کراچی کے حالیہ ضمنی بلدیاتی الیکشن میں پیپلزپارٹی نے
ایک بار پھر دھونس ، دہمکی ، دھاندلی وغیرہ سے میدان مارلیا جبکہ جماعت
اسلامی پھر وہیں جہاں مقابلے پر پیپلزپارٹی ہوگی وہاں یہ ہی چیزیں ہونگی یہ
پیپلزپارٹی کی 1971 اور 1977 کے جرنل الیکشن ہوں یا میونسپلٹی کے یہ جماعت
کے چہرے تو بدل گئے مگر خصلت وہی ہے ( سندھ ہمارا تو ووٹ بھی ہمارا ) خیر
یہ تو ہر الیکشن میں خاص کر پاکستان کی نام نہاد جمہوریت پر اور وہاں جہاں
وراثتی جماعتوں کا غلبہ ہو اُدھر جماعت اسلامی ہو یا تحریک انصاف انہیں ہر
طرح کی مُشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا پڑئیگا. پیپلز پارٹی ہو یا
مسلم لیگ ن انکا وطیرہ ہمیشہ سے یہ رہا کہ کسی بھی طریقہ سے سیٹ نکالنا ہے.
انتیظامیہ بھی ان کے آگے مجبور ولاچار نظر ہمیشہ سے نظر آتی رہی ہے. اس وقت
اب تو دونوں جماعت پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی دونوں ہی اپنے اپنے مئیر
شپ کی پوزیشن سے باہر آنے کو تیار نہیں اور نہ ہی کوئی بھی متبادل پریشر
لانے کو تیار نظر نہیں آرہی ہیں۔ ایسے میں جماعت اسلامی کو بہت سوچ اور
سمجھ کے اپنا فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملائے گی یا پھر
تحریک انصاف کے ساتھ۔ کراچی میں پیچھلے ادوار سے اب تک جماعت اسلامی کے تین
منتخب میئر آچکے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ایم کیو ایم کے میئر
بھی آچکے ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کے فہیم الزمان اور مرتضیٰ وہاب
ایڈمنسٹریٹر تو رہ چکے ہیں لیکن کبھی منتخب میئر نہیں رہے۔ کئی ماہ قبل
کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اعلان کر چکے تھے کہ
کراچی کا میئر جیالا ہی ہوگا یعنی ان کی جماعت سے ہو گا۔ دوسری جانب
پاکستان پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کے کسی بھی امکان کو
مسترد کردیا ہے.جبکہ پاکستان کی سیاست میں کیا جمہوریت میں کل کے دوست آج
کے دشمن اور آج کے دشمن کل کے دوست ( ضرب المثل ) یہ حقیقت میں پاکستان کی
تاریخ میں عیاں جس کی مثال اس وقت ( پی ڈی ایم ) اتحاد ہے . پیپلز پارٹی
اکثریتی جماعت ہے تاہم یہ اکثریت اتنی واضح نہیں۔ مگر پھر بھی کچھ آزاد اور
اتحادی جماعتوں کی سیٹیں مل جاتیں ہیں. تو یہ سادہ اکثریت سے اپنا مئیر
لیکر آسکتی ہے. مگر افسوس یہ ہی ہے کہ پیپلزپارٹی میں اس وقت تمام منتخب
بلدیاتی ممبرز میں کوئی بھی اتنا قابل زکر فرد نہیں جو مئیر کی سیٹ
سنبھالے. ایسے براہ راست باہر سے لیکر آنا پڑئیگا. اور بعد میں الیکشن کے
عمل سے گزر کر منتخب کروانا پڑئیگا. ( اس وقت پرنٹ میڈیا وغیرہ میں مرتضی
وہاب کے لیے لابنگ ہورہی ہے مگر پیپلزپارٹی میں ایک حلقہ سید غنی کو اہل
قرار دے رہا ہے کہ وہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے مدمقابل صیح اُمیدوار
ہے. جو پیپلزپارٹی کو شہر کراچی میں متحدہ، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے
مردمُ شماری کے بیانیہ کو دفن کرسکتا ہے. اور پیپلز پارٹی کو شہری سیاست
