کوئی امید بر نہیں آتی۔۔۔

پاکستان کے دگرگوں معاشی حالات اور پل پل بدلتے منظر نامے کی وجہ سے حکومت شدید تذبذب کا شکار ہے کہ آخر ہوگا کیا کیونکہ آئی ایم ایف یکے بعد دیگر اپنے مطالبات تبدیل اور شرائط سخت کرتا دکھائی دیتا ہے۔

آئی ایم ایف ابتداء سے ہی اس بات پر مصر تھا کہ آپ اپنے بجٹ کا خلاء پورا کرکے بتائیں اور جب وزیرخزانہ اسحاق ڈار ان کی ٹیم نے تمام تر اعداد وشمار کا جائزہ لیا تو تقریباً ایک ارب کا خسارہ تھا جس کو ترسیلات زر کے ذریعے پورا کرنے کا منصوبہ تھا لیکن اس پر بھی عالمی مالیاتی ادارے نے گارنٹی مانگی کہ کیسے یہ خلاء پورا کیا جائیگا لیکن ہم واضح جمع تفریق سامنے نہ رکھ سکے۔

یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف ہو یا ورلڈ بینک معاملات طے کرنے کیلئے وزارت خارجہ کا بھی نمایاں کردار ہوتا ہے اور موجودہ عالمی سیاسی منظر نامے میں اس کی نظیر واضح ہے لیکن ہم شائد ماضی میں کہیں پھنسے ہوئے ہیں جب ہمیں بغیر کسی حیل و حجت کے ڈالرز مل جایا کرتے تھے لیکن اس وقت عالمی حالات مکمل تبدیل ہوچکے ہیں اور ہماری اہمیت اور فوقیت میں بھی زمین آسمان کا فرق آچکا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ اب نہ ہماری وہ اہمیت نہ وہ فوقیت رہی جو افغان جنگ کے دوران تھی۔

اگر آئی ایم ایف اپنے تمام اصول وضوابط پر کام کرے تو بجٹ کے خلاء کو پورا کرنا لازم ہوگا۔ ایک طرف ہم آئی ایم ایف سے قرض کے خواہاں ہیں تو وہیں ہم نے ایک حماقت کردی کہ پیٹرول پر امیروں سے پیسے لے کر غریبوںکو دینے کا اعلان کردیا، یہ منصوبہ سننے میں تو بہت اچھا تھا لیکن جب آئی ایم ایف نے منصوبے کی تفصیلات اور طریقہ کار پر سوال اٹھایا تو آئیں بائیں شائیں کے سوا کچھ نہیں ملا۔

اس وقت پاکستان کے حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں آئی ایم ایف نے ہر چیز پرکڑی نگاہ رکھی ہے اور ایک مد سے دوسری مد میں رقم منتقلی پر بھی بتانا ضروری ہوگا وگرنہ عالمی مالیاتی ادارہ نئے اعتراضات اٹھادیگااور اپنے طے شدہ عوامل کی خلاف ورزی سمجھے گی۔

تمام تر حالات میں دفتر خارجہ کا کردار اہمیت انتہائی اختیار کرتا جارہا ہے اور آئی ایم ایف پر اثرو رسوخ رکھنے والے ممالک خاص طور پر امریکا کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کے پیچ و خم کو بہتر کرکے اس نہج پر لانا ہوگا اور امریکا سے تعلقات خوشگوار بنانے پر توجہ دینا ہوگی تاکہ امریکا آئی ایم ایف پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرےاور پاکستان کو ریلیف مل سکے۔

ملک میں مہنگائی ہولناک شکل اختیار کرتی جارہی ہے، ڈیڑھ کروڑ لوگ خوراک کی سنگین قلت کا شکار ہیں، اگر ان کو طویل عرصہ تک کھانا نہ ملا تو زندگیاں داؤ پر لگ جائینگی۔ ماہر معاشیات اسٹیو ہینکی کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح 65 فیصد جبکہ حکومت قلیل مدتی لحاظ سے 39 سے 40 فیصد کے قریب قرار دیتی ہے۔

