اڑیسہ کے بالاسور میں پیش آنے والا ریلوے حادثےکے اندر
ایک منی ٹرک میں لاشوں کو ایک دوسرے پر پھینکنے والی ویڈیو دیکھ کر روح
کانپ جاتی ہے۔ انسانی لاشوں کی ایسی بے حرمتی دنیا میں کہیں نہیں ہوئی ہوگی
۔ ان ویڈیوز کو دیکھنے کے بعد نیند اور ہوش دونوں اڑ جاتے ہیں۔ ہلاک ہونے
والے تقریباً تین سو لوگوں کے پسماندگان پر رحم آتا ہے اور ایک ہزار سے
زیادہ زخمی لوگوں کے لیے دعا نکلتی ہے۔ ہندوستانی ریلوے کی تاریخ میں پیش
آنے والا یہ تیسرا سب سے بڑا حادثہ ہے لیکن ایسی سفاکی کا مظاہرہ کبھی
نہیں ہوا ۔ اس سے قبل 1981 کے اندر ایک پسنجر ٹرین بہار (سہرسا) میں
بھاگمتی ندی میں گر گئی تھی ۔ اس میں 800 لوگوں کی ہلاکت کا اندازہ لگایا
گیا تھا کیونکہ زیادہ تر لاشیں ندی میں بہہ گئی تھیں۔ اس کے بعد 1995 کے
اندر اترپردیش کے فیروز آباد میں ایک حادثہ پیش آیا۔اس میں کالندی
ایکسپریس اپنے آگے کھڑی پرشوتم ایکسپریس ٹکراگئی۔ اس وقت 358 لوگوں نے جان
گنوائی جبکہ بالاسور میں تادمِ تحریر 288لوگوں کے موت کی خبر آچکی ہے۔ ان
کے علاوہ زخمیوں میں سے کتنے لوگ اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوجائیں گے یہ
کوئی نہیں جانتا۔ اس طرح کے سانحات سے بچنے کی خاطر لازم ہے کہ اس حادثے کے
اسباب کا پتہ لگاکران سے سبق سیکھا جائے ورنہ یہ منحوس سلسلہ جاری و ساری
رہے گا۔
حالیہ حادثے کے بعد ملک کے باشندوں کو پتہ چلاکہ ملک میں ایک اشونی ویشنو
نام کے وزیر ریلوے بھی پائے جاتے ہیں ۔ یہ انکشاف یوں ہوا کہ حادثے کے
تقریباً ڈھائی گھنٹے بعد جب وزیر اعظم نے پہلا ٹویٹ کیا تو اس میں ان کا
ذکر تھا۔ وہ اس قدر سعادتمند ہیں کہ مودی جی کا ردعمل سامنے آنے تک چپیّ
سادھے رہے حالانکہ فی زمانہ ذرائع ابلاغ اس قدر تیز ہوگئے ہیں کہ چند منٹوں
میں انہیں اس کی اطلاع مل گئی ہوگئی مگر اٹھارہ گھنٹے کام کرنے والا وزیر
اعظم یا تو آرام فرما رہا تھا یا کسی ایسی میٹنگ میں مصروف تھا کہ جس کے
آگے اتنابڑا حادثہ بھی غیر اہم ہوگیا۔ خیر ڈھائی گھنٹے کی مجرمانہ خاموشی
کے بعد جب وزیر اعظم نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ انہوں نے وزیر ریلوے سے بات
کرکے حالات سے واقفیت حاصل کی تو اس کے بیالیس منٹ بعد اشونی ویشنو نے ہلاک
ہونے والوں کا معاوضہ اور زخمیوں کے لیے امداد کی رقومات کا اعلان کیا۔ اس
کے بعد مزید تین گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد وزیر ریلوے کو خیال آیا کہ
حادثے کی تحقیق ہونی چاہیے تو اعلیٰ سطحی تفتیش کا حکم دے دیا۔ اگلی صبح
موقع واردات پر پہنچ گئے ۔ یہ سانحہ نہ ہوتا تو انہیں اپنی کارکردگی دکھانے
کا موقع ہی نہیں ملتا کیونکہ فی الحال دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک
میں 140 کروڈ بھیڑوں کو ہانکنے کے لیے ایک چرواہا کافی ہے۔
وزیر ریلوے کے لیے سب سے سہل اور بے ضرر کام نئی ریل گاڑی کو ہری جھنڈی
دکھانا ہوسکتا ہے لیکن وزیر اعظم نریندر مودی بیچارے اشونی ویشنو کو اس کا
موقع بھی نہیں دیتے۔ جس شام یہ سانحہ پیش آیا اسی روز دوپہر میں ٹویٹ کرکے