میں اپنے قدم جمانے کے لیے بہت کچھ کرسکتا ہے جو مرتضی وہاب کے بس میں
نہیں) اگر پاکستان پیپلز پارٹی نے جماعت اسلامی کو اپنے ساتھ نہیں ملایا تو
اس کے لیے مشکلات ہو سکتی ہیں اس وقت بلاول بھٹو کو آگے بڑھ کر اپنی اور
اپنی جماعت کی طرف سے جماعت اسلامی کو مطمئن کرنا ہو گا. اس وقت جو بھی
کراچی کے ضمنی الیکشن کے نتائج آئے ہیں اور کے حوالے سے ان کا جو دعویٰ ہے
صحیح یا غلط ان کو مطمئن کرنا ہو گا۔ اس کے بغیر شاید جماعت اسلامی کے لیے
پیشرفت مشکل ہو جائےگی. پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی رہنما اور صوبائی
وزیر سعید غنی نے میڈیا اور سوشل میڈیا کی ان اطلاعات کو غلط قرار دیا جس
میں یہ کہا جارہا تھا کہ میئر شپ جماعت اسلامی کو دی جا رہی ہے سعید غنی نے
اس بات پر زور دیا کہ پی پی میئر شپ سے دستبردار نہیں ہوگی جبکہ اطلاعات یہ
ہی ہیں کہ بیک ڈور جماعت اسلامی کے ساتھ بات چیت کرنے اور راستہ نکالنے کے
لیے مزاکرات چل رہے ہیں. پی پی کہ اکثر صوبائی وزراء یہ ہی اُمید لگائے
بیٹھے ہیں کہ جماعت اسلامی کے ساتھ معاملات بہتر ہو جائیں گے جبکہ جماعت
اسلامی کہ حافظ نعیم کا کہنا ہے کہ ایک اچھا ماحول بنانے اور کراچی کی ترقی
کے لیے سندھ حکومت سے بات ہوسکتی ہے. لگتا یہ ہی ہے کہ جماعت اسلامی اور
پیپلز پارٹی میں مئیر شپ پر کسی بھی نتیجہ پر پہنج جائے مگر جماعت اسلامی
کو یہ یاد رکھنا چاہیے یہ جو کراچی میں بلدیاتی سیٹ ملی ہیں وہ ان کو صرف
اور صرف کراچی بیانیہ پر کراچی کی عوام نے انہیں دیا ہے ان کو سب سے پہلے
پیپلز پارٹی سے یہ مطالبات منظور کروانا چاہیے جو بلدیاتی اور میونسپلٹی کے
اختیار میں آتے ہیں مثلا ( مردم ُشماری میں کراچی کی صیح گنتی ، بلدیاتی
سیٹوں میں آبادی کے لحاظ سے اضافہ ، ٹینکر مافیہ کا خاتمہ، موٹر وہیکل ٹیکس
پر کراچی میٹروپولیٹن کا اختیار ، شہر کراچی پر لینڈ مافیہ سے کراچی شہر کی
زمین واگزار کرانا ، شہر کراچی پر مختلف اداروں کے رہائشی بورڈ پر سول
آبادیوں کو کراچی میونسپل میں شامل کروانا، ) اس طرح کے مطالبات پر ان کو
لانا پھر تو ج ان کے ساتھ مل کر کام ہو گا اس میں کوئی دو رائے نہیں لیکن
جو مینڈیٹ عوام نے انہیں کراچی بیانیہ پر دیا ہے وہ پہلے کراچی کی عوام کو
فراہم کریں . جبکہ جماعت کا دعوی یہ ہی رہا ہے ان نمبر صحیح ہو جائیں گے تو
پھر ہر کسی سے بات چیت ہو جائے گی۔ اگر ہم میئر شپ کی بات پر چلے جاتے ہیں
تو پھر ہمارا دعویٰ ختم ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے
کہ وہ کراچی کی اکثریتی جماعت ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کہ مئیر شپ کے
اُمیدوار جو بلدیاتی الیکشن میں ہار گئے جناب خرم شیر زمان کا کہنا ہے کہ
پارٹی نے ابھی فیصلہ نہیں کیا کہ کس جماعت کی حمایت کرنی ہے لیکن جماعت
اسلامی کے میئر شپ کے امیدوار حافظ نعیم الرحمان یہ دعوی کرتے ہیں کہ تحریک
انصاف نے غیر مشروط طور پر ہمیں پیشکش کی ہے۔ پی ٹی آئی میں سب سے بڑا
مسئلہ تنظیم سازی نہ ہونے سے کراچی اور سندھ لیول میں ہر گروپ اپنی اپنی
پالیسی بیانیہ داغ دیتے ہیں. جس سے عام عوام کی سمجھ میں ان کی سیاست سے دن
