بھارتیہ جنتا پارٹی چونکہ مستقل الیکشن موڈ میں رہتی ہے
اس لیے ہندی میں اس کو ’چناو جیوی‘(انتخاب طفیلی ) پارٹی کے لقب د یاگیا
ہے۔ ریاستی انتخاب میں اس کی خود اعتمادی کا اندازہ پولنگ کے مراحل کی
تعداد سے ہوتا ہے مثلاً مغربی بنگال میں ممتا کو ہرانا مشکل ہو تو سات
مراحل میں انتخاب ہوتا ہے۔ریاست میں ایک جگہ لوگ ووٹ دے رہے ہوتے ہیں اور
دوسرے مقام پر مودی مہم چلا کر میڈیا کے ذریعہ رائے دہندگان کوپولنگ کے
دوران متاثر کرتےہیں ۔ گجرات کے اندر بی جے پی کو کامیابی کا یقین تھا اس
کے باوجود دومراحل میں انتخاب ہوا لیکن کرناٹک کوایک ہی دن نمٹا دینے کا
فیصلہ کیا گیا جو بیجا خود اعتمادی کا ثبوت تھا لیکن اب دال آٹے کا بھاو
معلوم ہورہا ہے۔ مودی جی نے کارکردگی بتانے کے بجائے رونا دھونا شروع کردیا
ہے۔ ایک بچہ پٹنےکے بعد جیسے والدین سے شکایت کرتا ہے اس طرح ملک کا
وزیراعظم عوام کے سامنے ٹسوے بہاکر بتا رہا ہے کہ اسے 91مرتبہ گالی دی گئی۔
انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ وعدہ فراموش نااہل لوگوں کو تالی نہیں گالی ملتی
ہے۔
اس سرکار سے جب پوچھا جاتا ہے کہ لاک ڈاون کے دوران کتنے مزدور مارے گئے
یاکووڈ سے کتنے افراد کی موت ہوئی تووہ اعدادوشمار کی غیر موجودگی کا بہانہ
بنادیتی ہے مگر مودی جی کو ملنے والی گالیوں کا حساب کتاب خوب رکھا جاتا
ہے۔ اس لیے اب مودی جی کوکرائی منسٹر کے لقب سے نوازہ گیا ہے۔ کانگریس صدر
ملکارجن کھڑگے نے جب کہہ دیا کہ ’’پی ایم مودی ایک’زہریلے سانپ‘ کی طرح
ہیں، اگر آپ اسے چاٹتے ہیں تو مر جائیں گے‘ تو وزیر اعظم رونے دھونے لگے ۔
ویسے کھڑگے نے بعد میں اپنا بیان واپس لیتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ ان کی مراد
وہ زہریلا نظریہ ہے جس کی نمائندگی وزیر اعظم کرتے ہیں لیکن مودی نہیں مانے
انہوں نے الزام لگایا کہ کانگریس نے بابا صاحب امبیڈکر اور ساورکر کو بھی
گالی دی ہےوہ تو ٹھیک ہے مگر ساورکر کے شاگرد گوڈسے نے تو گاندھی جی کو
گولی ماردی اور گوڈسے کو اپنا ہیرو ماننے والی پرگیہ ٹھاکر کوبی جے پی نے
رکن پارلیمان بنادیا۔ مودی جی اگر گالی کے ساتھ گولی کا بھی ذکر فرما دیتے
تو بات مکمل ہوجاتی۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے عوام سے ہمدردی بٹورنے کی خاطر بنجارہ برادری سے
کہا کہ فکر نہ کریں، بنجارہ کا ایک بیٹا دہلی میں بیٹھا ہے۔ اس بیان پر
تبصرہ کرتے ہوئے ملک ارجن کھڑگے کے بیٹے پریا نک کھڑگے نے کہہ دیا کہ ’’
ایسے نالائق بیٹا کا کیا جائے؟ ایسے نالائق بیٹے سے ہم گھر کیسے چلائیں
گے۔‘‘ اس بیان پر بی جے پی نے اعتراض کرتے ہوے کہا کہ پی ایم مودی کو
’نالائق بیٹا‘ کہہ کر پریانک کھڑگے ’اپنے والد کو پیچھے چھوڑ دیاہے‘
حالانکہ سچ تو یہ کہ اگر وزیر اعظم لائق ہوتے تو رونے دھونے کے بجائے یہ
بتاتے کہ پچھلے نو سالوں میں انہوں نے بنجارہ سماج کے لیے کیا کیا؟ اس صورت
