سچ اورجھوٹ کاتونہیں پتہ لیکن ہم نے کہیں پڑھاتھاکہ کسی
سکول،کالج،ہسپتال ،فیکٹری،مارکیٹ یاکسی کارخانے میں کام کرنے والے
بابویامنیجر صاحب کو جب تنخواہ ملی تو وہ تنخواہ وصول کرنے کے بعد آفس سے
چھٹی کرکے نکلے اور گھر جانے کے لئے مسافروں سے بھری بس میں سوار ہوگئے۔
اسی بس میں ایک جیب کترا تھا جس نے اس بابویامنیجر کی جیب مار کر ساری
تنخواہ اڑا لی اور جیب خالی کردی۔جب بس کنڈیکٹر نے ٹکٹ کے لیے پیسوں کا
پوچھا تو اس نے فوراً جیب میں ہاتھ ڈالامگرجیب تو ایسی خالی تھی کہ جیسے اس
میں کچھ رکھاہی نہ ہو۔ جیب کو خالی پاکر اس شریف شخص کا چہرہ ندامت کے مارے
سرخ ہو گیا اور زبان لڑکھڑانے لگی ۔بس کنڈیکٹر نے اسے طنزیہ انداز میں کہا۔
بلا ٹکٹ سفر کرنے پر تمہیں شرم آنی چاہیے۔ظاہری حلیے سے دیکھنے میں تو تم
معزز شخص لگتے ہو مگر تمہاری جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں ۔جیب کترا جو پاس
ہی کھڑا تھا، اس نے کنڈیکٹر کے کندھے پر ہاتھ مارا اور کنڈیکٹر سے کہنے لگا۔
میرے بھائی اس شریف شخص کا مذاق نہ اڑاؤ،انسان ہے بھول چال ہوتی ہے یہ پاکٹ
گھرمیں بھول کرآگئے ہوں گے۔ اس کے ٹکٹ کے پیسے میں دے دیتاہوں۔یہ سن کر
بابو نے خدا کا شکر ادا کیا اور مسکرا کر مشکور ہوتے ہوئے جیب کترے سے
کہا،،خدا آپ کو خوش رکھے،، اور آپ کے کاروبار میں خوب ترقی دے کیونکہ آپ
جیسے نیک اورخداترس لوگ ہی معاشرے کے حقیقی ہمدرد لوگ ہیں جو مصیبت میں
مبتلا لوگوں کا خیال رکھتے ہیں۔ کسی اجنبی پر مہربانی کا یہ منظر دیکھ کر
بس کے مسافر بھی اس چور کے اعلیٰ اخلاق کی تعریف کرنے کے ساتھ اس کے لئے
دعا کرنے لگے کہ خدا اس مہربان شخص کے کاروبار میں برکت عطا فرمائے اور اس
جیسے لوگوں کا معاشرے میں اضافہ ہو۔یہ واقعہ سچاہے یاجھوٹااس کے بارے میں
توکوئی پتہ نہیں لیکن آج ہمارے ساتھ جوکچھ ہورہاہے وہ اس واقعے سے
ہرگزمختلف نہیں۔اس واقعے میں توایک جیب کترے کاذکرہے لیکن اگرآپ آنکھیں
کھول کردیکھیں تو اس ملک اورمعاشرے میں جیب کتروں کاآج پوراایک
بازارلگاہواہے۔ آج ہماری تباہی اوربربادی کی پوری کہانی اس واقعے کے
اردگردگھوم رہی ہے۔اس بابوکی طرح ان جیب کتروں کے لئے اخلاص سے مانگی گئی
ہماری دعائیں ایسی قبول ہوگئی ہیں کہ اب نہ صرف اس ملک اورمعاشرے میں جیب
کتروں کی کثرت ہے بلکہ ان کاکاروباربھی ترقی کرتے کرتے اب وسیع ہوگیاہے۔گلی
محلے میں پھرنے والے ریڑھی بان سے لیکرملک کے ایک حکمران تک ہرشخص اوربندہ
ہمیں چونے پرچونالگارہاہے مگرہم جواب میں اسے،،خدا آپ کو خوش رکھے،،کہنے کے
ساتھ کاروبارمیں برکت کی ڈھیروں دعائیں بھی دیتے جارہے ہیں۔وہ بابوتوایک
بارلٹ گئے تھے لیکن ہم توان جیب کتروں کے ہاتھوں سالوں سے لٹتے جا رہے
ہیں۔ہماری پرخلوص دعاؤں اورشکریے کی وجہ سے اب اس ملک میں ہربااختیارشخص