بدن کنفیوزن پھیل رہی ہے کہ کراچی کی پی ٹی آئی کی اصل قیادت کس کے پاس ہے
علی زیدی یا خرم شیر زمان یا علیم عادل شیخ ہر فرد اپنے آپ کو کراچی کا پی
ٹی آئی کا رہنما سمجھتا ہے جبکہ علی زیدی ہی کراچی کو پی ٹی آئی کی طرف سے
لیڈ کررہے ہیں مگر پی ٹی آئی کراچی کے 50 فیصد ایریا میں ان کے خلاف پی ٹی
آئی کے وورکرز مخالفت کرتے ہیں جو کہ پی ٹی آئی کے لیے بہت بڑی جرنل الیکشن
میں حزیمت بن سکتی ہے. کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں حکمران اتحادی پی ڈی
ایم میں شامل جے یو آئی ، مسلم لیگ ن سمیت چھوٹی جماعتوں کو پیپزپارٹی اپنے
ساتھ ملانے کے لیے کافی تگ و دو میں لگی ہوئی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کے
ممکنہ اتحادیوں کی تعداد 16 بنتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کو مخصوص نشستوں میں
بھی ایک بڑا حصہ ملنے کی امید ہے۔ اگر یہ ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جائیں
کیونکہ سعید غنی کا الیکشن سے پہلے ان کا یہ کہنا تھا کہ ان اتحاد اور
جماعتوں سے انڈرسٹینڈنگ ہے، کئی یوسیز میں مشترکہ امیدوار کھڑے کیے تھے، وہ
میینج کر لیں گے. اگر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں اتحاد ہو جاتا ہے
تو پیپلز پارٹی کے لیے میئر منتخب کروانا مشکل ہو جائے گا مگر سوچنے کی بات
یہ ہےاگر جماعت اسلامی تحریک انصاف کے ساتھ جاتی ہے تو وہ میئرشپ تو حاصل
کر لیں گے لیکن اس طرح سے مؤثر میئر نہیں بن سکے گا ظاہر ہے کہ اس کو
اپوزیشن کے میئر کے طور پر دیکھا جائے گا اور صوبائی حکومت سے بھی مسئلے
مسائل بڑھتے جائینگے ۔ جو اب کراچی کی ترقی کے لیے بہت مشکل ہوجائیگا اور
عوام کے صبر کا پیمانہ ویسے بھی لبریز ہوجائیگا وہ پہلے ہی متحدہ کے
بائیکاٹ سے مُتنفر ہے. اگر پیپلز پارٹی کسی بھی معاہدے میں پہنچ کر اپنا
مئیر بھی منتخب کروا بھی لیتی ہے تو اس کو مضبوط اپوزیشن ملے گی اور وہ
نہیں چاہیں گے کہ ایسی تناؤ والی صورتحال پیدا ہو لہذا انھیں بھی جماعت
اسلامی سے بات کرنا ہو گی۔ اس وقت تینوں جماعتیں اپنی اپنی مئیر شپ کے
اُمیدوار کے لیے جوڑ توڑ پر لگی ہوئی ہیں ان تینوں میں سے تحریک انصاف کو
معلوم ہے میرا مئیر تو نہیں آسکتا تو مجھے ڈپٹی مئیر شپ ہی مل جائے مگر علی
زیدی ابھی تک اس کو منظرعام پر نہیں لائے ( اب تو وہ حراست میں ہیں ) مگر
اندر یہ مفروضے چل رہے ہیں پیپلزپارٹی بھی اس کو جماعت اسلامی کو اندرون
خانہ اس طرح کی رائے دے رہی ہے کہ پی پی کا مئیر اور جماعت کا ڈپٹی مئیر
مگر جماعت اپنی مئیر شپ اُمیدوار سے اس وقت ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار
نہیں آنے والے وقت میں یہ پی پی کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ہوئیگا. کہ وہ
کراچی کی مئیر شپ کے لیے جو کئ عرصہ سے دیکھ رہی تھی وہ پورا ہوتا نظر نہیں
آرہا مگر سیاست میں یہ سب کچھ ہوسکتا ہے بس دلوں میں گنجائش ہو تو ہر
ناممکن کو ممکن بنتا بھی اس ہی سیاست میں نظر آتے دیکھا ہے بس ٹائمنگ اور
فیصلہ میں نیک نیتی اوّل ہو.
|