میں اسے یدورپاّ کے گھر پر پتھراو کرنے پر مجبور نہ ہونا پڑتا۔ کرناٹک میں
ڈبل انجن سرکار تھی اس نے فلاح وبہبود کے جو اقدام کیےاس کی تفصیل بتانے کے
بجائے اوٹ پٹانگ الزامات ان کے لائق و فائق ہونے پر سوالیہ نشان کھڑا
کردیتا ہے۔ اسی لیے کرناٹک کانگریس کے رہنما سنکیت ینگی نے پریانک کھڑگے کے
بیان کا یہ جواز پیش کیا کہ’’وزیر اعظم بنجارہ کا بیٹا ہونے کا دعویٰ
توکرتے ہیں لیکن ان کے لیے کچھ نہیں کیا‘‘۔ وزیر اعظم کو اس بات کا بھی
افسوس ہے کہ چوکیدار چور کا نعرہ کیوں لگایا گیا حالانکہ اڈانی کے ساتھ ان
رشتوں نے اس نعرے کو سچ ثابت کردیا ہے۔
اس سے قبل ملکارجن کھڑگے نے جب مودی کو ’’زہریلے سانپ‘‘ سے تشبیہ دی تھی
تواس کے جواب میں بی جے پی لیڈر امت مالویہ نے یاد دلایا تھا کہ سونیا
گاندھی نے مودی کو ’موت کا سوداگر‘ کہا تھا۔ اس میں کون سی عجیب بات ہے
گجرات فساد کے حوالے سے ساری دنیا میں وزیر اعظم مودی کو اسی لقب سے یاد
کیا جاتا ہے۔ فی الحال وہ فسادیوں کو معافی دلوا کر اس خیال کی توثیق
کرکےنفرت کا زہر پھیلا رہے ہیں۔ وزیر اعظم کو زہریلا سانپ کہنے پر آگ
بگولا ہونے والی بی جے پی کو اپنے گریبان میں بھی جھانک کردیکھنا چاہیے۔
ابھی حال میں پی ایم مودی کےمقرب بی جے پی رہنما بسنگوڑا پاٹل یتنال نے
سابق کانگریس صدر سونیا گاندھی کو ’وِش کنیا‘ (زہریلی عورت) اور ’چین و
پاکستان کا ایجنٹ‘ کہہ دیا اور اسے واپس بھی نہیں لیا۔ مودی جی نے کانگریس
کی تاریخ تو یاد دلائی مگر بھول گئے کہ خود انہوں نے سونیا گاندھی کو
’کانگریس کی بیوہ‘ کے ساتھ ’جرسی گائے‘ تک کہا تھااور راجیو گاندھی کو بعد
از مرگ بدعنوان نمبر ایک کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ کیا یہ ایک سابق وزیر اعظم
کی توہین نہیں ہے؟
کانگریس نے بجرنگ دل جیسی نفرت پھیلانے والی پارٹیوں پر پابندی کا وعدہ کیا
تو بی جے پی کو مرچی لگ گئی ۔ اس نے اسے ہنومان کی توہین قرار دے دیا ۔
وزیر اعظم نے کہہ دیا کہ کانگریس ہنومان بھگتوں کو جیل میں بند کرنا چاہتی
ہے۔ اس بیان کو سن کر ایسا لگتا ہے گویا بجرنگ دل کا قیام خود بجرنگ بلی
ہنومان نے کیا اور اس کی قیادت بھی وہی کررہے ہیں۔ ۔ انہیں کے اشارے پر
بجرنگ دل والے ملک بھر میں دنگا فساد کرتے ہیں۔ اس پر پلٹ وار کرتے ہوئے
کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے بی جے پی کی اس حرکت کو ہنومان کی توہین
قرار دیا اور ایسے نامعقول موازنے کے لیے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا
کیونکہ اس سے ہنومان بھگتوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ مودی جی نے بجرنگ
دل پر پابندی کو رام مندر میں رام للا کو قید کرنے کے مشابہ قرار دیا
حالانکہ بابری مسجد کو قفل لگانے کا کام عدالت نے کیا تھا اور اس تالے
کوکھلو انے کی عظیم حماقت خود راہل گاندھی کے والد راجیو گاندھی نے کی تھی۔
