خواجہ ناظم الدین(دوسرے گورنر جنرل | دوسرے وزیر ِاعظم) ٭٭٭ قسط سوئم آخری٭٭٭شخصیت اور سیاسی فیصلے

پاکستا ن کے سربراہان ِمملکت٭باب3 ٭

حسین شہید سہروردی۔خواجہ ناظم الدین۔مولوی فضل الحق۔ ملک غلام محمد۔ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائر)اعظم خان۔ممتاز دولتانہ۔مشتاق گورمانی۔مولانا عبدالستار خان نیازی۔مولانا مودودی

گورنر جنرل و وزیر ِاعظم خواجہ ناظم الدین (1894ء۔1964ء)
تحقیق و تحریر:عارف جمیل

شخصیت اور سیاسی فیصلے٭ قسط سوئم آخری٭

پاکستان کے پہلے برطرف وزیر ِاعظم خواجہ ناظم الدین نے بحیثیت سیاست دان جتنی شہرت حاصل کی وہ اُنکی ذاتی خوبیوں کا پیش خیمہ تھی۔لیکن جونہی گورنر جنرل سے وزیر ِاعظم کا عہدہ سنبھالا تاریخ میں ایک کمزور وزیر ِاعظم سے زیادہ اپنی اہمیت نہ قائم کر سکے۔ بلکہ ملک کی اُن طاقتوں کے لیئے کٹھ پُتلی بن کر ایسے فیصلے کرنے سے بھی د ریغ نہ کیا جن کی وجہ سے پس ِپردہ طاقتیں مضبوط ہو نے کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جنکی باز گشت تاریخ ِپاکستان کا اہم حصہ بن گئی۔
محترمہ نورالصباح بیگم نے اپنی مشہور کتاب "پاکستان کی مشہور شخصیتیں (میری نظر میں)"کے باب " خواجہ ناظم الدین" میں بیان کرتی ہیں کہ:گہرا سانولا رنگ۔ گول سی ناک۔ آنکھوں میں عقل و دانش کی جھلک، درمیانی پیشانی، چھوٹا قد، جسم فرابہ، بہت نیک، ایماندار اور واضعدار شخصیت کے مالک خواجہ ناظم الدین سیدھے سادے انسان تھے۔ انکساری اور سادگی کا مجسمہ، خاموش اور متین طبیعت کے مالک۔ تحریک پاکستان کے غازی۔آگے جاکر یہ بھی تحریر کرتی ہیں کہ خواجہ صاحب اتنے سیدھے تھے کہ کسی شخص کی طرف سے کوئی شخص ان کے کان بھر دیتا کہ یہ آدمی آپ کے لیے نقصان دہ ہوگا۔بس خواجہ صاحب پھر اس شخص سے اس قدر مشکوک ہو جاتے تھے کہ کوئی دلیل بھی نہیں کام کر سکتی تھی خود اپنی طرف سے نہیں سوچتے تھے۔قومی لباس سے ان کو ہمیشہ دلچسپی رہی اور وہ آخری وقت تک شیروانی اور ٹوپی کو مغربی لباس پر ترجیح دیتے رہے۔
خواجہ ناظم الدین کی ایک خوبی اُنکی" آنکھوں میں عقل و دانش کی جھلک"نظر آتی تھی۔بس یہی خوبی اُنکی سیاسی زندگی کے عروج کا باعث بنی۔ بنگال کے دومشہور سیاست دان شیر ِبنگال مولوی فضل الحق اور حسین شہید سرودری جیسے جہاں دیدہ اور بااثر اشخاص کے سامنے خواجہ ناظم الدین جیسے خاموش اور متین طبیعت کے مالک کا اپنی اہمیت کو اُجاگرکرنا ایک غیر معمولی کامیابی تھی۔ بنگال میں شہرت،پھر مسلم لیگ میں،بعد ازاں قائد ِاعظم کے اہم رفیق اور قیام ِپاکستا ن کے بعد بنگال کا وزیر ِاعلیٰ بننا اُنکی واقعی اُس عقل و دانش کو واضح کرتی ہے جسکی وجہ سے گورنر جنرل محمدعلی جناح کے انتقال کے بعد بغیر کسی حیل و حجت کے وزیر ِاعظم لیاقت علی خان کی تائید سے خواجہ ناظم الدین کوگورنر جنرل پاکستان بنا دیا گیا۔
