ملک میں مسلمان ،لیڈرشپ کی تلاش میں سرگرداں

ہندوستان کے عوام کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے بھی روزمرہ کے مسائل ایک جیسے ہیں، موجودہ حالات میں انہیں بے روزگاری ،تعلیمی مسائل کے بعد فرقہ پرستی جیسابھی مسئلہ درپیش ہے،لیکن ایک سنگین مسئلہ کا آج انہیں سامنا ہے ،وہ ،مسلمان لیڈرشپ کافقدان ہے،

حال میں ملکی اور علاقائی سطح پر دو تین عشرے میں ابھری ہے ،اسے منصوبہ بند طریقے سے بدعنوانی اور مختلف جرائم کا الزامات عائدکرکے جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے،اعظم خان،نواب ملک وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔کئی تو سیاسی سرگرمی سے ڈرنے لگے ہیں۔

فی الحال سیاسی بحران سے دوچار نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی)کے رہنماء شردپوار نے چند ماہ قبل ممبئی میں مسلمانوں کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے 1990،1980،1970 کے عشرے کے چند رہنماؤں کے نام لیتے ہوئےانہیں یاد کرتے ہوئے کہاکہ ہم اور خصوصاً مسلمان انہیں بھلا کے ہیں،یہ حقیقت ہے اور اس سے چشم پوشی ممکن نہیں ہے۔ہم جس دور سے آج گزر رہے ہیں اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ملک ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر گزشتہ دو عشرے میں مسلمانوں کے بولنے والے اور حقوق کی لڑائی لڑنے والوں کو زندگی سے محروم کردیا۔

شردپوار کے بیان سچائی پر مبنی ہے،یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے اچھے رہنماؤں کی قدر نہیں کی ہے۔
مولانا الطاف حسین حالی نے سرسید احمد خان کی سوانح عمری حیات جاوید میں مصر کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان کے سفر یورپ کا تفصیلی ذکر کیا ہے، مصری عالم نے 1900 سے قبل یہ سفر کیا اور اپنے سفر نامہ میں اہل یورپ کی ملکی اور قومی ہمدردی کے بارے میں روشنی ڈالی ہے اور رقم طراز ہے کہ "فی الحال ان کے انہی کاموں نے یورپ کے لوگوں کو دنیا کی دوسری قوموں سے بالاتر اور بزرگ کر دیا ہے۔ اہل یورپ کی یہ خاصیت ہے کہ وہ اپنے وطن اور قوم کی خدمت کرنے والے رہنماؤں کی صرف بہترین خدمات کو سامنے رکھتے ہیں، جو کہ ان رہنما ہیں نے عام فلاح و بہبود اور اصلاح کیلئے کی ہیں اور یہ بھی خصوصیت ہے کہ ان کے عیبوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں ۔ مصری عالم نے اٹلی ،فرانس، برطانیہ اور روس کے چند وطن پرستوں کی فہرست پیش کی اور ان کے نام لیے اور ان کے اخلاقی عیوب بیان کئے ہیں۔ پھر ان شخصیتوں کے حوالے سے مصرفی مورخ اور سیاح عالم نے لکھا ہے کہ ان کے عیوب پر اہل یورپ بالکل توجہ نہیں دیتے ہیں، بلکہ قوم پر کیے گئے ان کے احسانات کو یاد کر کے ان کے نام پر سر جھکاتے میں ان کے اسٹیچو مجسمہ نصب کرتے ہیں اور ان رہنماؤں پر فخر اور ان کی تعظیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی قبر گاہ کو زیارت گاہ بنا دیتے ہیں۔ ان کی خامیوں اور غلطیوں کو معاف کر دیتے ہیں اور ان کی خوبیوں کا ذکرکرتے ہیں ،لیکن اہل مشرق اور خصوصی طور پر برصغیر ہند و پاک میں اس چیز کا فقدان ہے، بلکہ یہ سوچ ختم ہی ہو چکی ہے۔ اہل مشرق اور اس خطہ کے باشندے اپنے قومی رہنما ؤں، سماجی کاموں میں مصروف افراد کے ساتھ ساتھ علمائے کرام کو بھی نہیں بخشتے ہیں اور ان کے اعلیٰ اور قوم وملت کے حق میں کیے گئے کاموں کو نظر انداز کر کے ان کے عیوب کی تلاش کرتے ہیں، بلکہ اس کام میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ ان کی تشہیر کرتے پھرتے ہیں اور ایسی شخصیتوں کی خوبیوں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، ان کی سماجی تعلیمی اور سیاسی خدمات کو بھلانے میں ماہر ہے۔
ملک کے مشہور مسلم مجاہد آزادی اور نہرو کابینہ میں پہلے وزیر تعلیم اور دو قومی نظریہ کی شدت سے مخالفت کرنے والے مولانا ابوالکلام آزاد کی قبر پر کوڑے کرکٹ کا ڈھیر لگا رہتا ہے ۔مولانا آزاد کو ان کی سالگرہ اور برسی پر ہی ان کی قبر پر پہنچ کر چند افراد یاد کرلیتے ہیں۔

ایک طویل فہرست ہے ،جن وزیر برائے خوراک اور رسد خود بھی راشن کا اناج ہی استعمال کرتے تھے۔ جن کی مثال آج کے دور میں دی جاسکتی ہے، اس فہرست میں مشہور ماہر تعلیم ،سیاستداں اور دانشور اور سلمان رشدی کو اس کی اسلام دشمنی کا جواب "محمد اور قرآن"جیسی کتاب کی شکل میں دیاکہ ہاں مرحوم ڈاکٹر رفیق زکریا کی شخصیت اور ان کی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔

ڈاکٹر رفیق ذکریا کی شخصیت ایسی ہے کہ جنہوں نے نہ صرف جدو جہد آزادی کے دوران برطانیہ میں ایک طالب علم لیڈر کی حیثیت سے اہم رول ادا کیا ، بلٹز کے ایڈیٹر انچیف آر کے کرنجیا کے ہمراہ دوسری جنگ عظیم میں جنگی نمائندے کے طور پر بھی سرگرم رہے، دو قومی نظریہ کے کٹر مخالف رفیق تعلیمی خدمات کو اورنگ آباد اور ممبئی سمیت مباراشٹر کے عوام کیسے بھول سکتے ہیں۔ مصنف مفکر مدبر، دانشور، ماہر تعلیم اور سیاستداں کو ہی نہیں بلکہ بہت سوں کو ہم نے اپنی یادداشت سے نکال باہر پھینک دیا۔ دوسروں سے کیا گلہ کریں۔ اخبارات میں ان کی سرگرمیوں کی خبریں پڑھ کر اور جلسوں میں انہیں دیکھتے ہوئے بڑے ہوئے۔ صحافت سے وابستگی کے بعد قربت ہوگئی،رفیق ذکر یا نے ہمیشہ نو جوانوں کی حوصلہ افزائی کی جن میں میں بھی شامل رہا۔ انقلاب کے مدیر مرحوم ہارون رشید نے پرنٹر پبلشر عزیز کھتری کا پیغام دیا کہ ادارہ انقلاب ڈاکٹر رفیق ذکریا کی کتاب محمد اور قرآن کا اردو ترجمہ شائع کر رہا ہے اور اس کی پروف ریڈنگ کے لیے ڈاکٹر صاحب نے جاوید کا نام لیا ہے جو کہ تصحیح کرنے والوں کی ٹیم میں شامل رہیں گے۔ یہیں سے میرے اور ڈاکٹر رفیق زکریا کے ساتھ تعلقات استوار ہوگئے ۔بانی انقلاب عبد الحمید انصاری پر لکھی گئی میری سوانح عمری انقلابی صحافی اور مجاہد آزادی کا مسودہ پڑھ کر انہوں نے پیش لفظ لکھنے کی خواہش ظاہر کی اور مفصل طور پر تحریر کیا تھا۔ ڈاکٹر رفیق زکریا نے متعدد کتابیں لکھی ہیں۔آجن میں ملک کی آزادی اور تقسیم بڑھتے فاصلہ بھی شامل ہے۔

انہوں نے مسلمانوں کے حالات اور کئی رہنماؤں پر انہوں نے قلم اٹھایا، لیکن جہاں تک محمد اور قرآن کا معاملہ ہے وہ اپنی نوعیت کی ایک الگ کتاب رہی ہے اور اس دور میں ایسی جسارت کرنے والے وہ واحد انسان تھے ،جنہوں نے سلمان رشدی جیسے لوگوں کو منہ توڑ جواب دیاتھا،مرحوم مفکر اسلام مولانا عبد الحسن علی ندوی ، المعروف علی میاں نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر رفیق زکریا نے بہت معقول اور صحیح طریقے سے پیغمبر اسلام اور قرآن کے بارے میں پھیلی غلط فہمیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان نام نہاد مستند مورخین کا پردہ فاش کیا ہے، جن کے بیانات پر مغربی مصنفوں نے انحصار کرتے ہوئے غلط روش اختیار کی ۔شیطانی آیات نامی کتاب اس کانتیجہ ہے جوکہ غلط فہمیاں پیدا کرتی ہیں۔

ڈاکٹر رفیق زکریا نے اپنی انگریزی کتاب "محمد اور قرآن میں تفصیل سے بتایا ہے کہ کس طرح رشدی اور اس کے مغربی پیشرووں نے اسلامی تاریخ کی قابل اعتماد مواد کو دانستہ طور پر نظر انداز کیا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن، لڑائیوں اور شادیوں کے بارے میں جو الزام تراشیاں کی گئی ہیں،زکریا صاحب نے نہ صرف ان کی وضاحت کے ساتھ تردید کی ہے، بلکہ اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات کا نچوڑ بھی پیش کیا ہے اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک خدا کے بھیجے ہوئے تمام پیغمبروں کے قصے نقل کئے ہیں۔ جنہیں قرآن پیش کرتا ہے، انہوں نے رشدی کے الزامات کا ایسے سنجید و اور معقول انداز میں جواب دیا ہے کہ اس تصویر کا اصل رخ سامنے آجاتا ہے۔ یہ کتاب عوام و خواص اور خاص طور پر مغربی عوام کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرتی ہے۔ جبکہ اس ضمن میں پاکستان کے جید عالم مولانا کوثر نیازی مرحوم نے لکھا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ ڈاکٹر رفیق زکریا نے اپنی زندگی میں کتنے گناہ کئے اور کتنے نہیں کیے لیکن اس کتاب سے لکھنے کے بعد میں وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ ان کی" جگہ جنت میں محفوظ ہے.

ملک میں اگرہم گزشتہ دو دہائیوں کا جائزہ لیں توایک بھی قدآور رہنماء نظر نہیں آرہا ہے ۔

 

Javed Jamal Uddin
About the Author: Javed Jamal Uddin Read More Articles by Javed Jamal Uddin: 53 Articles with 40800 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.