یہ حربہ نہ تو کانگریس کے لیے مفید ثابت ہوا تھااور نہ بی جے پی اس کا
فائدہ اٹھا سکے گی۔
کرناٹک کے اندر بی جے پی بوکھلاہٹ کا راز کئی رائے عامہ کے اندازوں میں اس
کی شکست کے اعلان میں پنہاں ہے۔ ابھی تک اے بی پی، ٹی وی ۹ ، ایڈینا، لوک
پول اور نیوز 18جیسےکئی اوپینین پول شائع ہوچکے ہیں ۔ان میں سے امبانی کے
علاوہ باقی سب نے کانگریس کی فتح کا مژدہ سنایا ہے۔ اے بی پی کے مطابق جملہ
224 میں سے بی جے پی کو صرف74 سے 86 نشستوں پر کامیابی کا امکان ظاہر کیا
گیا ۔ اس کے برعکس کانگریس کی جھولی میں 107 سے 119 سیٹوں کے آنے کی
خوشخبری دی گئی ۔ جے ڈی ایس کے لیے 23 سے35 نشستوں پر کامیابی کا امکان
ظاہر کیا گیا جبکہ دیگر لوگوں کےلیے 0 سے5 نشستوں پر کامیابی کے آثار نظر
آئے۔ ٹی وی ۹ کا ندازہ بھی اے بی پی سے ملتا جلتا ہے جہاں بی جے پی کو79
سے89 نشستیں اور کانگریس کے لیے106 سے 116 نشستوں کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔
اس مشابہت کی وجہ غالباً دونوں کا سی ووٹرس کی مدد سے ان اعدادو شمار تک
پہنچنا ہے۔
ایک علاقائی چینل ایڈینا نے اپنے میگا سروے میں انکشاف کیا کہ بی جے پی 57
سے65 کے درمیان سمٹ سکتی ہےجبکہ کانگریس 132 سے 140 تک پہنچ سکتی ہے۔لوک
پول نے 128تا 131 نشستیں کانگریس کو اور بی جے پی کو 66 تا 69نشستیں دیں۔
اس چینل نے جے ڈی ایس کو گھٹا کر 19 سے 25 کے درمیان سمیٹ دیا ۔ نیوز 18نے
پھر سے بی جے پی کی کامیابی کا اندازہ لگایا ۔ اس کے مطابق بی جے پی کو
105اور کانگریس کو صرف87 سیٹوں کی پیش قیاسی کی گئی جبکہ جے ڈی ایس کے حصے
میں 32 کا اندازہ ہے لیکن چونکہ اس کے مالک مکیش امبانی ہیں اس لیے ایسے
مواقع پر اس کی غیر جانبداری مشکوک ہوجاتی ہے۔
اس بیچ سی ڈیلی ٹریکر نے بی جے پی کو 43اور کانگریس کو 154نشستیں دے ڈالیں
نیز جی ڈی ایس کو21 پر رکھ دیا۔آر ایس ایس کے داخلی سروے نے 76نشستیں بی
جے پی119 کانگریس کو دی ہیں جبکہ جنتا دل ایس 29 پر ہے۔ریاستی خفیہ ایجنسی
کے مطابق 76سیٹ بی جے پی142کانگریس کو مل رہی ہیں۔ ان سب کا اوسط یعنی پول
آف پولس 55 سے 60نشستیں بی جے پی کو 131 سے142 کانگریس کے حصے میں آتی
ہیں ۔ 16سے 25کے بیچ نشستوں پر جنتا دل کامیاب ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے
میں بی جے پی کا پریشان ہونا اور یکساں سیول کوڈ یا این آر سی کا راگ
الاپنا توقع کے مطابق ہے۔آسام میں کروڈوں روپئے خرچ کرنے کے بعد جب پتہ
چلا کہ این آر سی کی فہرست میں مسلمانوں سے زیادہ ہندو ہیں تو اس کوڈے دان
کی نذر کردیا گیا۔ گجرات، آسام اور ہماچل میں انتخاب کے وقت یکساں سیول
کوڈ کا نعرہ لگایا گیا لیکن نتیجوں کے بعد بی جے پی نے اس معاملے میں کوئی
خاص پیش رفت نہیں کی ۔ کرناٹک میں پھر سے وہی ہ گھسا پٹا مہرا آزمایا
جارہا ہے لیکن وہ کسی کام آئے گا یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا۔
|