یہ بتایا گیا کہ اگلے دن ویڈیو لنک کے ذریعے گوا-ممبئی وندے بھارت ایکسپریس
کو مودی جی ہری جھنڈی دکھانے والے تھے۔ اس ٹویٹ میں وزیر ریلوے اشونی ویشنو
کا کوئی ذکر نہیں تھا حالانکہ وہ تقریب مڈگاؤں اسٹیشن پر منعقد کی گئی تھی
اور وہاں موجود رہنے کا حکم وزیر موصوف کو دیا گیا تھا۔ وزیر اعظم کے لیے
اس روز گوا آنا ممکن نہیں تھا مگر کیا مجال کہ وہ وہاں موجود ہونے کے
باوجود اشونی ویشنو ہری جھنڈی دکھانے کی جرأت کرتے۔ اس لیے دہلی میں
براجمان نریندر مودی کو ویڈیو لنک کے ذریعہ کرنے کی خاطر یہ کام سونپا گیا
تاکہ نئی ریل کے ساتھ اخبارات میں یہ خبر چھپے تو ساتھ میں وزیر وزیر اعظم
کا ہنستا ہوا نورانی چہرا بھی ہو ۔ عوام کومحسوس کرایا جائے کہ گویا سمراٹ
مودی نے اس ٹرین کی قیمت ٹیکس کی رقم سے نہیں بلکہ اپنی جیب خاص سے ادا کی
ہے۔
اس حادثے کے بعد وزیر ریلوے کو گوا کے بجائے اڑیشہ جانا پڑا۔ وزیر اعظم کو
اعلیٰ سطحی نشست میں شرکت کرنی پڑی ۔ اس لیے مذکورہ تقریب کو منسوخ کر دی
گئی، نتیجہ یہ نکلا کہ بڑے شوق سے پہلی ٹرین میں ٹکٹ مختص کرنے والوں کے
ہاتھ مایوسی آئی۔ بظاہر اس معاملے کا حادثے سے براہِ راست تعلق نہیں لیکن
کاموں کا ارتکاز اگر ایک فرد اور اس کے دفترتک محدود ہوجائے تو گاڑی کے
پٹری سے اترنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔اس موقع پر بی جے پی کے سابق رکن
پارلیمان سبرامنیم سوامی نے نااہل اور چاپلوس لوگوں کو منتخب کرنے پر مودی
کی تنقید کرنے کے بعد وزیر ریلوے کااستعفیٰ طلب کیا ۔ اس تبصرے پر اندھ
بھکتوں کی فوج راشن پانی لے کر اپنے ہندوتو نواز دانشور پر چڑھ گئی اور
اتنا پیٹا کہ رُلا دیا لیکن دوسرے دن جب وزیر ریلوے پریس کے سامنے آئے تو
ان کے پاس نہ وجوہات کا علم تھا اور نہ حادثہ زدگان کے لیے کوئی ٹھوس
منصوبہ ۔ وہ بیچارے پورا وقت مودی مودی کرتے رہے ۔ اس سے سبرامنیم سوامی کے
الزام کی تصدیق ہوگئی۔ اس پر سوامی تو خیرپھولے نہیں سمارہے ہوں گے مگر
بیچارہ سنگھ پریوار سوچ رہا ہوگا کہ ایسے اقتدار کے ہونے سے اس کا نہ ہونا
بہتر تھا کم ازکم اس کی نااہلی کو سرِ بازارطشت ازبام نہیں ہوتی ۔
ذرائع ابلاغ کے اس تیز رفتار دور میں سرکار دربار نے قابلِ تشویش سرد مہری
کا مظاہرہ کیا ۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ ان کی زبان تو خرگوش کی مانند بولیٹ
ٹرین کی رفتار سے چلتی لیکن جب کام وقت آتا ہے تو یہ لوگ کچھوے کو بھی
شرمندہ کردیتے ہیں۔آج کل عام مسافر جی پی ایس کی مدد سے چند سیکنڈ میں یہ
جان لیتا ہے کہ کون سی گاڑی کہاں ہے؟ وقت پر ہے یا تاخیر سے چل رہی ہے۔ اس
اندوہناک حادثے کی کرونولوجی دیکھیں تو قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ
محض خبر کے آنے میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔ اس وقت تک دوسری ٹرین کے پڑی سے
اترنے کی اطلاع نہیں ملی تھی۔ مال گاڑی کے پٹری سے اترنے کی خبر تین گھنٹے
بعد رات دس بجے آئی۔ابتداء میں صرف تیس لوگوں کی موت کا اندازہ تھا جو رات
دیر گئے بڑھ کر دو سو پر پہنچ گیا ۔ اس کو دیکھ کے ایسا لگتا ہی نہیں کہ کل