اورفردنے جیب کترے کاروپ دھارلیاہے۔ہم اتنی دعائیں اپنے والدین،بہن بھائیوں
اوررشتہ داروں کونہیں دیتے جتنی دعائیں ہم ان جیب کتروں کودیتے ہیں۔زندگی
میں توہم نے اپنے کسی بھائی،بہن اوردوست کاشکریہ ادانہیں کیاہوگالیکن ہرڈس
اورڈوزکے بعدقدم قدم پرہم ان جیب کتروں کاشکریہ اداکرتے ہوئے نہیں
تھکتے۔گاؤں اورعلاقے کاچھوٹاساناظم اورممبرایک لاکھ روپے میں جب ساٹھ ستر
ہزارگلی اورنالے پرلگاتاہے توتیس چالیس ہزارڈکاڑنے کی خوشی پرہم
ہاراورمٹھائی لیکراس کاشکریہ اداکرنے اوراس کے کاروبارمیں مزیدبرکت کی
دعائیں دینے پہنچ جاتے ہیں۔ناظم،ممبراورٹھیکیدارہرمنصوبے اورسکیم میں ہمیں
ہزاروں نہیں لاکھوں کاچونالگاتے ہیں لیکن پھربھی ہرمنصوبے سکیم پرہم
ہرممبر،ہرناظم اورہرٹھیکیدارکو ،،خدا آپ کو خوش رکھے،،کہتے ہیں۔اسی طرح اس
ملک کے ایم این ایز،ایم پی ایز،وزیر،مشیراورسرکاری افسران بھی ہمارے ہی خون
پسینے کی کمائی پرہاتھ صاف کرتے ہیں ،مزے اورعیاشیاں کرتے ہیں لیکن شکریہ
ہم ان کابھی اداکرتے ہیں اوربرکت کی دعائیں ہم ان کوبھی دیتے
ہیں۔ڈاکٹرزمیڈیسن کمپنیوں کی خوشنودی اورمال کے لئے نہ صرف ہماری چمڑی
اتارتے ہیں بلکہ اکثراوقات ہماری زندگیوں کوداؤپربھی لگادیتے ہیں لیکن ہم
اس چمڑی اتارنے اورزندگیوں کوداؤپرلگانے والے ڈاکٹرزکوبھی ،،خدا آپ کو خوش
رکھے،،کہہ کران کاشکریہ اداکرتے ہیں۔سبزی،فروٹ،دودھ اوردہی بیچنے والے سے
لیکرآٹا،چاول،چینی،دال اورمچھلی وگوشت بیچنے والے تک خالص اورایک نمبرکے
پیسے لیکرہرچیزہمیں خراب،غیرمعیاری اوردونمبرپکڑادیتے ہیں لیکن پھربھی نہ
صرف ہم ان کاشکریہ اداکرتے ہیں بلکہ گھراوردرتک ان کے کاروبار،مال ودولت
میں برکت اورترقی کیے لئے دعائیں مانگتے پھرتے ہیں۔یہ توسب جانتے ہیں کہ
دعائیں کبھی ردنہیں ہوتیں۔لاکھ میں تیس چالیس ہزاراپنی طرف بخشنے والے
ممبر،ناظم،ایم پی اے،ایم این اے،ٹھیکیداروسرکاری افسر،عوام کی چمڑی اتارنے
پرتجوریوں پرتجوریاں بھرنے اوردنیابھرکی سیرکرنے والے ڈاکٹرزاورذخیرہ
اندوزی سے منہ کالاکرکے ایک روپے کی چیزسوروپے میں بیچنے والے تاجروں کے
بڑے بڑے محل،پلازے،مارکیٹس اوررنگ برنگی گاڑیاں دیکھ کریہ سوال ذہن میں
اٹھنے لگتاہے کہ ان حرام خوروں کے مال ودولت میں برکت پر یہ برکت کہیں
ہماری انہی پرخلوص دعاؤں اورنیک تمناؤں کانتیجہ تونہیں۔؟ کوئی مانیں یانہ
لیکن سچ یہی ہے کہ ان جیب کتروں کی یہ برکت ہم سے ہی ہے۔اپنی ہرجیب کٹنے
پراگرہم ان جیب کتروں کواس بابواوربس میں بیٹھنے والے ان مسافروں کی طرح
دعاؤں پردعائیں نہ دیتے توآج قومی خزانے اورہماری جیبوں کی یہ حالت نہ
ہوتی۔اس لئے ایسے جیب کتروں،چوروں،ڈاکوؤں،راہزنوں اورلٹیروں کوکاروبارمیں
برکت کی دعائیں دینے سے پہلے اپنے مال ،اپنے حقوق اوراپنی امانت کی بھی ایک
بارخبرضرورلیاکریں تاکہ کل کویہ برکت پھرآپ کے گلے نہ پڑے۔ |