اس عید پر ہم نے دیکھا کہ ماضی کی نسبت کاروباری سرگرمیاں ماند رہیں، تاجروں نے 2023 کو کاروباری لحاظ سے گذشتہ 75سالوں کا بدترین سال قرار دیا جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی،عید پر اسٹاک کیا گیا، نصف سے زیادہ مال فروخت نہ ہوسکا، رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اتنی خریداری بھی نہ ہوسکی جتنی گذشتہ سال کے پہلے عشرے میں کی گئی تھی۔

اس پر سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ ملک کی سیاست میں حدت اور حرارت بڑھتی جارہی ہے گوکہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو اس بات کی طرف اشارہ کرچکے ہیں کہ شائد پس پردہ کچھ محرکات کی وجہ سے کوئی راستہ متعین ہوجائے لیکن بادی النظر میں ایسا ہونا مشکل نظر آتا ہے۔

حکومت اور پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان بضد ہیں کہ جس بینچ پر پارلیمنٹ عدم اعتماد کرچکی ہے اس کے سامنے پیش ہونے کا کوئی جواز نہیں اور معزز ججوں کو سیاسی قیادت اور پارلیمنٹ کی تضحیک کا بھی کوئی حق نہیں۔
 
اب یہاں ایک اور تشویش کی بات یہ ہے کہ سیاسی گرما گرمی کے دوران سامنے آنے والی آڈیوز بھی معاملات کو بگاڑنے کا سبب بن سکتی ہیں کیونکہ بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ساس اور سہیلیوں کی گفتگو کے بعد سابق چیف جسٹس کی آڈیو سپریم کورٹ کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے جو حالات کو مزید پیچیدگیوں کی طرف لے جاسکتی ہے۔

عید سے قبل امید کی کرن نظر آرہی تھی لیکن مولانا فضل الرحمان کا یہ کہنا ہے کہ پہلے بندوق سے ڈرایا جاتا تھا اب ہتھوڑے سے ڈرایا جاتا ہے۔ یہاں مولانا فضل الرحمان نے اہم سوال اٹھایا کہ ایک طرف 90دن میں الیکشن پر اصرار ہے لیکن اگر عمران خان راضی ہوجائے تو پھر آئین کی خیر ہے؟۔ اس قسم کی باتیں اور رائے صرف مولانا فضل الرحمان نہیں بلکہ تمام پی ڈی ایم رہنماء کم و بیش یہ ہی آراء رکھتے ہیں۔

عدالت اور تقریبات میں پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم رہنماؤں کا رویہ دوستانہ نظر آتا ہے لیکن سیاسی پلیٹ فارمز پر ان کے بیانات میں تندی اور تلخی کا عنصر نمایاں ہوجاتا ہے ، اپنے لیڈران کے سامنے ان کی آواز میں آواز ملانا اور باہر آکر مخالفین سے خوش گپیاں کرنے پر یہی الفاظ ذہن میں آتے ہیں کہ :
کس قدر روپ ہیں یاروں کے کہ خوف آتا ہے
سر میخانہ جدا اور سر سرکار جدا

تمام تر صورتحال کو مختصر پیرائے میں سمیٹا جائے تو یوں محسوس ہوتاہے کہ آنے والے دنوں میں حدت بھی بڑھے گی، شدت بھی بڑھے گی اور اس کا بوجھ مہنگائی کی چکی میں پستے عوام کو ہی اٹھانا پڑے گا لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ من حیث القوم اور خاص طور پر طاقتور اور اہم ادارے سر جوڑ کر بیٹھیں اور فوری طور پر اس حدت اور شدت میں کمی لاتے ہوئے ملک کو استحکام کی راہ پر گامزن کریںورنہ حالات وہاں پہنچ جائینگے کہ کسی کے ہاتھ میں کچھ نہ رہے گا۔
 

Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador)
About the Author: Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador) Read More Articles by Dr. Jamil Ahmed Khan (Former Ambassador): 39 Articles with 38500 views Former Ambassador to UAE, Libya and High Commissioner of Malta.
Former Chief Security Advisor at United Nations۔(DSS)
.. View More