یگ ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے تریتا یُگ میں یہ سب ہورہا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کا بیان نہ صرف تاخیر سے آیا بلکہ اس میں حساسیت کا
شدید فقدان تھا۔ انہوں نے ٹوئٹ کیا ’’اڈیشہ میں ٹرین حادثے سے دکھی ہوں۔
دکھ کی اس گھڑی میں میرے خیالات سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ میں زخمیوں
کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہوں۔ ریلوے کے وزیر اشونی ویشنو سے بات کرکے
صورتحال کا جائزہ لیا۔ جائے حادثہ پر امدادی کام جاری ہے اور متاثرہ افراد
کی ہر ممکن مدد کی جا رہی ہے۔‘‘ اس ٹویٹ کا اگر دیگر رہنماوں مثلاً صدر
مملکت دروپدی مرمو ، ممتا بنرجی ، پرینکا گاندھی یا جے پی نڈا سے موازنہ
کیا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نے ایک سر سری کا ٹویٹ کردیا
جو تین لوگوں کی ہلاکت پر بھی کیا جاسکتا تھا ۔ وزیر اعظم سے پہلے بیان
دینے کی جرأت تو خیر صدر مملکت بھی نہیں کرسکیں لیکن بعد میں انہوں نے جو
بیان دیا اس میں دردمندی کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے لکھا:’’بالاسور،
اڈیشہ میں ایک بدقسمت ریل حادثےکے سبب جانوں کے ضیاع کی بابت جان کر گہرا
غم ہے۔ میرا دل سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہے۔ میں امدادی کارروائیوں کی
کامیابی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہوں‘‘۔
ممتا بنرجی نے بھی اسی طرح دکھ کا اظہار کرنے کے بعد لکھا کہ وہ اڑیشہ
سرکار اور جنوب مشرق ریلوے کے ساتھ مل کر کام کررہی ہیں نیز 5-6 ممبران کی
ایک ٹیم بھی موقع واردات پر بھیج رہی ہیں۔ پرینکا گاندھی نے ہلاک ہونےوالوں
کے پسماندگان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ زخمیوں کی صحتیابی کے لیے دعا کرنے
کے بعد کانگریسی کارکنان سے راحت کاموں میں حصہ لینے کی ترغیب دی ۔مودی سے
اچھا بیان تو نڈا نے دیا۔ انہوں نے بھیانک حادثے سے انتہائی رنج و غم کے
باعث دل کے اداس ہونے کی بات کہی۔ اس کے بعد انہوں نو سالہ تقریبات کو ایک
دن کے لیے منسوخ کرنے کا اعلان کیا مگر کارکنان کو کچھ کرنے کے لیے نہیں
کہا کیونکہ وہ لوگ خدمت خلق بھول چکے ہیں۔ ان کو تو صرف دنگا فساد میں مزا
آتا ہے۔ بی جے پی کی ٹرول آرمی کے لیے حادثے کے جمعہ کو ہوناا سے
مسلمانوں سے جوڑنے کے لیے کافی تھا ۔ اپنی مذموم کوشش میں وہ پاس کی ایک
عمارت کو مسجد قرار دے کر اس میں اسلامی دہشت گردی کا زاویہ تلاش کرنے لگے
لیکن بھلا ہو زبیر کے آلٹ نیوز کا کہ انہوں نے سٹیلائٹ تصویر کو زوم کرکے
بڑا کیا تو پتہ چلا وہ ’اسکون مندر‘ ہے ۔ اس طرح پھر سے یہ فرقہ پرست
اوندھے منہ گر گئے۔ قدرت انہیں بار بار سبق دیتی ہے مگر یہ لوگ مان کر نہیں
دیتے یہ لوگ بھول گئے ہیں کہ ایک خاص مدت تک اصلاحِ حال کا موقع باقی رہتا
ہے اور اس کے بعد سبق کے بجائے سزا سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ خدا کی لاٹھی بے
آواز ضرور ہے لیکن بے اثر نہیں. یہ ایسی جگہ گھیر کر مارتی ہے جہاں گمان تک
نہیں ہوتااور ظالم اپنے انجام تک پہنچ جاتا ہے ۔ |