خواجہ ناظم الدین وزیر ِاعظم کیسے اور کیوں بنے جب کہ وہ ایک ایسے عہدے پر تھے جس پر بانی ِپاکستان محمد علی جناح نے ابتدائی ذمہ داریاں نبھائی تھیں۔اس پر اُنکی اپنی رائے سے ہی اندازہ ہو جا تا ہے کہ اُنھوں نے وزیر ِاعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے فوراً بعد وزیر ِاعظم ِپاکستان بننے کو خود ہی کیوں ترجیح دی تھی۔اُنھوں نے وزارت ِعظمیٰ کے عہدے کے دوران ہی نہایت حسرت آمیز لہجے میں کہا تھا کہ وہ گورنر جنرل تھے تو اختیارات کا ارتکاز وزیراعظم کی ذات میں تھا اب وزیراعظم ہوں تو اختیارات گورنر جنرل کے پاس ہیں۔
خواجہ ناظم الدین نے جب گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑا تو اُنکی جگہ پاکستان کے پہلے وزیر ِخزانہ غلام محمد کو گورنر جنرل بنا دیا گیا۔جنہوں نے صرف چند یوم قبل شدید بیماری کی وجہ سے وزارت ِخزانہ کی ذمہ داری سے سبک دوشی کی درخواست کی تھی اورملک غلام محمد خیبر میل کے ذریعے راولپنڈی روانہ ہو چکے تھے۔لیکن جونہی وزیر ِاعظم لیاقت علی خان کی شہادت کی خبر ملی اور اُنکا جسد ِخاکی ابھی راولپنڈی ہسپتال میں ہی تھا تو ملک غلام محمد جو ابھی راولپنڈی میں ہی تھے نے اپنے حکومتی ساتھی مشتاق احمد گورمانی کے ساتھ مِل کے عہدے بانٹ لیئے۔ ایک گورنر جنرل بن گئے اور دوسرے گورمانی وزیر ِ ِداخلہ۔ یہ کام بادشاہ گروں کا ایک گروہ رازداری سے کررہاتھا جو جمہور اور جمہوری روایات کو کچھ نہیں سمجھتا تھا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کی وجہ سے مسلم لیگ کا صدارتی عہدو خالی ہونے پر خواجہ ناظم الدین کو مسلم لیگ کاصدر منتخب کرنا بھی اُسی کی کڑی تھی۔ حالانکہ وہ گورنر جنرل کے طور پر سیاست میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے مسلم لیگ کے ابتدائی ممبر نہ رہے تھے۔ یہ سب کیسے ہوا؟خواجہ ناظم الدین اِن فیصلوں کے کتنے حامی تھے یا وہ صرف لیاقت علی خان جیسا باوقار اور با اختیار وزیر ِاعظم بننے کی خواہش رکھنے کی وجہ سے سب کچھ پس ِپشت ڈال چکے تھے۔ پھر بحیثیت وزیر ِاعظم تاریخ نے اُنکے ساتھ کیا کیا؟
خواجہ ناظم الدین نے جب وزارت ِ عظمیٰ کا قلمدان سنبھالا توآئین سازی کا نہایت اہم مسئلہ اُلجھا ہوا تھا۔ خوراک کی شدید قلت کا سامنا تھا۔ صوبائی مسلم لیگ میں خلفشار اور گروہ بندی نے خواجہ ناظم الدین کو بحیثیت صدر مسلم لیگ دِل گرفتہ بنا دیا تھا۔ غرض بے شمار مسائل نئے وزیراعظم کو ورثہ میں ملے تھے اور اُنکے دور ِحکومت میں مسائل کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔وہ ابھی اُن مسائل کو حل کرنے کی کوششوں میں ہی تھے کہ پنجاب میں قادیانیوں کے خلاف محاذ آرائی شدت اختیار کر گئی۔
"ختم ِنبوت تحریک" کے نام سے یہ احتجاج خواجہ ناظم الدین کی حکومت کیلئے آخری کیل ثابت ہوا۔جس کی پہلی وجہ وزیر ِاعلیٰ پنجاب ممتاز دولتانہ کا اس تحریک سے فائدہ اُٹھانے کیلئے مرکزی حکومت کو کمزور کر کے خود مرکز کے ایوانوں میں پہنچنے کی منصوبہ بندی تھی۔دوسرا 23 ِ فروری1953 ء سے لیکر 4ِمارچ1953ء تک پنجاب میں ایک ایسا ہنگامہ آرائی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھاجس میں اموات،زخمی افراد کی تعداد اور املاک کے نقصانات کو مدِ ِنظر رکھتے ہوئے لاہور میں پہلے کرفیو نافذکر دیا گیا اور پھردو دِن بعد 6 ِمارچ 1953 ء کو لاہور میں مارشل لاء لگا دیا گیا جس کیلئے میجر جنرل اعظم خان کو مارشل لا ء کا ناظم ِاعلیٰ مقرر کیا گیا۔
