ہے اور بھلائیاں کم ہوجاتی
ہیں “
نوشیرواں ہنس پڑا اور ٹیکس بڑھانے کے ارادے سے باز آگیا نوشیرواں نے اس
لڑکی کی ذہانت اور فصاحت کی بناپر اس سے شادی کرلی ۔۔۔
قارئین امام غزالی ؒ کی بیان کردہ یہ حکایت کسی بھی قوم کی تقدیر کے متعلق
راہنمائی کرتی ہے کہ جب قوم کے لیڈرز نیک نیت ہوتے ہیں ،اپنے عوام کی بہتری
اور بھلائی کے لیے دل میں درد رکھتے ہیں اور فلاح ِعامہ کی منزلوں کو حاصل
کرنے کیلئے درست نیت کے ساتھ زہانت استعمال کرتے ہوئے کام کرتے ہیں تو اللہ
تعالیٰ کی طرف سے مدد اور برکت شاملِ حال ہوجاتی ہے امریکہ ،برطانیہ ،یورپ
اور کرئہ ارضی پر جتنے بھی خوشحال ممالک ہیں اگر ان کی ترقی اور عوام کی
بہتر حالت کے پیچھے موجود وجوہات کو تلاش کیاجائے تو وہ یہی چند باتیں
نکلیں گی اور اسی طرح ہم اگر پوری دنیا کے بدحال ترین ممالک کی ترقی معکوس
کی وجوہات تلاش کرتے ہیں تو بڑی آسانی سے نتیجہ حکمرانوں کی بدنیتی اور
بدمعاشی کی صورت میں نکلتا ہے ۔
قارئین گزشتہ دنوں آزادکشمیر کی وزارت ِعظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد وزیر
اعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید نے بے نظیر بھٹو شہید کی جائے شہادت پر
فاتحہ خوانی کی اور میڈیا پر ان کا یہ بیان سامنے آیا کہ وہ آزادکشمیر کے
وزیر اعظم نہیں بلکہ نوڈیرو کے شہداءکے مجاور ہیں اس بیان کے بعد حزب
اختلاف سے لے کر ہر طبقے کے لوگوںنے ہر طرح کی قیاس آرائیاں کیں اور بعض
حلقوں کی طرف سے اس بات کی تضحیک بھی کی گئی کہ آزادکشمیر کے وزیر اعظم نے
اپنے آپ کو مجاور کہہ کر اس منصب کی توہین کی ہے۔
ہم آج کے کالم کی وساطت سے مختصراً یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح مولوی
،ملا ،خلیفہ ،حافظ اور دیگر لائق احترام الفاظ کو ہمارے معاشرے میں ایک
مخصوص زہنیت کے تحت نام نہاد ترقی یافتہ طبقے نے مذاق کا نشانہ بنایاہے اسی
طرح مجاور کا لفظ جو ایک قابل احترام طبقے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اسے
بھی ترقی پسندیت کا لبادہ اوڑھ کر تضحیک کا نشان بنادیا گیا ہے ہم وزیر
اعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید سمیت تمام کشمیری وزراءکے متعلق حسنِ گمان
رکھتے ہیں کہ وہ غریب ،مظلوم اور مختلف پریشانیوں کے ہاتھوں مجبور کشمیری
قوم کے مسائل کا حل قوم کے خادم اور مجاور بن کر ہی حل کریں گے مجاور کا
لفظ اصطلاحی معنوں میں اس شخصیت کے لیے استعمال کیا جاتا تھا کہ جو
اولیاءکرام کے شاگرد ہوتے تھے اور ان سے دینی ،روحانی اور باطنی علوم کی
تربیت کے لیے شب وروز ان کے ساتھ گزارا کرتے تھے شرعی علوم اور روحانی
تربیت کے بعد یہ شاگرد اپنے اساتذہ کرام کی ہدایات کی روشنی میں مخلوق خدا
کی خدمت اور ان کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا کرتے تھے آج اگر وزیر
اعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ کشمیری
قوم کی خدمت مجاور بن کر کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ
انہیں درست معنوں میں ”مجاور ِاعظم “بنائے اور مخلوق خدا کی خدمت کے لیے
نیک نیتی سے کام کرنے کی توفیق دے پاکستانی سیاست میں گزشتہ 63سالوں سے بڑے
بڑے خانوادوں او رگدیوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان گزرے ہیں اور صاحب
