دشمنِ وطن کے پرچم سرنگوں رہیں گے

گدھے نے شیر کی موجودگی میں جنگل کے جانوروں سے کہا کہ گھاس نیلی ہے۔ تمام جانور خاموش رہے لیکن شیر نے برجستہ جواب دیا گھاس ہری ہے۔ یہاں تک کہ ان دونوں کے درمیان لمبی بحث چھڑ گئی وہ اپنی بات درست تسلیم کروانے کیلئے قاضی کے پاس گئے۔ قاضی بھی شیر تھا۔ جب اس نے دونوں کی بات سنی۔ تو شیر کو سزا سنادی کہ تین دن تک اس سے کوئی بات نہ کرے۔ گدھا فیصلہ سن کر خوشی سے جنگل میں اْچھلتا رہا اور تمام جانوروں کو چیخ چیخ کر بتاتا رہا کہ میری بات ٹھیک ہے۔ گھاس نیلی ہے۔ دوسری طرف شیر اپنی سزا کاٹ کر قاضی صاحب کے پاس گیا اور پوچھا کہ گھاس ہری ہے نا؟ قاضی نے جواب دیا۔ ہاں گھاس ہری ہے۔ شیر نے بلا توقف سوال کیا پھر مجھے کیوں سزا دی ؟ قاضی صاحب نے جواب دیا۔ گھاس ہری ہے یا نیلی اس سے تیری سزا کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ کھوتے سے بحث کرکے اپنا وقت ضائع کرنا تیری ذہانت و بہادری کی توہین ہے اور پھر اس بے کار معاملے میں اپنے سے بڑے درجے کو پریشان کرنا قابل سزا ہے جبکہ جنگل کا ہر جانور جانتا ہے کہ گھاس ہری ہے۔ اس میں بحث کی کوئی بات ہی نہیں۔ وقت اور صلاحیتوں کا ضیاع اس بے وقوف شخص سے بحث کرنا ہے۔ جسے حق یا منطق نہیں بلکہ صرف اپنے وہم اور عقائد کی جیت سے مطلب ہو۔ چاہے وہ حقیقت سے کتنا ہی دور ہوں۔ بے معنی ابحاث میں اپنی توانائی ضائع نہ کریں۔ دنیا میں ایسے کء لوگ موجود ہیں۔ ان کے سامنے تمام ثبوت اور دلائل پیش کیے جانے کے باوجود وہ حقیقت سمجھنے اور جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ جہالت ، انا اور نفرت میں ڈوبے ہوئے یہی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ٹھیک ہوں۔ چاہے حقیقت کچھ بھی ہو۔جب جہالت کی آواز بلند ہونے لگے تو عقل اور منطق کی آواز روک لینا ہی دانشمندی ہے۔ایک وقت تھا۔ جب افغانستان میں بھارتی ایجنسی را سمیت پاکستان کے دشمن ایجنسیوں کو گڑھا تھا اور ان تمام ایجنسیوں کا نشانہ افغانستان کم پاکستان زیادہ تھا۔ ان ایجنسیوں کا مقابلہ پاکستان کی ایک ایجنسی آئی ایس آئی نے کیا اور اِن دشمنوں کو وہ چوٹ دی ، آئی ایس آئی نے۔ جو وہ دشمن خود اس کا انکشاف کرتے رہے اور مانتے رہے کہ پاکستان کی ایجنسی آئی ایس آئی کے ایجنٹوں کو نہ ہم ڈھونڈ سکتے ہیں نہ پکڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ہم ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان تمام ایجنسیوں سے پاکستان کی ایجنسی آئی ایس آئی کا بجٹ بہت کم ہے۔ اس کے باوجود بھی بھرپور طریقے سے ان دشمنوں کا مقابلہ کیا اور ان کو افغانستان کی سرزمین سے دھکیل کر باہر پھینک دیا۔ آج اس ہماری عظیم افواج پر پاکستان کے کچھ سیاستدانوں کے مرید اْنگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ جس پر ہماری انٹیلیجنس آرمی بھرپور صبر کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ صبر صرف پاکستان کی خاطر کر رہی ہے اور یہ سوچ کر صبر کر رہی ہے کہ ہمارے اپنے ہی پیارے وطن پاکستان کے لوگ ہیں۔ آج نہیں تو کل ان کو سمجھ آہی جائے گا۔ ایک انٹرویو میں لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر صاحبہ نے کہا کہ یہ مقام شکر ہے کہ ہمارے پاس ایک ایسا ادارہ تو موجود ہے۔ جہاں میرٹ پر یقین ہی نہیں رکھا جاتا بلکہ اْس پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں اْوپر سے لے کر نیچے تک نظم و ضبط بھی موجود ہے اور ترقی کے لئے اِدھر اْدھر سے غیرقانونی ذرائع تلاش نہیں کرنا پڑتے۔ افواج پاکستان ہر میدان میں خواہ جنگ کا میدان ہو یا قدرتی آفات ، سیلاب ہو یا امن و امان ہر میدان میں عوام کی توقعات پر پورا اترتی ہے۔ صرف یہی نہیں۔ فوج میں کسی قسم کا کوئی صنفی امتیاز برتا نہیں جاتا۔ جو خواتین فوج میں شامل ہو کر ملک و قوم کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کا عزم کرتی ہیں۔ وہ بھی اعلی مدارج حاصل کر سکتی ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر اسکی زندہ مثال ہے۔ بس شرط یہی ہے کہ لوگ اپنے کام میں ڈٹ جائیں ، محنت کریں تاکہ وہ اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوں۔پاک فوج کی خوبصورتی ، مسلک مختلف مگر وطن عزیز کے لیے ھمشہ یک جان۔ فرقہ واریت اور لسانیت قوم پرستی سے پاک فوج سنی ، شعیہ ، وہابی ، بریلوی ، دیوبندی کا ایک عظیم اتحاد ، پاک فوج۔ یہ پاک فوج کے جوان ہیں۔ امام کے پیچھے مختلف مسا لک کے فوجی جوان بنا کسی ہچکچاہٹ کے نماز ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ انکو فرق نہیں پڑتا کہ ساتھ والے فوجی بھائی کا مسلک کیا ہے۔ وہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھ رہا یا باندھ کر۔ ان میں ان ہر مسئلہ اور ھر قوم سے جواں موجود ہیں۔ اگر آپ ان تمام مسالک کے لوگوں کو پاکستان میں ایک ساتھ ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے دیکھنا چاہتے تو یہ صرف پاک فوج کا حسن ہے اور وہیں آپ کو دیکھنے کو ملے گا۔ مگر یقین جانیے ان میں سب اسلام اور پاکستان کے وفادار ہیں۔ کوئی ایران اور سعودی بادشاہ ہوں کا نمک نہیں کھاتا۔ پاک ایران سرحد پر جب ایرانی فوج کی طرف سے بلا جواز فائرنگ ہوتی ہے تو یقین جانیے اہل تشیع فوجی بھائی بڑی دلیری سے مورچوں سے ایران کی طرف فائرنگ کر رہے تھے۔ کیونکہ انکی وفاداری پہلے اسلام اور اسکے کے بعد پاکستان سے ہے۔ بس ہمیں اپنی افواج سے سیکھنا چاہیے۔ پاکستان ہم سب کا ہے۔ ہم سب وطن کے سپاہی ہیں۔ مسلکی اختلاف اپنی جگہ وطن کے لیے سب ایک ہیں۔ ہمارے وطن کے دشمن بہت ہیں۔ غداری بہت گہرائی تک سرایت کر گئی ہے۔ دشمن کا پروپگنڈہ عروج پر ہے۔ اگر آپ کسی مسلک کو غلط سمجھتے ہیں تو اسکا معاملہ اللّٰہ پر چھوڑ دیں۔ وہی ذات ہے بزرگ و برتر وہی حقدار ہے فیصلہ کرنے والی۔کسی کے خلاف نفرت کا اظہار یا کسی سے بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تمام فرقوں ، تعصبات ، لسانیات سے بالاتر دنیا کی سب سے بہترین فوج ہماری پاک افواج ہے۔ جہاں نا کوئی شعیہ نا کوئی سنی اور نا کوئی وہابی ہے۔ وہاں تو بس ایک مجاہد ہے۔ جو ان تمام باتوں کو اپنے پاؤں تلے روند کر پاکستان میں امن بحالی کے لیے اپنے ساتھی جوان کے کندھے سے کندھا ملائے۔ دشمن کی صفوں میں طوفان برپا کر دیتے ہیں۔ یہی چیز ہماری فوج کو عظیم ترین فوج بناتی ہے۔ جب فوج اتفاق اور اتحاد سے رہ سکتی ہے۔ تو آپ کیوں نہیں ؟ یہ وطن ہے تو ہم سب ہیں۔ ہمارے سائنسدانوں کی دن رات کی انتھک کوششیں اس وطن کو ایٹمی طاقت کا سرچشمہ بنانے کے لیے انکو کون سی یادداشتوں سے نکال سکتا ہے۔ 1948ء ، 1965ء اور 1971ء کی جنگیں پانی بہا کے نہیں لڑی گئیں۔ اس وطن کی آزاد قوم نے ، آزاد وطن پاکستان کے لئے ، آزادی کو مظبوط سرحدوں میں مقید کرنے کے لیے خون اور جگر کے ٹکڑوں سے لڑی ہے۔ کیا یہ شواہد کم ہیں ؟ ہماری آزادی کی للکار کے لیے۔ یہ ہماری پیشانی پہ جو آزادی کا سورج روشن ہے۔ ہماری گردن میں جو عزت تاروں کی جھلمل کرتی مالا کی طرح چمک رہی ہے اور چکا چوند کرتی ہے۔ وطنِ پاکستان کے پرچم ، ہماری صداقت اور شجاعت کو ، پاکستان کو آزاد نہ کہنے والے ، پاکستان کو زندہ باد اور پائندہ باد کے نعرے میں نہ پکارنے والے جان لیں کہ جب شہادتوں ، عزمِ استقلال ، ایثار و قربانی کے لیے ہم ہر وقت تیار و کامران رہیں گے۔ ہمارا وطن سر بلند رہے گا۔ ہم وطن پرست ، مذہب پرست اور اپنے اسلاف کے کارناموں کے پیروکار ہیں۔ جب یہ وطن ہمارے حوالے کیا گیا۔ اْس وقت گو کہ ظلمت کدے زیادہ تھے مگر آج ہر سو اْجالا ہے۔ ایک ننھے سے چراغ میں بھی ، جگنو میں بھی اتنی روشنی ہے کہ وہ بھٹکے ہوؤں کو منزل تک لے جاتا ہے۔ ہم نے تو پھر اپنی آنکھ ، اپنا دل ، اپنے بازو ، اپنے جگر اس وطن کی راہ میں خاک کر دیئے ہیں اور نہ ہم پر کوئی غم کے پہاڑ ٹوٹے ہیں نہ ہم کمزور اور بے منزل ہوئے ہیں۔ ہماری راستے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ ہم پہاڑ کی چوٹیوں کو سر کرنے کی آج بھی اتنی ہی طاقت رکھتے ہیں۔ جتنی کے کارگل کی جنگ میں تھی۔ ہماری شکست کو ہمارا دشمن ترستا ہے اور ہم ترس رہے ہیں اس دن کو۔ جب ہمارا پیارا پرچم دنیا بھی ہمیشہ کے لئے لہرایا جائے گا اور دشمنِ وطن کے پرچم سرنگوں ہونگے اور ہماری قومیت حاصل کرنے کے لئے دنیا بھر کے لوگ خواہش مند ہوں گے۔ کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی اس دنیا کا عظیم ملک بنے گا۔ ان شاء اﷲ ضرور !،بشکریہ سی سی پی۔

Mehr Ishtiaq
About the Author: Mehr Ishtiaq Read More Articles by Mehr Ishtiaq: 31 Articles with 21561 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.