"ختم ِنبوت تحریک" کے دوران ہنگامہ آرائی کرنے والوں کی گرفتاریوں عمل میں لا ئی گئیں۔جن میں دو اہم ترین مذہبی رہنماء مولانا عبدالستار خان نیازی اور مولانا مودودی بھی شامل تھے۔مولانا مودودی اس سے پہلے بھی محمدعلی جناح کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد ملک میں اسلامی نظام کے نافذ کے مطالبے پر گرفتار ہو چکے تھے اور اس مرتبہ اُن پر " قادیانی مسئلہ" نامی کتاب لکھنے کاالزام تھا۔اسکے علاوہ خواجہ ناظم الدین نے میجر جنرل اعظم خان سے وزیر ِاعلیٰ پنجاب ممتاز دولتانہ کو ڈرا دھمکا کر مستعفی ہونے پر مجبور کردیا جو جمہوری روایات کے سراسر منافی تھا لیکن اس سرزمین پر جمہوری اقدار کی پاسداری کس نے کی یہاں سیاسی مطلب کے لیے ہر بات جائز تصور کی جاتی رہی۔یہ سب کچھ میجر جنرل اعظم خان کی سر پرستی میں ہو رہاتھا۔لہذا اُن دِنوں یہ نعرہ بہت مشہور ہو گیا" اعظم،ناظم، مارشل لاء"۔
اِن حالات میں پر نٹ میڈیا نے بھی جلتی پر تیل چھڑک دیا اور ایک اخبارنے اپریل 1953 ء میں " مستعفی ہو جائیے" کہ زیر ِعنوان اداریہ سپرد قلم کر کے وزیر ِاعظم خواجہ ناظم الدین کو رخصت کرنے کی راہ ہموار کرنے میں نہایت بھونڈاکردار ادا کیا۔اداریہ میں خواجہ ناظم الدین کی شرافت اور مخلص طریقے سے حکومت کرنے کی خوبیاں بیان کی گئیں اور پھر اگلی سطروں میں لکھا گیا کہ!وہ قوم پر ایک آخری اور بڑا احسان کریں۔ وہ یہ کہ اپنی پوری کابینہ سمیت مستعفی ہو جائیں اور گورنر جنرل کو موقع دیں اگر نئی وزارت نہیں بن سکتی تو نہ سہی۔ گورنر جنرل آئین کو معطل کر دیں اور نئے انتخاب تک مستقل سروسز کے ذریعے حکومت چلائیں۔ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ عوام ایماندار اور محنتی سرکاری افسروں کی حکومت کو نااہل اور بد عنوان اہل سیاست کی حکومت پر ترجیح دیں گے۔یہ ایک ایسی تجویز تھی جس میں " نوکرشاہی" انتظامیہ کو عوامی نمائندہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
گورنر جنرل ملک غلام محمد کو تمام تر سیاسی،معاشی اور مذہبی کشمکش میں خواجہ ناظم الدین اور اُنکی کابینہ کو گھیرا دیکھ کر اخبار کی سطروں سے بھی سہارامِل گیا اور 7 ِ اپریل 1953ء کو قلم کی ایک جُنبش سے خواجہ ناظم الدین کو اُن کی کابینہ سمیت برخاست کر دیا۔ خواجہ ناظم الدین نے18 ماہ بحیثیت وزیر ِاعظم ذمہداریاں نبھائیں لیکن شاید ہی کوئی دِن ہو گا کہ اُنکے کسی فیصلے پر کوئی سازش سامنے نہ آئی ہو۔ابھی اس میں وزیر ِاعظم لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیق ایک الگ معاملہ تھا۔ساتھ میں جاگیر دار وں کی مداخلت پاکستانی سیاست میں ایک ایسا کردار ادا کر رہی تھی جس نے اداروں کو بھی ناکارہ بنا کر رکھ دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین کی کمزور وزارت سے اگر آغاز ہوا تو وہ تھی محلاتی سازشیں۔
٭(جاری ہے)٭ سلسلہ پاکستان کے سربراہان ِمملکت ٭٭ اگلی شخصیت " ملک غلام محمد "٭٭















Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 205 Articles with 341502 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More