زادگان اور پیر زادوں کی ایک بہت بڑی تعدا دقومی اسمبلی اور صوبائی
اسمبلیوں میں بھی موجودرہی ہے لیکن بقول اقبال
الہیٰ یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری
قارئین پاکستان او رآزادکشمیر کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں سیاست کرتے
ہوئے زاتیات پر اترنے کی ایک بری روایت بھی موجودہے اور کسی کے اچھے
کارنامے یا اچھی نیت کو بھی سیاست کی منڈی میں موجود لوگ الزام تراشی کی
نذرکردیتے ہیں ہم چوہدری عبدالمجید اور پاکستان پیپلزپارٹی کے کشمیری اور
پاکستانی راہنماﺅں کی نیتوںپر شک نہیں کرتے لیکن اتنا ضرور عرض کرتے ہیں کہ
”عملی کام الفاظ اور دعوﺅں سے زیادہ بلند آواز ہوتے ہیں “
عوام کے مسائل کا حل اسی صور ت میں نکل سکتا ہے کہ جب ہمارے حکمران خلفائے
راشدین کی طرح خادم بن کر زندگیاں بسرکریں اور اولیائے کرام کی تعلیمات کے
مطابق قال اور قول سے زیادہ عمل پر توجہ دی جائے ان کے حقیقی مجاوربھی ایسا
ہی کرتے تھے لیکن جب جھوٹے مجاور سامنے آئے تو یہ معزز لفظ بھی اپنا احترام
کھو بیٹھا ہمیں امید ہے کہ چوہدری عبدالمجید وزیر اعظم آزادکشمیر اللہ کی
طرف سے دیے گئے اس ”پہلے او رشائد آخری موقعے“کو غنیمت جانیں گے اور کشمیری
قوم کے لیے کچھ ایسے کارنامے عملی طور پر انجام دیں گے کہ تاریخ میں ان کا
نام زندہ رہے گا اس کے لیے اگر وہ مجاور بننا چاہتے ہیں تو کسی کو بھی کوئی
اعتراض نہیں ہونا چاہیے ہاں اگر کواکب کچھ اور ہیں اور دکھائی کچھ اور دے
رہا ہے تو پھر کوئی بھی بات کی جاسکتی ہے لیکن اس کے لیے ہمیں نومنتخب
حکومت کو مناسب وقت ضرور دینا چاہیے اور اس کے بعد گلے شکوے کرنا چاہئیں
بقول غالب
شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
یہ بھی مت کہہ کہ ”جو کہیے تو گلاِ ہوتا ہے “
پُر ہوں میں شکوے سے یوں، راگ سے جیسے باجا
اک زرا چھڑئیے پھر دیکھے کیا ہوتا ہے
خوب تھا پہلے سے ہوتے جوہم اپنے بدخواہ
کہ بھلا چاہتے ہیں اور بُرا ہوتا ہے
یہاں پر ہم یہ شکوہ ضرورکریں گے کہ چاہے ان مسائل کی وجہ عالمی کساد بازاری
ہو،بین الاقوامی اقتصادی مسائل ہوں ،برصغیر اور جنوبی ایشیا میں امن وامان
اس کا موجب ہو یا کوئی بھی دیگر وجوہات ہوں لیکن یہ ایک جیتی جاگتی حقیقت
ہے کہ پاکستان میں فوجی حکومت کے بعد ”جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے “کا
سلوگن لے کر آنے والے حکمران عوام کی مشکلات دور کرنے میں ابھی تک کامیاب
نہیں ہوسکے اور کروڑوں پاکستانی اس وقت غربت کی چکی میں پس رہے ہیں اوراب
تو تن وروح کا سلسلہ برقرار رکھنے کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا بھی
مشکل ہوتا جارہا ہے یہ یاد رکھاجائے کہ نوڈیرو کے شہداءکے براہِ راست وارث
پاکستانی حکمران ہیں نہ کہ کشمیری وزیر اعظم اور ان کی کابینہ۔۔۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک فقیر نے بیکری کے باہر آواز لگائی
”اللہ کے نام پر ایک کیک دے دو “
بیکری کے مالک نے حیران ہوکر پوچھا
”روزانہ تم باسی ڈبل روٹی مانگتے ہو آج کیک کیوں مانگ رہے ہو “
فقیر نے جوا ب دیا
”جنا ب آ ج میری سالگرہ ہے “
قارئین پتہ نہیں ہماری قوم اپنی سالگرہ کا انتظار کررہی ہے یا اپنے
حکمرانوں کی سالگرہ کا آپ بھی سوچئے اور ہم بھی سوچتے ہیں ۔۔ |